ہیلی کوبیکٹر پائلوری (Helicobacter Pylori)، جسے عام طور پر ایچ پائلوری (H.Pylori) کہتے ہیں، معدے کی بیماری کا سبب بننے والا ایک چھوٹا سا حرکت کرتا ہوا جرثوما ہے۔ اس کی بَل کھاتی ہوئی ساخت (Spira) کی وجہ سے اسے (Helical) کا نام دیا گیا ہے۔ پائلورس سے مُراد معدہ اور آنت ہے، یعنی یہ جرثوما ہمارے نظامِ انہضام (Digestive System) میں موجود ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے جو انفیکشن ہوتا ہے، اُسے ایچ پائلوری انفیکشن کہتے ہیں۔ اس جرثومے یا بیکٹریا کی خاصیت یہ ہے کہ یہ معدے کے انتہائی تیزابیت زدہ ماحول(PH.3.5) پر بھی زندہ رہتا ہے۔ گویا، یہ عموماً خطرناک ثابت نہیں ہوتا۔
تاہم معدے اور آنت کے بیش تر السرز کی وجہ ایچ پائلوری بیکٹریا ہی کو قرار دیا جاتا ہے۔ نوّے فی صد چھوٹی آنت کے السر اور ستّر فی صد معدے کے السر کی وجہ بھی یہی بیکٹریا ہے۔چوں کہ یہ تیزابیت زدہ ماحول میں زندہ رہ سکتا ہے، اِسی بنا پر اسے (Acidophilic Bacteria) کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔ اس کا سائز تقریباً 3مائیکرون میٹر لمبا، جب کہ ڈایا میٹر0.5مائیکرون ہے۔ اس کی بیرونی سطح پر4 سےچھے flagellaہوتے ہیں، جو باریک سے بال نُما شکل کے ہوتے ہیں، ان کی مدد سے یہ جرثوما معدے میں اپنی پوزیشن تبدیل کرتا ہے۔ ایچ پائلوری صحت عامّہ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا کی نصف سے زائد آبادی اس انفیکشن سے متاثر ہے۔ ترقّی پزیر اور کم آمدنی والے ممالک میں20سے30سال کے افراد میں اس انفیکشن کی شرح ممکنہ طور پر80فی صد سے زائد ہے۔ پاکستان میں بھی ایچ پائلوری انفیکشن کی شرح بہت بلند ہے، جس کی طرف توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔یہ پیپٹک السر ڈیزیز (Peptic Ulcer Disease)کی ، جس میں معدے، آنت اور خوراک کی نالی کے السرز شامل ہیں، ایک اہم وجہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ معدے کی دائمی سوزش ، چھوٹی آنت کی سوزش اور معدے کے سرطان کا بھی سبب بن سکتا ہے۔
ماہرینِ صحت کا کئی دہائیوں تک خیال تھا کہ معدے کے السر کی وجہ ذہنی تنائو، آپریشن، تیز مسالے دار خوراک، شراب نوشی اور بُری عادات ہیں۔تاہم، 1982ء میں دو آسٹریلین ڈاکٹرزProfessor Barry Marshall اور Robin Warren نے ایچ پائلوری بیکٹریا دریافت کرکے ثابت کیا کہ معدے کے السر کی سب سے بڑی وجہ اس بیکٹریا کا انفیکشن ہے۔اس دریافت پر دونوں ڈاکٹرز کو2005ء میں نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایچ پائلوری بیکٹریا ہمارے نظامِ انہضام کی کارکردگی متاثر کرتا ہے۔
خردبینی معائنے سے پتا چلتا ہے کہ یہ جرثوما معدے کی دیواروں کو مستقل طور پر چھیلتا رہتا ہے اور یہ امر معدے کی دائمی سوزش کا سبب بنتا ہے۔جب کہ یہ آلودہ پانی، آلودہ خوراک، متاثرہ فرد کے لعابِ دہن، اُلٹی، قے اور انسانی فضلے میں موجود ہوتا ہے۔ عام طور پر منہ کے راستے، جسے (Oro-Fecal Route) کہتے ہیں، انسانی جسم میں داخل ہوکر معدے تک رسائی حاصل کر لیتا ہے اور معدے کی حفاظتی جھلی (Gastric) کی اندرونی تہہ میں جم کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنے آپ کو دفاعی نظام کے خلیات کے وار سے محفوظ رکھتا ہے۔
