مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
یہ واقعہ میری ایک رشتے دارخاتون کے ساتھ پیش آیا، جو اُن ہی کی زبانی پیش کررہی ہوں۔ ’’اتوارکا دن تھا۔ مَیں ناشتا بنارہی تھی کہ میرے شوہرخلافِ معمول تیار ہوکر کمرے سے نکلے۔ چُھٹّی کے روز صبح ہی صبح اس طرح اُنھیں باہر جاتے دیکھ کر مَیں نے حیرانی سے پوچھا، توبتایا کہ ’’ماہم کے گھر کوئی گھریلو مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے، وہیں جارہا ہوں، واپس آکر ناشتا کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔
ماہم، میرے شوہر کی رشتے کی بھتیجی تھی، اُس کے والدین مڈل ایسٹ میں مقیم تھے اور وہ کراچی میں اپنے شوہر اور بچّوں کے ساتھ رہ رہی تھی۔ مَیں پریشانی کے عالم میں سوچنے لگی کہ ’’یااللہ خیر! اب کیا مسئلہ ہوگیا ہے، جو انھیں اتنی صبح صبح بلایا ہے۔‘‘ کیوں کہ میرے شوہر کی بھتیجی کے گھر آئے روز کوئی نہ کوئی مسئلہ ہوتا ہی رہتا تھا۔ پچھلے سال بھی پُراسرار طور پرآتش زدگی کے باعث اُس کے گھر کا سارا سامان جل کر خاکستر ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے وہ کئی ہفتے ہمارے گھرمقیم رہی تھی۔ خیر، شوہر کے جانے کے بعد مَیں پھرسے گھر کے کاموں میں مصروف ہوگئی۔ ٹھیک دو گھنٹے بعد بیل بجی۔ مَیں نے دروازہ کھولا، تو سامنے میرے شوہر کھڑے تھے۔
اُن کے ساتھ دو بڑے بڑے سُوٹ کیس تھے۔ اندر آئے، تواُن کے پیچھے ماہم اوراُس کے تین بچّے بھی، جن کی عُمریں بالترتیب آٹھ، چھے اور ایک سال تھیں، گھر میں داخل ہوئے۔ ماہم اور بچّوں کے ہاتھوں میں بھی ڈھیروں ڈھیر سامان تھا۔ میں ہَکّا بَکّا کھڑی ابھی دیکھ ہی رہی تھی کہ میرے شوہر کی وہ رشتے کی بھتیجی تیزی سے آگے بڑھی اورمیرے گلے لگ کرزار و قطار رونے لگی۔ ’’ہائے آنٹی! مَیں دوبارہ آپ کے پاس آگئی۔‘‘ اُسے روتے دیکھ کر میرا دل بھی پسیج گیا، میں نے اُسے دلاسا دیا اور ڈرائنگ روم میں بٹھا کر محبّت سے کِھلایا پلایا۔
پھر اپنے شوہر سے ماجرا پوچھا، تو انھوں نے بتایا کہ ’’ماہم کے ساتھ اُس کے شوہر کا رویّہ درست نہیں ہے، وہ آئس کا نشہ کرتا ہے، ٹِک کر کوئی کام بھی نہیں کرتا، سارا سارا دن گھر میں پڑا رہتا ہے، ماہم کچھ کہتی یا سمجھانے کی کوشش کرتی ہے، تو مار پیٹ شروع کردیتا ہے۔ آج بھی جب اس نے ماہم پر ہاتھ اٹھایا، تو اس کی ہمّت جواب دے گئی۔ اُس نے فون کرکے اپنے ایک چچا کو اور مجھے بلالیا، جس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ کچھ دنوں کے لیے اسے اپنے گھر لے جاتے ہیں۔‘‘
