عام انتخابات کے انعقاد کیلئے 8فروری2024ء کی تاریخ کا اعلان تو کر دیا گیا ہے لیکن ابھی سیاسی جماعتیں پوری تیاری سے میدان میں نہیں اتریں، 30نومبر 2023ء کو حلقہ بندیوں کا کام مکمل ہوتے ہی انتخابی شیڈول کا بھی اعلان کر دیا جائے گا، مسلم لیگ (ن) نے تو بہت پہلے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے منصب کیلئے امیدوار نامزکر دیا ہے اب اس دوڑ میں بلاول بھٹو زرداری بھی شریک ہو گئے ہیں اور انہوں نے ’’بابوں‘‘ کے خلاف ایک پوزیشن لے لی ہے، جن میں ان کے والد آصف علی زرداری بھی شامل ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے امیدواروں سے درخواستیں وصول کر لی ہیں مسلم لیگی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پارٹی کو 10ہزار درخواستیں موصول ہوئی ہیں لہٰذا تمام درخواست دہندگان کو پارلیمانی بورڈ میں بلانے کی بجائے ڈویژنل سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جا رہی ہیں جو شارٹ لسٹ کر کے امیدواروں کی سفارشات پارلیمانی بورڈ کو بھجوائیں گی۔ سینیٹر عرفان صدیقی کی سربراہی میں منشور کمیٹی قائم کر دی گئی ہے، محمد نواز شریف نے سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے سر دست انہوں نے اپنی اتحادی جماعت کے قائد مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم کے وفد سے ملاقات کی ہے، جس میں انتخابی اتحاد قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کی لاہور میں نواز شریف سے ملاقات نتیجہ خیز ثابت ہوئی، دونوں جماعتوں کے 3،3ارکان پر مشتمل کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو آئندہ ہفتہ عشرہ میں قیادت کو ایک چارٹر پیش کرے گی، مسلم لیگ (ن) کے کمیٹی کے ارکان کراچی میں بہادر آباد آفس کا دورہ بھی کر چکے ہیں ابھی تک انتخابی اتحاد کی تفصیلات منظر عام پر نہیں آئیں تاہم مسلم لیگ (ن) کراچی کی قومی اسمبلی کی 20میں سے 3،4 اور سندھ اسمبلی کی 8،10نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ چاہتی ہے، ایم کیو ایم سے انتخابی اتحاد کے بعد نواز شریف بھاری بھر کم وفد لے کر کوئٹہ پہنچ گئے 30سے زائد ’’الیکٹیبلز‘‘ کو اپنی جماعت میں قبول کر لیا یہ وہ ’’الیکٹیبلز‘‘ ہیں جو ہر پانچ سال بعد پارٹیاں تبدیل کرنے کی شہرت رکھتے ہیں، بہر حال نواز شریف نے ان سب کو اس لئے سینے سے لگا لیا ہے کہ وہ بلوچستان میں بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے عملاً بلوچستان میں ’’باپ‘‘ کا صفایا کر کے 2018ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کرنے کا بدلہ لے لیا ہے، بلوچستان سے مزید کچھ شخصیات ہوا کا رخ دیکھ کرمسلم لیگ (ن) کا حصہ بننا چاہتی ہیں لیکن بدلے میں وزارت اعلیٰ کی گارنٹی چاہتی ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی اسے نظر انداز کر کے انکے مخالفین کو اکاموڈیٹ کرنے پر مسلم لیگ (ن) سے نالاں ہے پیپلز پارٹی نے، جو کل تک شہباز شریف کی حکومت کا حصہ تھی، مسلم لیگ (ن) کے خلاف محاذ کھول دیا ہے اور کہا ہے کہ ’’مسلم لیگ (ن) کو انتخابات کے وقت سندھ یاد آجاتا ہے‘‘ پیپلز پارٹی عام انتخابات میں کلین سویپ کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے اصل انتخاب سندھ میں نہیں، سینٹرل پنجاب میں ہو گا اگلے وزیر اعظم کا ڈومیسائل سندھ سے ہو گا، پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) +ایم کیو ایم اتحاد صفر ہو گا۔
ملکی سیاست میں امریکا اور برطانیہ کی دلچسپی کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے سفیروں نے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے نواز شریف، جہانگیر ترین اور یوسف رضا گیلانی سے ملاقاتیں کیں جبکہ برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے کراچی میں آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔ سیاسی حلقوں میں عمران خان سے جیل میں امریکی سفارت کار کی ملاقات کی افواہ گردش کرتی رہی۔ بظاہر امریکی و بر طانوی سفرا کی ملاقاتوں کو ’’کرٹسی کال‘‘ کا چوغا پہنا یا جا رہا ہے لیکن ان ملاقاتوں کا مقصد سیاسی قائدین کی انکے ممالک کے بارے میں پالیسی کو زیر بحث لانا مقصود ہے ان ملاقاتوں کے بعد’’سائفر‘‘ کے ذریعے متعلقہ ممالک کی حکومتوں کو رپورٹیں بھجوائی جاتی ہیں، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے امریکی سفیر کی چیئرمین پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکا پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے کسی سیاسی عہدے کے امیدوار پر کوئی موقف نہیں رکھتا ۔
آصف علی زرداری پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے چیئرمین ہیں جب کہ بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں، دونوں پارٹیاں الگ الگ رجسٹرڈ ہیں لیکن ایک ہی سکے کے دورخ ہیں، بظاہر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے سیاسی حکمت عملی کے تحت الگ الگ پوزیشن اختیار کر رکھی ہے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں آصف علی زرداری کے بقول انہوں نے پیرانہ سالی کی وجہ سےاستعفی دے دیا ہے بلاول بھٹو زرداری برملا ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کی عدم فراہمی کا رونا رو رہے ہیں جبکہ آصف علی زرداری بار بار الیکشن کمیشن آف پاکستان پر مکمل اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں، بلاول بھٹو زرداری اس بات پر بضد ہیں کہ اگلا وزیر اعظم لاہور سے نہیں ہو گا۔ میرا خیال ہے ان کی نظر میں ملک کا سب سے بڑا مسئلہ وزیر اعظم کا انتخاب ہے؟ وہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ٹیلی فون رابطے کو بھی اہمیت نہیں دیتے جب ان سے اس رابطہ بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے سنی ان سنی کر دی اور کہا کہ یہ پرانی خبر ہے۔ انہوں نےاپنی سابق اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) جس کے ساتھ 16ماہ تک اقتدار کے مزے لوٹے، کو ’’مہنگائی لیگ‘‘ کا طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں اچھا نہیں لگتا کہ ’’خان صاحب جیل میں ہیں اورمیں ان پر تنقید کروں، ان لوگوں کو گھر بٹھاناہے جو دو دو تین تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی’’معصومانہ خواہش‘‘ کا اظہار کیا کہ ’’بابوں‘‘ کی بجائے ان کو موقع دیا جائے تو وہ عوام کو ڈیلور کریں گے، معلوم نہیں ان کا کون مخاطب ہے انہوں نے بین السطور کہا ہے کہ اگر پہلے الیکشن کے نتائج طے کر لئے گئے ہیں تو پھر انتخابات کرانے کا کیا فائدہ؟ البتہ وہ یہ برملا کہتے ہیں کہ ’’کسی کو دوسری یا چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کی بجائے نوجوانوں کو موقع دینا چاہیے‘‘۔