یہ گیسٹرین (Gastrin) نامی ہارمون بڑھانے کا سبب بنتا ہے، جو معدے کے خلیات (Parietal Cell) پر اثر انداز ہوکر تیزاب یعنی ایسڈ کی سپلائی بڑھا دیتا ہے اور یہ تیزاب، معدے کی حفاظتی جھلّی کو نقصان پہنچانے کا سبب بن جاتا ہے۔ معدے کی حفاظتی یا دفاعی پٹّی (Gastric Mucosa) یہاں سے میوکن (Mucin) نامی پروٹین، پانی اور بائی کاربونیٹ مل کر ایک دفاعی حصار یعنی بیریئر تشکیل دیتے ہیں، جسے(Mucus Bicarbonate Barrier) کہتے ہیں۔ یہ بیریئر معدے کو جراثیم سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس بیریئر میں شامل کاربونیٹ تیزاب کے اثر کو زائل کردیتا ہے۔ ایچ پائلوری اس حفاظتی بیریئر کو نقصان پہنچاتا ہے۔ جب وہ اس بیریئر پر حملہ آور ہوتا ہے، تو معدے پر تیزاب کے مضر اثرات نمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں، جو معدے کی سوزش اور السر کا سبب بنتے ہیں۔
السر ایک خطرناک زخم ہوتا ہے، جس سے خون رِسنا شروع ہوسکتا ہے اور اگر اس کا بروقت اور درست علاج نہ کیا جائے، تو خدانخواستہ معدے کے سرطان کا موجب بھی بن سکتا ہے۔ ایچ پائلوری انسانی معدے میں خامرے (Urease) خارج کرتا ہے، جو یوریا سے امونیا بناتا ہے اور یہ امونیا ایچ پائلوری جرثومے کے اردگرد کے تیزاب زدہ ماحول کی پی ایچ کو بڑھا دیتا ہے۔ اس پی ایچ کے بڑھنے سے تیزاب کے اثرات زائل ہوجاتے ہیں اور ماحول ایچ پائلوری کے لیے سازگار ہوجاتا ہے، اِس طرح وہ تیزاب کے اثرات سے محفوظ رہتا ہے۔
اینزائم یعنی خامرے کی بنیاد پر’’Urea Breath Test‘‘ کیا جاتا ہے، جو ایچ پائلوری انفیکشن کی تصدیق کے لیے ایک مستند ٹیسٹ قرار دیا گیا ہے۔ یہ جرثوما اپنے پائوں نما flagella کی مدد سے زیادہ تیزاب والے ماحول سے نکل کر کم تیزاب والے ماحول میں بھی آجاتا ہے اور اپنی حفاظت کو یقینی بناتا ہے۔ ایچ پائلوری پوری زندگی انسانی معدے میں زندہ رہ سکتا ہے اور مرض کی کوئی علامت بھی ظاہر نہیں ہوتی،صرف خردبینی معائنے سے پتا چلتا ہے کہ معدے میں سوزش کے آثار ہیں۔
یہ جرثوما جب معدے میں پہنچ جاتا ہے، تو وہاں پر یہ زہریلے مادّے خارج کرتا ہے ،جن میں Cage-A ،Vac- B,Baba-A شامل ہیں،جوکہ جینٹیک فیکٹر پروٹینز ہیں، اس کے علاوہ مختلف ہارمونز اور ایمون سسٹم بھی متحرّک ہوجاتا ہے، تو ان تمام کیمیائی تبدیلیوں کے نتیجے میں معدے کا دفاعی نظام کم زور پڑ جاتا ہے۔ معدے کے خلیات میں موجود ڈی این اے میں فری ریڈیکل بننا شروع ہوجاتے ہیں، وٹامن سی (Absorbaid) کا لیول کم ہوجاتا ہے۔
یہ فری ریڈیکل خون کے سفید خلیات (Neutrophils) سے مل کر peroxynitrite بناتے ہیں، جو ایک آکسیڈینٹ ہے۔ یہ آکسیڈینٹ، ڈی این اے میں توڑ پھوڑ کا سبب بنتا ہے اور اس توڑ پھوڑ کے عمل میں معدے کے خلیات میں موت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جسے Cell Death کہتے ہیں۔ یاد رکھیں، ڈی این اے کسی بھی خلیے کے قلب و دماغ کا درجہ رکھتے ہیں اور اگر ان میں کسی قسم کی خرابی یا نقص پیدا ہوجائے، تو خلیات کی کارکردگی متاثر ہوجاتی ہے۔ اب اس نظریے کو تقویت مل رہی ہے کہ اینٹی آکسیڈینٹ کو بطور میڈیسن استعمال کیا جائے کہ جو ڈی این اے میں جاری توڑ پھوڑ کا عمل سست کر دیتی ہے۔ وٹامن سی، وٹامن ای، زنک، Sulforaphane اینٹی آکسیڈینٹ ہیں اور صحت کے لیے مفید ہیں۔