ماہم کے بارے میں تھوڑا سا بتادوں کہ یہ پڑھی لکھی ہے اورشادی سے پہلے مڈل ایسٹ میں ملازمت کرتی تھی۔ جب تک اُس کے والد حیات رہے، ان کے حالات بہت اچھے رہے، لیکن والد کے انتقال کے بعد مالی تنگی کی وجہ سے اُس کی والدہ نے دوسری شادی کرلی، پھر کچھ عرصے بعد جلد بازی میں اپنی بیٹی ماہم کی شادی پاکستان میں کردی، کسی چھان بین کی ضرورت نہ سمجھی۔ آہستہ آہستہ ماہم کے شوہر نے اپنے رنگ ڈھنگ دکھانے شروع کردیئے۔ نشے کی لَت کی وجہ سے ملازمت بھی ٹِک کر نہیں کرتا تھا، ماہم کی والدہ نے کسی سے کہہ سُن کر اُسے بیرونِ ملک ملازمت بھی دلوائی، لیکن وہاں بھی ٹِک نہ سکا اور جلد ہی ملازمت چھوڑ کر پاکستان لوٹ آیا۔ ماہم کے سوتیلے والد اسے خرچہ پانی بھیجتے رہتے تھے، جس کی وجہ سے وہ اور بھی آرام طلب ہوگیا۔
خیر، ماہم کو ہمارے گھر رہتے ہوئے کئی روز گزرگئے، تو ایک روز مَیں نے اُس سے پوچھا کہ ’’اب تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ تو اُس نے بلاتمہید میری طرف دیکھتے ہوئے سپاٹ لہجے میں جواب دیا، ’’خلع لینا چاہتی ہوں۔‘‘ اس طرح دو ٹوک لہجے میں اُس کا جواب دینا مجھے بہت عجیب سا لگا۔ مَیں نے کہا، ’’شادی بیاہ گڈّے گڑیا کا کھیل نہیں ہوتا، ویسے بھی تم تین بچّوں کی ماں ہو، تم نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے ناں۔‘‘ اُس نے پھر اُسی لہجے میں جواب دیا، ’’جی آنٹی! جب سارا خرچہ میری والدہ ہی کو اُٹھانا ہے، تو مَیں یہاں رہ کراُس کی مار کیوں کھائوں۔
مَیں پڑھی لکھی ہوں، کہیں بھی ملازمت کرکے اپنے بچّوں کی بہترین تعلیم وتربیت کرسکتی ہوں۔‘‘ قصّہ مختصر، میرے شوہرنے بہت سوچ بچار کے بعد اس کی طرف سے خلع کا کیس دائر کردیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس عرصے میں وہ کہاں رہے گی۔ اگرچہ اس کے بہت سے قریبی رشتے داراسی شہر میں تھے، لیکن کوئی بھی اُسے رکھنے کو تیار نہیں تھا۔ اس موقعے پرمیرے شوہر ہی نے روایتی ہم دردی دکھائی اورصاف کہہ دیا کہ ’’جب تک اس کی خلع کا فیصلہ نہیں ہوجاتا، یہ یہیں رہے گی۔ مَیں اپنی بھتیجی کو دربدر نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ ماہم کی والدہ بھی فوری طور پر نہیں آسکتی تھیں، لہٰذا انھوں نے ہم سے درخواست کی کہ خلع کا فیصلہ ہونے تک میری بیٹی کو اپنے پاس رکھ لیں۔ مجبوراً ہمیں ہی اُسے رکھنا پڑا۔ ڈھائی مہینے بعد اُس کے کیس کا فیصلہ ہوا اور اُسے خلع مل گئی۔
یہ تمام عرصہ کیسے گزرا، ایک الگ ہی داستان ہے۔ اس دوران اُس کے بچّوں نے ہمارا پورا گھر تلپٹ کرکے رکھ دیا تھا۔ وہ اپنی مرضی سے سوتی، اپنی مرضی سے جاگتی۔ شاپنگ کرنا اور آن لائن کھانے منگوانا، اس کا مشغلہ تھا۔ اس کے سارے رشتے دار صاحبِ حیثیت اور مالی طور پر مستحکم تھے، جن سے وہ پیسے بٹورتی کہ اُس کے رشتے دار بے شک اُسے ساتھ رکھنے کو تیار نہیں تھے، لیکن اُس کے اکاؤنٹ میں وقتاً فوقتاً معقول رقم ٹرانسفر کرتے رہتے تھے۔ مَیں بھی جتنا خیال رکھ سکتی تھی، مَیں نے رکھا۔ لیکن اس تمام صورتِ حال سے میرے بچّے بھی تنگ آگئے تھے۔ خیر، اللّٰہ اللّٰہ کرکے اُس کی والدہ نے بالآخر اُسے اپنے پاس بلوالیا۔ مَیں نے ڈھیروں دُعائوں کے ساتھ اُسے رخصت کیا۔
