لاہور ہائی کورٹ نے اسموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کے لیے دائر درخواستوں پر اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ اس ضمن میں ماحولیات کا محکمہ سب سے بڑا مجرم ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں اسموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کے لیے دائر درخواستوں پر جسٹس شاہد کریم نے سماعت کی۔
عدالت نے ڈی جی ماحولیات سے استفسار کیا کہ کون سے انڈسٹری یونٹس ہیں جنہیں آپ نے سیل کیا؟
جوڈیشل کمیشن کے وکیل نے عدالت بتایا کہ ماحولیات ٹریبونل کے تحت فیکٹریاں ڈی سیل ہوئی تھیں۔
ڈی جی ماحولیات نے کہا کہ ہم نے جو بھی اقدام کیا اس حوالے سے رپورٹ پیش کرنا چاہتا ہوں، بہت سی انڈسٹریز ہمارے احکامات کی خلاف ورزی کر رہی تھیں، کوئی بھی افسر اگر غیر قانونی کام میں ملوث ہو گا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیں آپ نے اب تک کیا ایکشن لیا ہے؟
ڈی جی ماحولیات نے بتایا کہ میں نے ایک ایک افسر کو بلا کر دریافت کیا یہ جاننے کے لیے کہ کس نے فیکٹریاں ڈی سیل کی ۔
عدالت نے حکم دیا کہ آپ کا کوئی افسر کسی فیکٹری کو ڈی سیل نہیں کر سکتا، اگر کسی فیکٹری کو ڈی سیل کرنا ہے تو اس عدالت سے رجوع کریں۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ماحولیات کا محکمہ سب سے بڑا مجرم ہے، محکمہ ماحولیات کے افسروں کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجوں گا، ڈی جی صاحب! ایسا نہ ہو کہ اگلا نمبرآپ کو ہو۔
عدالت نے کہا کہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس نگراں پنجاب حکومت کا مسئلہ کیا ہے؟ نگراں حکومت کیوں اتنی زیادہ تعمیرات کروا رہی ہے؟ سارا شہر اکھاڑا ہوا ہے۔
عدالت نے ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی ماحولیات صاحب! میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ ایکشن لیں، میں تو صرف آپ کو ایکشن لینے کا کہہ سکتا ہوں، سارا ہفتہ ریسٹورنٹ 10 بجے اور ویک اینڈ پر 11 بجے تک کھلے رہنے کی اجازت ہے۔
جسٹس شاہد کریم نے ہدایت کی کہ سائیکلنگ کو فروغ دینے کے حوالے سے اقدامات تیز کیے جائیں، جس پر سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اتوار کو سائیکل ریلی ہے جو مال روڈ پر منعقد ہو رہی ہے، اس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے سائیکلنگ کو فروغ ملنا چاہیے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کر دی۔