خنساء سعید
جولائی کے مہینے میں گرمی اپنا الہڑ جوبن دکھا رہی تھی۔ گرمیوں کے طویل ، تھکا دینے والے دن تھے۔ وہ آج صبح سویرے ہی گھر سے نکل پڑا۔ اُسے اپنے کام نمٹا کر دوستوں کی طرف سے دی گئی دعوت میں شرکت کرنی تھی۔ صبح کے آٹھ بج رہے تھے اور سڑک پر گاڑیوں کا تانتا بندھا تھا۔ فضا میں ہر طرف گاڑیوں کا بے ہنگم شور گونج رہا تھا اور ٹریفک رینگ رینگ کر چل رہی تھی۔ ہر شخص جلدی میں تھا، جیسے کوئی ریس لگی ہو اور وہ اُسے جیتنا چاہتا ہو۔ بچّے کندھوں پر بھاری بھر کم بستوں کا بوجھ اُٹھائے، پُھولے ہوئے چہروں کے ساتھ اپنی درس گاہوں کی جانب رواں دواں تھے۔
وہ ہر گزرنے والی ٹیکسی اور آٹو رکشے کو ہاتھ ہلا ہلا کر رُکنے کا اشارہ کرتا، مگر وہ فرّاٹے بھرتے ہوئے اس کے پاس سے گزر جاتے۔ دھوئیں، گرمی اور حبس سے اُس کا دَم گُھٹنے لگا، تو پیدل ہی چلتے چلتے اُس مقام تک جا پہنچا، جہاں ہمیشہ چار پانچ رکشے کھڑے سواریوں کا انتظار کر رہے ہوتے۔ وہاں جاکے ہی بھی اُسے ایک دنگل ہی دیکھنے کو ملا۔ دو رکشے والے آپس میں دست و گریباں تھے۔ ایک کہتا، ’’تیرا لیڈر چور، بھکاری، امریکی غلام، لیٹرا، مار ڈالے گا، ہم غریبوں کو۔‘‘ تو دوسرا چِلاّتا، ’’تیرا لیڈر کون سا فرشتہ ہے۔ ایک نمبر کا جھوٹا، فراڈیا اور نیم پاگل ہے۔
مُلک کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہتا ہے۔ مُلک پر ایٹم بم گرانا چاہتا ہے۔‘‘اسی دوران ایک تیسرا ڈرائیور، جو چہرے مہرے سے اچّھا خاصا سمجھ دار آدمی لگ رہا تھا، وہ بھی بیچ میں کُود پڑا، ’’بھائیو! چھوڑو اس لڑائی کو۔ اس جھگڑے میں کیا رکھا ہے۔ ہم کسی کے سپورٹر نہیں، ہم تو بس روٹی روزی کے سپورٹر ہیں۔ ہر روز صبح سویرے روٹی کی خاطر گھر سے نکلتے ہیں، تاکہ ہمارے بچّے رات کو بُھوکے نہ سوئیں۔
ہمارے گھروں میں راشن نہیں، ہماری جیبیں خالی ہیں، بُھوک ہمارے گھروں میں ننگے پائوں رقص کرتی ہے۔ اپنی تو سانسوں کا تانا بانا ہی روٹی سے جُڑا ہے۔‘‘ یہ سُن کر دونوں نے ایک دوسرے کے گریبان چھوڑے اور کچھ سوچنے کے بعد اپنے اپنے رکشوں میں سوار ہو گئے۔ وہ بھی، جو کافی دیر سے کھڑا بڑے انہماک سے اُن کی باتیں سن رہا تھا، چُپ چاپ ایک رکشے میں سوار ہو گیا۔
’’جی صاب! کہاں جانا ہے آپ کو؟‘‘ رکشا ڈرائیور نے پوچھا۔ مُجھے چوبرجی چوک تک جانا ہے۔ کرایہ کتنا لو گے؟‘‘ ’’چوبرجی کا پانچ سو کرایہ لیتے ہیں آج کل۔ آپ کو پیٹرول کی قیمت تو پتا ہی ہو گی۔‘‘ ڈرائیور نے جواب دیا۔ ’’کیا… پانچ سو روپے!‘‘ اُس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ’’بس صاب جی! ہماری بھی روزی روٹی کا مسئلہ ہے۔‘‘ ڈرائیور نے لجاجت سے وضاحت پیش کی۔ ’’چلو، پھر یوں کرو کہ سواریوں کے ساتھ لے چلو، مگر ذرا جلدی کرنا۔ مُجھے آج جلدی پہنچنا ہے۔‘‘ اُس نے پیسے بچانے کے لیے ڈرائیور کو تجویز پیش کی۔ ’’ٹھیک ہے صاب جی۔‘‘ یہ کہہ کر ڈرائیور نے رکشا اسٹارٹ کر دیا۔
