• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم نے بالآخر اپوزیشن اور مقتدر قوتوں کے دباؤ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امن کو آخری موقع دے ہی دیا۔ویسے ہی میاں صاحب تو امن کی آشا جیسی کوششوں کے داعی ہیں۔ مذاکراتی ٹیم میں شامل چاروں نام ہی قابل احترام ہیں مگر کیا وہ اس ذمہ داری کے لئے موزوں ہیں؟ حکومتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند جو وفاقی سیکریٹری داخلہ وخیبر پختونخوا میں چیف سیکریٹری اور طویل مدت تک امارت اسلامیہ افغانستان میں پاکستان کے سفیر بھی رہ چکے ہیں،ملاعمر مجاہد سے ذاتی دوستی ہونے کے علاوہ طالبان پر کافی حد تک اخلاقی اثر بھی رکھتے ہیں،افغان طالبان کے ساتھ ساتھ پاکستانی طالبان بھی ان کا احترام کرتے ہیں۔تحریک طالبان پاکستان کے امیر مولوی فضل اللہ سے بھی ان کے اچھے تعلقات رہے ہیں بلکہ 2009ء میں سوات آپریشن سے قبل جب عمران خان طالبان کمانڈر مولوی فضل اللہ کی طرف سے مذاکرات کا گرین سگنل ملنے کے بعد حکومت سے مذاکرات کرنے کے خواہاں تھے مگر سابقہ حکومت کے غیر ذمہ دارانہ رویّے کی وجہ سے بات آگے نہ چل سکی تھی تو تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ امیر مولوی فضل اللہ عمران خان سے شدید ناراض ہو گئے تھے اور انہیں سنگین نتائج کے دھمکی آمیز پیغام بھی بھجوائے تھے، تب رستم شاہ مہمند کے کہنے پر مولوی فضل اللہ نے عمران خان کی جان چھوڑی تھی جبکہ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ہی رکن رحیم اللہ یوسف زئی بھی خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں مگر ان سب کے باوجود مذاکراتی عمل کامیاب ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ کمیٹی کے اعلان کے بعد سے اب تک میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ بے شک مذاکراتی کمیٹی کے تمام ارکان معتبر اور قابل احترام ہیں۔ عرفان صدیقی پر مشتمل کمیٹی کے اخلاص پر کسی صورت شک نہیں کیا جاسکتا،دو ممبران کے نہ صرف طالبان سے طویل مراسم رہے ہیں بلکہ وہ قبائلی روایات سے بھی مکمل شناسائی رکھتے ہیں۔ ایک رکن میجر (ر) عامر صاحب کے برادر محترم تو امیر طالبان کے استاد بھی رہ چکے ہیں مگر اس مذاکراتی کمیٹی کو کسی بھی صورت بااختیار نہیں کہا جاسکتا اس لئے نتائج بھی ماضی سے کچھ مختلف نظرنہیں آتے۔ایسی کیا وجہ بنی کہ وزیراعظم نے ایسی کمیٹی جس پر نہ صرف پاکستان بلکہ پورے اقوام عالم کی نظریں مرکوز ہیں ،اس میں کسی وزیر کو شامل نہیں کیا۔ حتیٰ کہ وزیرداخلہ کو بھی کمیٹی سے دور رکھا گیا حالانکہ کمیٹی کے ممبران کا جتنا بھی مینڈیٹ ہو مگر وزیرداخلہ کے اختیارات سے اس کا موازنہ تو نہیں کیا جا سکتا۔ کمیٹی کے ممبران کو قبائلی علاقوں میں جانا پڑے گا، پولیٹیکل ایجنٹ کی معاونت ۔رابطہ کاروں کی ضرورت اور سب سے بڑھ کر سیکورٹی معاملات۔ تو اس سب کے لئے اگر وزیرداخلہ بھی اس کمیٹی کا حصہ ہوتے تو اس میں کوئی عار نہیں تھی۔سرکاری ایوانوں میں تو بازگشت ہے کہ وزیراعظم چوہدری نثار کی حالیہ کارکردگی سے نالاں ہیں اور وہ نئی سیکورٹی پالیسی کو بھی یکسر مسترد کرچکے ہیں ،اس لئے انہیں براہ راست کمیٹی کا حصہ نہیں بنایا گیا،مگر میرے خیال سے وجہ کچھ اور ہے۔ میاں نوازشریف دانا آدمی ہیں اور مذاکراتی عمل کے نتائج کا بھی انہیں علم ہے،اس لئے سرائیکی کی کہاوت ہے کہ وہ ’’گونگلواں توں مٹی لہیندے پین‘‘ یعنی وہ صرف شلجموں سے مٹی اتار رہے ہیں، اس کے علاوہ کچھ نہیں ہونے والا۔ اگر واقعی بااختیار اور بامعنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دینی تھی تو اس کمیٹی میں عسکری ادارے جن میں آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس یا فوج کے میجر جنرل یا ان سے اوپر رینک کے افسران کو بھی شامل کیا جاتا۔ جس پر کہا جاسکتا تھا کہ یہ ایک بااختیار اور لامحدود مینڈیٹ کی حامل کمیٹی ہے کیونکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے اصل مطالبات براہ راست فوج سے متعلق ہیں اور انہی کے پاس ان کا حل ہے۔اگر کمیٹی طالبان کی بنیادی شرائط ماننے پر رضامند ہو بھی جاتی ہے تو اس بات کی کیاضمانت ہے کہ مقتدر ادارے اس پر متفق ہوں گے؟