یاد رہے، پھلوں اور سبزیوں میں اینٹی آکسیڈینٹ وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ ایچ پائلوری کو اپنے اندر کیمیائی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے کم مقدار میں آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس جرثومے کو’’Gram Negative Microaerophilic‘‘ کی درجہ بندی میں رکھا گیا ہے۔ اپھر یہ جرثوما آئرن کے ذرّات کو بھی اپنے اندر جذب کرلیتا ہے، جس کی وجہ سے خون میں فولاد کی کمی ہوجاتی ہے اور عموماً مریضوں میںIron Deficiency Anaemia کے شواہد ملتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایچ پائلوری ہزاروں سال سے انسانی صحت کو متاثر کر رہا ہے۔
ایسے علاقے جہاں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات ہوں، آلودہ پانی سپلائی کیا جاتا ہو، صحت کی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہو، تنگ دستی و غربت ہو، گھروں میں گنجائش سے زیادہ افراد رہتے ہوں، نکاسی و فراہمیٔ آب کا کوئی مؤثر نظام موجود نہ ہو، وہاں ایچ پائلوری انفیکشن کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں بچّوں میں ایچ پائلوری کی شرح دیگر ممالک کی نسبت کم ہے کہ وہاں بچّوں کو قدرتی، صاف ستھرا ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ وہاں پینے کا صاف پانی، نکاسی و فراہمیٔ آب کا بہترین نظام موجود ہے۔
عموماً یہ بیکٹریا لڑکپن ہی میں جسم میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر عُمر بھر معدے میں موجود رہ سکتا ہے۔عموماً بچّے صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتے، کوڑے کرکٹ اور گندگی میں کھیلتے ہیں، آلودہ پانی استعمال کرتے ہیں، ٹوائلٹ جانے کے بعد ہاتھ صحیح سے نہیں دھوتے، تو ایچ پائلوری انفیکشن کے آسانی سے شکار ہوجاتے ہیں۔خیال رہے، اس انفیکشن کے پھیلنے کی وجوہ میں متاثرہ فرد کے منہ سے منتقلی بھی ہے۔
مثلاً بوس و کنار کے دَوران بچّوں کو پیار کرتے ہوئے، متاثرہ فرد کے ٹوائلٹ سے فارغ ہونے کے بعد اچھی طرح سے ہاتھوں کو نہ دھونے اور اُن ہی ہاتھوں سے کھانے، پینے کے برتنوں کو پکڑنے، پانی یا کھانے کو آلودہ کرنے سے یا پہلے سے ایچ پائلوری سے آلودہ پانی استعمال کرنے سے انفیکشن پھیل سکتا ہے،کیوں کہ یہ جرثوما کئی کئی دن پانی میں زندہ رہتا ہے۔
پھر ڈینٹل پروسیجرز اور اینڈو اسکوپی آلات کا صاف (Sterilite) نہ ہونا بھی اس کے پھیلائو کا سبب ہے۔ اینڈو اسکوپی سوٹ میں کام کرنے والے طبّی عملے میں ایچ پائلوری انفیکشن کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں یہ پریکٹس عام ہے کہ آپریشن سے پہلے تمام سرجیکل آلات مکمل طور پر اسٹرلائزڈ کیے جاتے ہیں۔ نیز، ویڈیو اینڈو اسکوپی کو بھی فروغ حاصل ہورہا ہے کہ اس طرح اینڈو اسکوپی میں استعمال ہونے والے آلات منہ سے دُور رہتے ہیں اور ایچ پائلوری انفیکشن کے امکانات کم جاتے ہیں۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ عموماً بازاروں میں ٹھیلوں پر پھل، مشروبات اور کھانے فروخت ہوتے ہیں اور وہاں صفائی ستھرائی کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا۔ ایک ہی بار بار بالٹی میں برتن دھوتے ہیں، تو اس طرح بھی یہ انفیکشن لاحق ہوسکتا ہے۔
