• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیبرپختونخوا کے بجٹ میں 30کروڑ روپے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کےلئے مختص کئے جانے پر دو بحثیں شروع ہوگئی ہیں۔ پہلی بحث سیاستدانوں کے درمیان بڑی شدت وحدت سے جاری ہے۔ سیاست دانوں کا ایک طبقہ خیبرپختونخوا کی حکمران جماعت پی ٹی آئی خصوصاً عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنارہا ہے کہ انہوں نے مدارس کے لئے تیس کروڑ کی رقم کیوں مختص کی؟ تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مدارس تو دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں، گویا اب دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو قومی خزانے سے نوازا جائے گا۔ اس کے جواب میں عمران خان کا موقف یہ ہے کہ مدارس بھی تعلیم عام کررہے ہیں، روشنی پھیلارہے ہیں، جہالت ختم کررہے ہیں، چنانچہ کالج یونیورسٹیوں کی طرح مدارس کےلئے بھی بجٹ ہونا چاہئے تاکہ ان کی محرومیاں دور ہوں، اور وہ بھی رفتہ رفتہ پوری طرح قومی دھارے میں آسکیں۔
دوسری بحث خود اربابِ مدارس کے مابین شروع ہوگئی ہے۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ دینی مدارس کو حکومتی امداد قبول نہیں کرنی چاہئے۔ اسے ٹھکرادینا چاہئے، کیونکہ دارالعلوم دیوبند کے ’’اصولِ ہشتگانہ‘‘ کے تحت دینی مدارس سرکاری امداد نہ لینے کے پابند ہیں۔ حال ہی میں دارالعلوم دیوبند کےلئے ہند سرکار نے ایک ارب روپے کی گرانٹ کا اعلان کیا، مگر دارالعلوم دیوبند نے اپنے اساسی اصول کی پاسداری کرتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ مفتی سیّد عدنان کاکاخیل کا کہنا ہے کہ مدارس میں سرکاری امداد کئی اعتبار سے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ایک تو قاسم العلوم و الخیرات کے ’’اصول ہشتگانہ‘‘ میں اس کی صراحتاً ممانعت ہے۔ دوسرا سرکاری امداد کا سن کر اس کو کافی جان کر مدارس کے ساتھ تعاون کرنے والے عام مسلمان اپنا ہاتھ کھینچ لیں گے۔ اگر کبھی مدارس کی معاشی شہ رگ کاٹنے کے خیال سے یہ سرکاری امداد بند ہوگئی تو نہ اِدھر کے رہیں گے اور نہ اُدھر کے۔ تیسرا سرکاری پیسہ کے ساتھ اس کے آڈٹ اور مصارف کی تفصیلات کی جانچ کا اختیار بھی سرکار کے علاوہ ذرائع ابلاغ کو بھی حاصل ہوجائے گااور میڈیا کے تبصرے شروع ہوجائیں گے۔ اگر کل کلاں کسی آڈیٹر نے بدنیتی سے ہی اس کے مصارف پر انگلی اُٹھادی تو عوامی اعتماد کی وہ عمارت جو دہائیوں میں تعمیر ہوئی ہے آن واحد میں زمیں بوس ہوجائے گی۔ اس حوالے سے مدارس دینیہ کی روایت ایسی امداد کے عدم قبول ہی کی رہی ہے، جیسا کہ اوپر ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے حالیہ تعامل کا تذکرہ ہوا۔ اس عاجز کو یاد ہے کہ مولانا حامد میاں کی وفات پر جنرل ضیاء مرحوم تعزیت کے لئے آئے۔ جامعہ مدنیہ کے لیے ایک خطیر رقم کا اعلان کیا، مگر جامعہ مدنیہ نے شکریہ کے ساتھ تعاون کی یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کردیا۔ آخری بات یہ کہ سرکاری روپیہ پیسہ اپنے ساتھ وہ تمام مفاسد لاتا ہے جس کا مشاہدہ سرکاری محکموں میں روزمرہ کیا جاتا ہے۔ نیز سرکاری امداد پر چلنے والے مدارس کا انجام بھی اہل فکر و نظر سے مخفی نہیں ہے۔ سرکاری امداد دینی مدارس کی آزادی، خودمختاری، عزت و وقار اور اپنے اسلاف کی مسلسل متوارث روایات کے خلاف ہے۔ وفاق المدارس کے جنرل سیکرٹری قاری حنیف کا کہنا ہے کہ دینی مدارس کی حریت فکر و عمل اور آزادی اصل چیز ہے۔ ہمارے اکابر اور اسلاف نے اب تک یہ پالیسی اختیار کی ہے کہ حکومت یا سرکار سے کسی قسم کی امداد قبول نہیں کرنی، بلکہ یہ عوامی چندے اور تعاون سے مدارس کام کریں گے۔ سب سے اہم چیز ان مدارس کی آزادی اور خودمختاری ہے۔ اس کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ یہ مدارس دین کی صحیح دعوت اور تبلیغ کا کام تب ہی کرسکتے ہیں اگر کسی حکومت کے رحم و کرم پر نہ ہوں۔
