مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
31 اکتوبر1995ء کو مختصر علالت کے بعد ہماری پیاری والدہ محترمہ سنجیدہ خاتون نے داعئ اجل کو لبیک کہا۔ اُن کی اچانک وفات ہمارے لیے ناقابل برداشت تھی، یوں محسوس ہوا، جیسے آسمان ٹوٹ پڑا، قیامت برپا ہوگئی ہے، لیکن بہرکیف، اللہ تعالیٰ نے صبر کی توفیق دی۔ میری والدہ نے ہمارے لیے اتنا کچھ کیا ہے کہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے ہمیں ماں ہی نہیں، باپ بھی بن کر پالا اور کبھی والد کی کمی محسوس ہونے نہیں دی۔
اُن کی وفات سے 16برس قبل جب میرے والد کا انتقال ہوا، تو اُس وقت میری عُمر محض سات برس تھی۔ہم آٹھ بہن بھائی ہیں، پانچ بھائی اور تین بہنیں۔ 31دسمبر 1979ء رات 10بجے جب ہمارے والداچانک داغِ مفارقت دے گئے، تو اُسی وقت سے ہماری والدہ، ہمارے لیے کسی چٹان کے مثل بن گئیں اور پھر پوری زندگی انھوں نے سخت محنت و مشقّت، بے پناہ جدوجہد کی۔ والدہ محترمہ 1960ء کے دَورکی میٹرک پاس تھیں، لہٰذا انھوں نے گھروں میں جاکر ٹیوشنز پڑھانا شروع کیں، ساتھ ہی سلائی کڑھائی کا کام بھی کرتیں، جس سے نہ صرف ہمارے گھر کے اخراجات پورے ہوتے بلکہ ہم سب بھائی بہنوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
والدہ نے مجھے مدرسے میں قرانِ پاک حفظ کرنے کی سعادت کے لیے داخل کروادیا اورالحمدللہ ، مَیں آج قرآن مجید ِحفظ کرنے کے بعد سے ہر سال مسلسل تراویح پڑھانے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔ میری والدہ نے دمَے کی دائمی مریضہ ہونے کے باوجود نہ صرف اپنی بلکہ والد صاحب کی بھی تمام ترذمّے داریاں بہ حُسن و خوبی نبھائیں۔
وہ ہرمسئلے اور ہر مرحلے پر ہمارے شانہ بشانہ رہتیں۔ ہمارے لیے والد کی جگہ پورے اعتماد کے ساتھ ہمیشہ کھڑی رہتیں۔ ہم سب بھائی، بہنوں کوبہترین تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کے بعد، پھر ہم سب کی شادیاں بڑے احسن انداز سے کیں۔ اللہ عِزّوجل سے دُعا ہے کہ تمام جملہ مسلمان مرحومین کے ساتھ ہمارے والدین کی بھی کامل مغفرت فرمائے اور اُنھیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔ (حافظ محمد حامد انصر)