ایسے مریض جن میں یہ انفیکشن معدے کے آخری حصّے (Antral Part) میں ہو، تو وہاں تیزابیت کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں، نتیجتاً اُن میں سینے کی جلن کی شکایت عام ہوتی ہے اور اگر یہی انفیکشن معدے کے ابتدائی حصّے (Proximal Part) پر ہو، تو معدے میں سوزش کا سبب بنتا ہے، جسے (Dan Gastritis) کہتے ہیں، اس میں عموماً مریض کو کچھ کھانے پینے میں جلن نہیں ہوتی۔ جن افراد کے معدے میں یہ جرثوما موجود ہوتا ہے، اُن میں غذا کی نالی کے سرطان کے امکانات کم ہوتے ہیں، جب کہ معدے کے سرطان کے امکانات 3سے 6گُنا بڑھ جاتے ہیں۔ اِسی وجہ سے اس بیکٹریا کو Carcinogen یعنی سرطان پھیلانے والا بیکٹریا بھی کہتے ہیں۔
علامات:
عموماً ایچ پائلوری انفیکشن کی عُمر بھر کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ 10 سے15 فی صد افراد میں پیپٹک السر کی علامات موجود ہوتی ہیں، جس میں جوف کے اوپری حصّے (Epigastrium) میں وقفے وقفے سے درد ہونا، مریض کا انگلی کی مدد سے درد کی جگہ کی نشان دہی کرنا اہمیت کا حامل ہے۔نیز، بدہضمی، سینے میں جلن، بھوک کی کمی، جی مالش کرنا، ڈکاریں آنا، تھوڑا کھانا کھانے کے بعد پیٹ بَھرا بَھرا سا محسوس ہونا، مروڑ، پاخانے یا اُلٹی میں خون کی آمیزش، وزن میں کمی اور خون کی کمی جیسی علامات بھی ظاہر ہوسکتی ہیں۔ اس انفیکشن کی علامات کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے،کیوں کہ یاد رہے، معدے کے سرطان کی ایک بڑی وجہ ایچ پائلوری ہی ہے اور دنیا میں شرحِ اموات کے لحاظ سے معدے کا سرطان تیسرے نمبر پر ہے۔
تشخیص:
عام طور پر اس انفیکشن کی تشخیص فضلے کے ٹیسٹ، بلڈ اینٹی باڈیز ٹیسٹ، گیسٹرک بائیو آپسی یا یوریا بریتھ ٹیسٹ سے ہوجاتی ہے۔ بیکٹریا کلچر ٹیسٹ کی سہولت ہمارے مُلک میں نہیں ہے۔ ہمارے یہاں اسٹول فار ایچ پائلوری اینٹی جن ٹیسٹ کیا جاتا ہے، جو ایک قابلِ بھروسا ٹیسٹ ہے۔ اینڈو اسکوپی بہرحال ایک Invasive پروسیجر ہے، جس سے عموماً مریض گھبراتے ہیں اور یہ منہگا بھی ہے۔ دنیا بھر میں یوریا بریتھ ٹیسٹ کو ایچ پائلوری کی تشخیص کے لیے مستند قرار دیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں اس ٹیسٹ کی سہولت کم ہی میّسر ہے۔ ایسے نوجوان جو مستقل طور پر بغیر کسی وجہ کے معدے کے عارضے میں مبتلا ہوں، بدہضمی روز کا معمول ہو، خون یا وزن کی کمی کے شکار ہوں یا لمبے عرصے سے السر کی دوا استعمال کر رہے ہوں، اُنہیں چاہیے کہ ایک مرتبہ اپنا ایچ پائلوری ٹیسٹ ضرور کروالیں۔ ایسی فیملیز، جن میں معدے کے سرطان کی ہسٹری موجود ہو، وہ بھی اپنا یہ ٹیسٹ کروائیں اور امریکن گائیڈ لائن کے مطابق ایسے افراد، جو السریا معدے کے سرطان میں مبتلا ہیں، وہ بھی اپنا ٹیسٹ ضرور کروائیں۔
علاج:
علاج کا بنیادی مقصد ایچ پائلوری جرثومے کا جڑ سے خاتمہ ہے کہ اس بیکٹریا کے خاتمے کے لیے دو اقسام کی جراثیم کُش ادویہ کے ساتھ معدے کی تیزابیت کو کنٹرول کرنے کے لیے ایسڈ بلاکرز میڈیسن دی جاتی ہیں اور اس تھراپی کو فرسٹ لائن (Triple) تھراپی کا نام دیا گیا ہے۔یہ14 دنوں پر مشتمل کورس ہے اور اس تھراپی کی بدولت اسّی سے نوّے فی صد مریض صحت یاب ہوجاتے ہیں۔
دنیا بھر میں ٹرپل تھراپی کو ایچ پائلوری انفیکشن کا مؤثر علاج قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ Quadruple اور Sequential تھراپیز بھی موجود ہیں، اب یہ معالج پر منحصر ہے کہ وہ کون سی تھراپی بہتر سمجھتا ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ ایسے بھی مریض ہیں، جن کا دو مرتبہ یا اس سے بھی زائد مرتبہ ایچ پائلوری کا علاج ہوا، مگر کام یاب نہیں ہوسکا۔
ایسے مریضوں کے لیے Rescue Thread کا آپشن بھی موجود ہے۔ علاج کے چار ہفتے کے بعد ایچ پائلوری کا ٹیسٹ کروایا جائے تاکہ تسلّی ہوجائے کہ اس سے چھٹکارا ملا ہے یا نہیں۔ 10سے20فی صد مریضوں میں ایچ پائلوری کا علاج غیر مؤثر ثابت ہوتا ہے، جس کی مختلف وجوہ ہیں، جن میں اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا ہو جانا، ریگولر میڈیسن نہ لینا، تمباکو نوشی، شراب نوشی، غیر ضروری طور پر اینٹی بائیوٹکس کا استعمال سرفہرست ہیں۔
احتیاطی تدابیر اور بچاؤ:
ایچ پائلوری انفیکشن سے بچائو کے لیے ضروری ہے کہ عوام النّاس کو اس انفیکشن سے متعلق مکمل آگاہی اور معلومات فراہم کی جائیں۔ اسکول، کالجز کی سطح پر طلبہ کو صفائی ستھرائی کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔ پانی کو آلودہ ہونے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ آلودہ پانی اور خوراک ہرگز استعمال نہ کریں۔
کھانے سے پہلے اور ٹوائلٹ سے فارغ ہونے کے بعد 20 سیکنڈ تک ہاتھوں کو صابن سے دھونے کی عادت اپنائیں۔ کھانا پکاتے ہوئے سبزیوں اور گوشت کو اچھی طرح صاف کریں اور کھانا پکانے سے پہلے ہاتھوں کو اچھی طرح دھو لیں۔ سُرخ گوشت اور بند ڈبّوں والی غذائیں احتیاط سے استعمال کریں۔ شراب نوشی اور تمباکو نوشی کے قریب نہ جائیں۔
چٹ پٹے، مسالے دار اور چکنائی سے بھرپور کھانے سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔ اپنی صحت اور صفائی کا خیال رکھیں، متوازن گذا لیں، جن میں تازہ پھل اور سبزیاں شامل ہوں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شہریوں کو قدرتی، صاف ستھرا ماحول اور پینے کا صاف پانی فراہم کرے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق صرف 22فی صد آبادی کو صاف پانی کی سہولت میّسر ہے۔
سو، برسوں پرانے اور بوسیدہ نکاسی و فراہمیٔ آب کے نظام میں بہتری لائی جائے۔ نیز، معدے کے سرطان سے تحفّظ کے لیے بھی ضروری ہے کہ عوام کو ایچ پائلوری اسکریننگ ٹیسٹ کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔ جن افراد میں اس جرثومے کی تصدیق ہوجائے، اُن کا فوری علاج شروع کیا جائے، کیوں کہ ایچ پائلوری اسکریننگ اور علاج کی مدد ہی سے ہم معدے کے سرطان کی بڑھتی شرح میں کمی لاسکتے ہیں۔ ( مضمون نگار، لیاقت یونی ورسٹی اسپتال، حیدرآباد کے شعبہ گیسٹرو انٹرولوجی سے بطور سینئر میڈیکل آفیسر وابستہ ہیں)