تادم تحریر اب تک کمیٹی کا پہلا اجلاس اور مذاکراتی عمل کا باقاعدہ آغاز بھی نہیں ہوسکا،مگر یہ بات طے ہے کہ حکومت کی طرف سے نامزد کردہ کمیٹی طالبان سے مذاکرات میں کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ توقع یہ ہے کہ عرفان صدیقی صاحب مذاکراتی کمیٹی اور حکومت کے درمیان پل کا کردا ادا کریں گے جبکہ میجر (ر) عامر عسکری حکام کو پیشرفت سے باخبر رکھیں گے،سب سے اہم ذمہ داری رستم شاہ اور رحیم اللہ یوسف زئی کو سونپی جائے گی۔ دونوں معزز ممبران اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے خصوصی پیغام رسانوں کے ذریعے طالبان کی سپریم لیڈر شپ سے رابطہ کریں گے جبکہ حکومت کو سب سے پہلے طالبان پر اپنا اعتماد بحال کرنا ہوگا،جو کہ فوری ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔طالبان اعتماد کی بحالی کے لئے حکومت سے جو پہلا مطالبہ کریں گے ،حکومت وہی پورا نہیں کر پائے گی،حکومت کی طرف سے تو فوری ایک مطالبہ ہوگا کہ طالبان سیکورٹی فورسز اور نہتے لوگوں کا خون بہانا بند کردیں اور شاید کچھ حد تک اس پر ٹی ٹی پی عمل پیرا بھی ہو جائے مگر طالبان کے جو چند مطالبات سر فہرست ہیں ان میں ڈرون حملوں کی بندش ،پاک فوج کا قبائلی علاقوں سے انخلا اور غیر ملکی افواج کی افغانستان سے انخلا پر واضح پالیسی وضع کرنا ہے،مگر ان سب مطالبا ت سے پہلے مولوی فضل اللہ حکومتی کمیٹی سے جو مطالبہ کریں گے وہ اپنے ساتھی قیدیوں کی رہائی ہے،ان میں پہلے مرحلے میں اپنے جن لوگوں کو رہا کرنے کا کہیں گے،ان میں مسلم خان ،مفتی آفتاب اور محمود خان پٹھان سمیت دیگر 7جنگجو ہیںاور جو فوج کی حراست میں ہیں ،مگر ان افراد کی رہائی کے مطالبے پر معاملہ اٹک جائے گا،اسی لئے عسکری حکام کے ایک اہم افسر کا اس کمیٹی میں ہونا اشد ضروری تھا،کیونکہ اگرعرفان صدیقی صاحب پر مشتمل کمیٹی کے ارکان طالبان قیدیوں کی رہائی کے مطالبے پر رضامند ہوجاتے ،جس کی قوی امید ہے تو اس کی کیا ضمانت ہوگی کہ عسکری حکام انہیں رہا کریں گے یا نہیں،کیونکہ کمیٹی کے ارکان تو اس بات سے لاعلم ہونگے کہ جن افراد کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ان پر کس قدر سنگین کاروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔اس طرح یہ آخری کوشش بھی بالآخر اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی ۔اسی وجہ سے اس کمیٹی میں ان بااختیار قوتوں کے نمائندوں کا شامل ہونا اشد ضروری تھا ،جن سے براہ راست یہ سنگین معاملہ جڑا ہوا ہے،ایسے حالات میں طالبان کہیں گے کہ یہ پہلا مطالبہ حکومت پر اعتماد بحالی کی پہلی کوشش ہے،مگر کمیٹی ارکان کی سفارشات کے باجود طالبان کی فراہم کردہ فہرست پرکسی طالب قیدی کو رہا نہیں کیا جائے گا،جس سے نہ صرف مذاکراتی کمیٹی کے ارکان میں ہی اختلافات پیدا ہو جائیں گے بلکہ مذاکرات کی آخری کوشش بھی سسک سسک کر دم توڑ دے گی۔اور اسی وجہ سے حقانی نیٹ ورک نے بھی مقتدر حلقوں کے بار بار کہنے کے باوجود مذاکراتی عمل کا حصہ بننے سے معذرت کرلی تھی ،کیونکہ طالبان شوری ٰ مذاکراتی عمل کی کوشش کرنے والے ہر شخص سے یہی مطالبہ کرتی ہے کہ ان کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے اور اس فہرست میں سے بیشتر طالبان وہ ہیں جنھیں سوات آپریشن کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور مولوی فضل اللہ کے سربراہ بننے کے بعد یہ مطالبہ مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ہمیشہ سے جن خطرناک شدت پسندوں کی رہائی کا مطالبہ کرتی آئی ہے،ان پر نہ صرف سنگین کاروئیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے بلکہ ان تما م واقعات جن میں پاک فوج کے جوانوں اورنہتے خواتین بچوںکو شہید کیا گیا،ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ایسے قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر حکومت بھی بے بس ہو جائے گی اور پھر ان کٹھن حالات میں حکومت کے پا س سر جیکل آپریشن کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں بچے گا ۔
تازہ ترین