اُس کے جانے کے چند روز بعد جب مَیں نے اپنا جیولری باکس چیک کیا، تو میری ایک سونے اور ایک ہیرے کی انتہائی قیمتی رِنگز غائب تھیں، جو میں نے بڑے ہی شوق سے خریدی تھیں۔ یہ دیکھ کر مَیں سر پکڑ کر بیٹھ گئی اور انتہائی دُکھ کی کیفیت میں سوچنے لگی کہ کیا کوئی کسی کے ساتھ ایسا بھی کرسکتا ہے۔ ہم نے اُس کے کڑے وقت میں اُسے اپنے گھررکھا، لیکن اُس نے ہمارے خلوص اور محبّت کا کیا صلہ دیا؟ حالاں کہ کئی لوگوں نے ہم سے کہا بھی کہ اسے اپنے یہاں نہ رکھو، تمھیں مسئلہ ہوسکتا ہے، لیکن ہم نے کہا کہ جوان لڑکی ہے، اپنے چھوٹے چھوٹے بچّوں کے ساتھ کہاں جائے گی؟ لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اتنے اچھے گھر کی لڑکی ہوتے ہوئے بھی اُس نے اتنی گِری ہوئی نیچ حرکت کی۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ اُس نے یہ حرکت پہلی بار نہیں کی، اس سے پہلے بھی اپنے کئی رشتے داروں کے گھروں میں اسی طرح ہاتھ دکھا چُکی ہے۔ بہرحال، مَیں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ کر صبر کرلیا۔ قارئین کو میری نصیحت ہے کہ ضرورت مندوں کی مدد ضرورکریں، لیکن کسی پر اندھا اعتماد نہ کریں۔ (شہلا الیاس، کراچی)
برائے صفحہ ’’متفرق‘‘
٭ہماری بیورو کریسی بادشاہت کے روپ میں (حافظ بلال بشیر، کراچی)۔ ٭فلسطین کی پکار(شگفتہ بانو، لالہ زار، واہ کینٹ)۔ ٭مکافات عمل کی چکّی (فاروق میر، بروہی محلہ، لیاری، کراچی)۔ ٭اسلام میں انسانیت کے حقوق(مولانا قاری محمد سلمان عثمانی)٭بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان (حکیم راحت نسیم سوہدروی)٭منتھو کا واٹر فال (خواجہ تجمّل حسین، کراچی)۔ ٭لائوڈ اسپیکر اور مائیک کا بے جا استعمال (ہومیو ڈاکٹرمحمد شمیم نوید، گلشن اقبال کراچی)۔
برائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘
٭ میرا مٹھو (مبشرہ خالد، کراچی)٭ پتھروں کی بارش (بلال ابواصغر، اسلام آباد)٭وہ آدمی انتقام کی آگ سے بَھرا ہوا تھا (ظہیر انجم تبسم، جی پی او، خوشاب)۔ ٭گلاب ننّا (سیّد حیدرعلی قلی، گرین ٹائون، لاہور)۔٭عذابِ الٰہی کو دعوت (ملک محمد اسحاق راہی، صادق آباد)۔
برائے صفحہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘
٭خلیل صاحب، داماد:عزّت و احترام کارشتہ (کوثر بنتِ اقبال،کراچی)۔ ٭گوہر الرحمٰن (محمد اقبال خان سلیمانی، ڈالمیا، کراچی)۔