دوسرے حضرات کا خیال ہے کہ دارالعلوم دیوبند ایک جبر کے دور میں قائم ہوا تھا۔ اس وقت کے اکابر نے حالات کے مطابق فیصلہ کیا تھا کہ دارالعلوم دیوبند سرکاری امداد قبول نہ کرے گا، جبکہ دارالعلوم دیوبند کے قیام سے قبل ہر قسم کے علوم و فنون کی تعلیم ایک ہی درسگاہ میں ہوتی تھی۔ دینی علوم اور دنیاوی فنون میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا۔ ان مدارس سے ابوریحان البیرونی اور اُن جیسے دوسرے عظیم فلاسفر، حکماء اور سائنسدان پیدا ہوئے تو وہ بھی علمِ حدیث، علمِ تفسیر، عربی زبان، فقہ اور اُصولِ فقہ کا بھی وافر علم رکھتے تھے۔ اُس زمانے کے مسلمانوں میں عظیم فلاسفر، سائنسدان اور اطباء بھی تھے۔ جغرافیہ، ریاضی، علم ہیئت اور فلکیات کے ماہرین بھی تھے جو دینی علوم بھی جانتے تھے۔ یہ سارے کے سارے مدارس سرکاری سرپرستی میں چلتے تھے۔ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے دور میں نظامِ تعلیم وہی چل رہا تھا۔ یہاں کی سرکاری زبان فارسی تھی، اُس زمانے کی سائنس اور دوسرے جدید دنیاوی علوم و فنون ہندوستان کے تمام مدارس میں رائج تھے۔ اُس وقت کے علماء ان تمام مضامین انجینئرنگ، علم الہندسہ، حساب، الجبرا، جیومیٹری، علم ہیئت اور فلکیات، جغرافیہ اور طب کو اپنے دینی مدارس میں پڑھتے اور پڑھاتے تھے۔ جب انگریز برصغیر پر قابض ہوگئے توایسی تدبیریں شروع کردیں جس سے مسلمان اپنے دین کو فراموش کرکے ایک غلام قوم کے طور پر اُن کے تابع ہوجائیں۔ انگریزوں نے بھی اپنے عیسائی مبلغین بلاکر یہاں کے مسلمانوں کو طرح طرح کے لالچ دے کر اُن کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنا شروع کیا۔ ان حالات میں اس بات کا شدید خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں اس دورِ محکومی میں اسلامی علوم وفنون، قرآن و حدیث، فقہ، اُصولِ فقہ، تفسیر اور تمام اسلامی علوم کی وہ میراث جو مدارس کے ذریعے صدیوںسے محفوظ چلی آرہی تھی، وہ ہمارے ہاتھوں سے نہ جاتی رہے۔ اس وقت علماء نے سوچا ہم کم ازکم اسلامی علوم تو محفوظ کر ہی لیں۔ اس مقصد کے لئےانہوں نے دارالعلوم دیوبند قائم کیا جو عوامی چندے سے چلنا شروع ہوا۔ اب ہمارے سامنے دو صورتیں ہیں۔ اگر مدارس نے صرف اور صرف قرآن و حدیث کی ضروری تعلیم ہی دینی ہے اور اپنے کام کو محدود اور مختصر سا رکھنا ہے تو پھر انہیں کسی سرکاری امداد اور گرانٹ کی ضرورت نہیں، لیکن اگر حالات کے تقاضوں کے مطابق دین کے تمام شعبوں کے لئے رجال کار پیدا کرنے ہیں اور اپنے کاموں کو عالمی معیار کے مطابق بنانا ہے تو پھر مدارس کا انتظام و انصرام اسی طرح ہونا چاہئے جیسا کہ برطانوی سامراج کے برصغیر میں آنے سے پہلے تھا۔ مدارس کی تمام ضرورتیں سرکاری خزانوں سے پوری ہوا کرتی تھیں۔ برصغیر کے تمام مدارس کےلئے نوابوں، مہاراجوں اور حکمرانوں نے بڑی بڑی جائیدادیں وقف کی ہوئی تھیں۔ علمائے کرام اعلیٰ حکومتی عہدوں پر متمکن تھے۔ ملامسٹر کی کوئی تفریق نہ تھی۔ اب جبر کا دور ختم ہوچکا ہے۔ ہم آزاد ملک میں رہ رہے ہیں۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ اور خودمختار ملک ہے۔ اس کے تمام باشندوں کو ہر قسم کی آزادی ہے۔ جنرل ضیاء کے نظام زکوٰۃ کے نفاذ کے بعد مدارس کے لئے سرکاری امداد لینا اب کوئی عیب بھی نہیں رہا ہے، بس اتنا فرق ہے کوئی چھپ چھپاکر لیتا ہے اور کوئی کسی حیلے بہانے سے پلاٹ ولاٹ کے نام پر۔ کئی مدارس کسی نہ کسی سطح پر سرکاری امداد حاصل کررہے ہیں، چنانچہ تمام مدارس کو کھلے دل و دماغ سے حکومتی امداد قبول کرلینی چاہئے، بلکہ حکومت کو چاہئے کہ جس طرح کالج یونیورسٹیوں کے لئے بجٹ رکھا جاتا ہے اسی طرح تمام مدارس کے لئے بھی رکھے۔ جامعہ حقانیہ میں پورے خیبرپختونخواہ کے طلبہ زیرتعلیم ہیں، اگر حکومت اسی طرح علماء و طلبہ اور مدارس کی سرپرستی کرے تو یہ طلبہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ یہ اپنے اپنے علاقوں میں جاکر امن کے سفیر بن جائیں گے۔ دیگر صوبوں کو بھی خیبرپختوانخوا کے اس اچھے اقدام کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اپنے صوبے کے مدارس کے لئے بجٹ مختص کرنا چاہئے، بلکہ وفاقی حکومت کو بھی چاہئے کہ اپنے بجٹ میں مدارس کے لئے یونیورسٹیوں کے برابر بجٹ منظور کرے۔
تازہ ترین