اب وہ ہر موڑ پر رُک کر آوازیں لگاتا، مگر آج اُسے کوئی دوسری سواری نہیں مل رہی تھی۔’’ ارے بھئی! جلدی کرو، مُجھے دیر ہو رہی ہے۔ ایک تو جان لیوا گرمی اور اوپر سے تمہارا یہ جگہ جگہ رُکنا۔‘‘ اُس نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔ ’’صاب جی! اس میں میرا کیا قصور ہے۔ کوئی سواری ملے گی، تو چلوں گا۔‘‘ ڈرائیور نے جواب دیا۔ ’’اتنے میں دو سواریاں آکر بیٹھیں، تو رکشا چلنے لگا۔ رکشا ابھی چوبر جی چوک سے دس منٹ کی مسافت پر تھا کہ ایک مرتبہ پھر رُک گیا۔ ’’ارے بھائی! اب کیا ہو گیا ہے؟‘‘ اُس نے نہایت بے زاری سے ڈرائیور سے پوچھا۔ ’’بھائی صاب! سامنے سے جلوس آ رہا ہے۔ آپ کو یہیں اُترنا ہو گا۔‘‘ ڈرائیور نے جواب دیا۔
وہ پہلے ہی گرمی اور تاخیر سے تلملا رہا تھا۔ جلدی سے رکشے سے اُترا اور پیدل چلنے لگا۔ جلوس میں شامل لوگ بجلی کے بلز ہاتھ میں پکڑے، حُکم رانوں کے پُتلوں کو جوتے مار رہے تھے اور شور مچا رہے تھے کہ ’’یہ منہگائی ہمیں مار ڈالے گی۔ ہم لوگ بُھوک سے مَر جائیں گے۔‘‘ وہ کچھ دیر رُک کروہ نعرے سُنتا رہا اور پھر اپنے دماغ سے سب کچھ جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔
دفتر پہنچ کر اُس نے جلدی جلدی اپنے سارے کام نمٹائے اورپھر ہوٹل کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستے میں اُسے پھر وہی ہجوم نظر آیا۔ اب مظاہرین کچھ مشتعل اور غم زدہ بھی دکھائی دے رہے تھے۔ وہ لوڈ شیڈنگ اور منہگائی کے خلاف شدید نعرے بازی کر رہے تھے اور ان میں سے کچھ باقاعدہ رو بھی رہے تھے۔ شدید گرمی میں لوگوں کے جوشیلے نعرے اور آہ و بکا سُنتے سُنتے اُس کا سَر چکرانے لگا۔ وہاں سے تیزی سے نکل کےہوٹل پہنچا، جہاں خوش بُو میں رچی بسی اے سی کی یخ بستہ ہوا نے اُسے خوش آمدید کہا۔ اُسے یوں لگا کہ جیسے وہ جہنّم سے نکل کر جنّت میں آ گیا ہو۔
اب وہ انواع و اقسام کے لذیذ کھانوں سے سجی میز کے سامنے تھا، جہاں پہلے سے موجود اُس کے دوست مظاہرین کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔ ایک دوست نے تحقیر آمیز انداز میں تبصرہ کیا، ’’پاگل اور فضول لوگ ہیں۔ شہر کی ساری سڑکیں بند کر رکھی ہیں۔ اپنا کوئی کام کاج کیوں نہیں کرتے۔ بے چاری حکومت قرضے اُتارے یا عوام کی دال روٹی کی فکر کرے۔ حکومت سڑکیں ، پُل تعمیر کروا رہی ہے، اس نے غریبوں کو ریلیف دینا شروع کر دیا ہے اور تو اور ،اب تو غیر مُلکی امداد بھی ملنا شروع ہو گئی ہے۔ سب کچھ ایک ہی رات میں تو ٹھیک نہیں ہو سکتا ناں۔ حکومت کے مسائل کی باریکیوں کو یہ جاہل اور اَن پڑھ طبقہ کیا سمجھے گا۔‘‘
اُس کے دیگر دوست بھی کچھ اسی طرح کے تبصرے کر رہے تھے، مگر اُس کے کانوں میں اب بھی وہی آوازیں گونج رہی تھیں ،’’ہم اپنے بچّوں کا پیٹ کیسے پالیں؟ اُن کو پڑھائیں کیسے؟ غریب بیمار ہو جائے، تو دوا کہاں سے لائے؟‘‘ پھر اُسے یک دَم خیال آیا کہ اُسے ہوٹل کے پُر تعیّش ماحول میں بیٹھنے کی بہ جائے مظاہرین کے ساتھ مل کر نعرے لگانے چاہیے تھے اور اپنےحق کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے تھی، مگر باہر کی شدید گرمی، حبس اور چیتھڑوں میں لپٹے جسموں سے اُٹھتی پسینے کی بد بو کا خیال آتے ہی وہ اے سی کی یخ بستہ ہوا اور لذیذ کھانوں سے لُطف اٹھانے لگا اور پھر… چند لقمے پیٹ میں جاتے ہی اُس کے حصّے کا احتجاج دَم توڑ گیا۔