• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہنگائی سے سارا یورپ بھی اکتایا ہوا ہے۔ فرانس میں خواتین نے تحریک شروع کی ہے کہ ہر گھر میں جو کپڑے، برتن، فرنیچر اور کھانے، پرانے یا فالتو ہوں وہ گھر کے باہر رکھ کر فروخت کردیئے جائیں۔ یہ تحریک بھی ہے کہ نئے کپڑوں کی جگہ پرانے کپڑوں کو رنگ برنگے بنائیں تاکہ پارٹیوں میں بھی قابل استعمال ہوسکیں۔ یہ تحریک مقبولیت حاصل کررہی ہے پاکستان میں نہیں، مگر انڈیا میں شادی بیاہ کے زرق برق لباس جو ایک مرتبہ استعمال کے بعد صندوق میں بند کردیئے جاتے ہیں وہ دکانوں کے علاوہ بیوٹی پارلرز میں بھی فروخت کیے جاتے ہیں۔

جس طرح ہر ملک میں لنڈا بازار کھل جاتا ہے، اس میں سے جو بہت کم پہنے ہوتے ہیں، وہ تو دکانداروں کے ہاں امپورٹڈ کہہ کر فروخت کیے جاتے ہیں۔ سردی اور الیکشن دونوں ہی تینوں ملکوں یعنی پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش میںہونے والے ہیں۔ تینوں ملکوں میں سیزن کے کپڑوں اور کپڑوں کی طرح سیاسی بغل بچے نکل کر ہر ہاتھ چومنے والے کے مرید بننے کیلئے بہت زور دکھاتے ہیں۔ جب پوچھا ’’کیوں اور کس کا ساتھ دے رہے ہو‘‘۔ سب کا ایک جواب ہوتا ہے ’’اوپر سے حکم آیا ہے‘‘۔ اب چاہے ایم کیو ایم، ن لیگ سے ملے کہ جماعت اسلامی سے، اپنے آپ کو لبرل کہنے والوں سے ملے جواب ابھی تک یکساں آرہا ہے کوئی 20 برس پہلے کی قیمتیں سنا رہا ہے اورکوئی 16 ماہ کی۔ اب بلوچوں سے ن لیگ کی ملاقات تھی تو ہاتھ ملانے والے کیسے بلوچی ہیں، بس یہ بتارہے تھے ’’تیرا ہاتھ ہاتھ میں آگیا کہ چراغ راہ میں جل گئے‘‘۔ اصلی تے وڈے بلوچوں سے پوچھو تو وہ بات ہنس کے ٹال دیتے ہیں کہ ابھی تو بہت سوں نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا ہے، کون کب کس کا ہوا ہے۔ یہ عمران کہہ رہے ہیں۔ واپس پلٹ کے دیکھو یہ وہی نیب ہے، جس نے سیاست دانوں کو دو دو اور تین تین سال کی سزا دی تھی اور اب وہی سیاہ پوش، سفید پوش،ان کو نیب بنارہی ہے ’’کس کو منصف مانیں اور کس کو گنہگار‘‘ کہ آج بھی نہ پولیس کا نہ سیاست دانوں، نہ رشوت خوروں اور نہ اسمگلرز کا چلن بدلا ہے، نام بدل بدل کے سیٹھ سامنے آتے ہیں۔ اس وقت ستم ظریفی یہ ہے کہ سب لوگ جوانوں کا نام لیکر ایکشن اور ری ایکشن کررہے ہیں۔ 30 برس تک کے نوجوان جوتیاں چٹخارہے ہیں۔ اگر اعدادوشمار کی بات کریں تو پنشن زدوں میں 13 ارب ریٹائرڈ فوجی اور ایک ارب ریٹائرڈ سویلینز کا شمار نکلتا ہے۔ چونکہ سب کو ایک ہی خانے میں رکھ دیا گیا ہے۔ اسلئے اعدادوشمار بتانے والے بھی چپ ہیں اور وزارت دفاع کے سیکرٹری بھی خاموش کہ بولنے سے زبان کٹتی ہے۔

76برس کے مفلوج نظام کے خلاف اور بقول پرانے سفیر، سیکرٹری اور وزیر کے کہ خوشامد پسند اور خوشامد پرست ہی کا راج رہا ہے۔اشرافیہ اور سول ملٹری، اشتراک اب بھی کارگر ہے۔ سقراط نے نوجوانوں کو جو سبق دیا تھا، وہ ہر زمانے میں ناقابل قبول ہے کہ اب تو مولویوں کے بعد پرانے کرکٹرز بھی خواتین کے خلاف لب کشائی کررہے ہیں اور تو اور سکندر بخت، عالیہ رشید کو اور ندا ڈار جیسی کرکٹ ماہرین کو بھی طنزیہ کہہ رہے ہیںکہ وہ تبصرہ کررہی ہیں جنہیں بیٹ پکڑنا بھی نہیں آتا، اور ن لیگی سربراہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے لوگ گانے بجانے والے نہیں ہیں۔ البتہ اب تک بے چاری جماعت اسلامی فلسطینیوں کیلئےجلوس نکال رہی ہے۔ میں اسلام آباد کے جلوس کے باہر گول گپے والےکے پاس کھڑی تھی۔ اس نے فوراً میرا نام لیکر کہا ’’آپا جی۔ یہ سب مولوی صاحب بول رہے ہیں۔ وہ جو بہت سے ملکوں کی آرمی اور اس کے سربراہ ہیں فلسطینیوں کیلئے کیا کررہے ہیں؟‘‘میں اس کی ذہانت کو سمجھتے ہوئےہنس کربولی’’ بہت سالوں بعد، میں نے گول گپے دیکھے ہیں ایک پلیٹ کتنے کی ہے۔‘‘ اس نے پلیٹ بناتے ہوئے کہا ’’دو سو روپے کی‘‘۔ یہ ہے مہنگائی جس پر کوئی نہیں بولتا۔ اگر بولتے ہیں تو ماہرین معیشت کہ ابھی ’’یہ مہنگائی اور بڑھے گی‘‘۔

اتوار کی رات، انڈیا اور آسڑیلیا کا میچ ختم ہوا تو عجب منظر سامنے تھا۔ پہلے تو انڈین شائقین، جب اپنی ٹیم کو ہارتا دیکھ رہے تھے تو بددل ہوکر ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو بے عزتی پہ اتنی شرم آئی کہ میچ ختم ہوتے ہی پنڈال خالی ہوچکا تھا۔ یہ ہے انڈیاکی میزبانی کا طریقہ۔ ستم ظریفی اس سے بڑھ کر یہ کہ مودی صاحب نےٹرافی آسڑیلین کپتان کو پکڑا کر، پلٹ کر نہ ہاتھ ملایا، نہ مبارکباد دی۔مودی حکومت کے آٹھ برسوں میں صرف شہروں کے نام نہیں بدلے، بلکہ انگریزوں اور دیگر مذاہب کی سجدہ گاہوں کو بھی ملیامیٹ کیا گیا۔ اس وقت گاندھی جی کا ایک فقرہ یاد آتا ہے، جب انہیں گھٹنے سے اوپر دھوتی کیے ہوئے ایک انگریز نے طعنے کے انداز میں کہا ’’کیا آپ نے مغربی تہذیب سے کچھ نہیں سیکھا‘‘۔ گاندھی جی نے جواب دیا ’’اگر مغرب میں تہذیب ہوتی تو اچھا ہوتا۔‘‘ یہی بات میچ کے دوران ایک نوجوان نے آکر کوہلی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ ’’آپ بھی فلسطین کی آزادی کا نعرہ لگائیں‘‘۔ وہ کچھ کہے بنا پلٹ گئے۔ مگر پولیس نے اس نوجوان کو اپنا کام دکھا دیا۔

اب ذرا ایک حکم نامہ دیکھئے کہ جن کو بجلی اب تک مفت ملتی تھی۔ انہیں گریڈ کے مطابق کیش اضافی دیا جائے گا۔ مجھے اس کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ اب جبکہ آئی ایم ایف و دیگر فنانس ماہرین کی رائے ہے کہ قرض ہمیں اگلے تین سال تک بارہ ارب ڈالر سالانہ دینا پڑے گا۔ تو پھر یہ فیاضی اور دیگر مراعات ہماری سمجھ میں تو نہیں آرہیں ۔ جب ساری دنیا سادگی اور بچت کے منصوبے بنارہی ہے پاکستان کی اس منطق کو ہم لوگ سمجھ ہی نہیں پارہے۔ یہ اس لئے کہہ رہی ہوں کہ سیاسی پارٹیاں بلامنشور اپنا ڈھول بجارہی ہیں۔

تازہ ترین