• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں نواز شریف نے توقعات کے برعکس فوجی آپریشن کے بجائے مذاکرات کو ایک اور موقع دینے کا اعلان کیا تو شوخ و چنچل بلاول بھٹو زرداری نے ٹویٹ کی،میں چاہتا ہوں وہ ہمارے چرچل بنیںمگر وہ تو چیمبرلین بن رہےہیں۔اگربلاول نے غیرنصابی سرگرمیوں کے بجائے آکسفورڈ یونیورسٹی کی لائبریری میں کچھ وقت گزارا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ چرچل نے دوسری عالمی جنگ اپنے ملک میں جیٹ طیاروں کی بمباری کر کے نہیں جیتی تھی بلکہ ان کا سامنا جرمنی کے حکمران ہٹلر سے تھا اور جس چیمبر لین کو بزدلی کا طعنہ دیا جاتا ہے ،نہ صرف اس جنگ کا آغاز اس نے کیا تھا بلکہ چھ ماہ تک کمانڈرانچیف کی حیثیت سےجنگی مہمات کی نگرانی بھی کی اور پھرمستعفی ہو کر قیادت چرچل کے سپرد کر دی تاکہ قوم یکجا ہو سکے۔اگر نواز شریف برطانوی وزیر اعظم چیمبر لین کی طرح اس تاریخی حقیقت سے روشناس ہیں کہ جنگ میں فتح کا دعویٰ خواہ کسی بھی فریق کی جانب سےکیا جائے،حقیقت میںکوئی فاتح نہیں ہوتا،سب ہار جاتے ہیں ،تو ان کی سیاسی بصیرت کی داد نہ دینا بددیانتی ہو گی۔میاں نواز شریف زندگی کے مد و جذر سے بخوبی آشنا ہیں ،بلکہ یہ کہوںتو بے جا نہ ہوگا کہ بھلا ان سے بڑھ کر لیل و نہار کی بے رحم گردشوں سے کون واقف ہو گا کہ یہ دنیا جب مہربان ہوتی ہے تو زمانے بھر کی خوبیاں مستعار لیکر اپنے ممدوح کو ودیعت کر دیتی ہے اور جب تخت اور بخت منہ موڑ لے تو اپنے اوصاف بھی چھین لیتی ہے۔انہوں نے وہ دوربھی دیکھا ہےجب ارکان اسمبلی اور سینیٹر اس نیت سے ان کی ڈیوڑھی کا طواف کیا کرتے تھے کہ زندگی سنور جائے گی اور پھر وہ وقت بھی آیا جب ماڈل ٹائون کو کوچہء یار سمجھنے والے اس وادی ء پُرخار سے یوں پرے بھاگتے تھے جیسے یہ آفت زدہ علاقہ ہو۔اپنے ہم عصر کالم نگاروں کے برعکس میری رائے یہ تھی کہ میاں نواز شریف نے اپنے تلخ و شیریں ماضی سے کچھ نہیں سیکھا اور اقتدار ملتے ہی ایک بار پھر بے کنار ہونے لگے ہیںمگر چند روز قبل انہوں نےقومی اسمبلی میںتقریرکرتے ہوئےنہایت دردمندی سے مذاکرات کو آخری موقع دینے کا اعلان کیا تو مجھے ان کے لہجے سے مدبرانہ بصیرت اور دوراندیشی جھلکتی نظر آئی اور میں اپنی بدگمانی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو گیا۔چند روز قبل طالبان کے ایک اہم کمانڈر سے بات چیت کے دوران میں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ اگر ان معتبر صحافیوں کو بات چیت کا ٹاسک دیا جائے جو طالبان سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں تو کیسا رہے گا؟انہوں نے میری تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہو جائے تو ہم سمجھیں گے کہ حکومت مذاکرات کے لئے واقعی سنجیدہ ہے۔طالبان کمانڈر نے سب سے پہلے سلیم صافی کا نام لیا مگر بدقسمتی سے وہ اس کمیٹی میں شامل نہیں ۔میرے خیال میں سلیم صافی طالبان سے بات چیت کے ضمن میں سب سے کارآمد اور مئوثر ثابت ہو سکتے ہیں۔چونکہ وہ خود افغان جہادمیں شریک رہے لہٰذا وہ بندوق برداروں کی نفسیات اچھی طرح سمجھتے ہیں اور اچھا مذاکرات کار وہی ہوتا ہے جو فریق ثانی کے مائنڈ سیٹ سے آگاہ ہو۔انہیں حکومت کی جانب سے پیشکش تو کی گئی مگر غالباً انہوں نے اس اندیشے کے پیش نظر معذرت کر لی کہ وہ طالبان سےکوئی بات منوانے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ سول اور ملٹری لیڈرشپ اس کمیٹی کے فیصلوں کو تسلیم کرے گی۔شکوک و شبہات اپنی جگہ لیکن میرے خیال میں پاکستان کو اس دلدل سے نکالنے کے لئے سلیم صافی جیسے سچے اورکھرے صحافیوں کو اپنی ساکھ اور شہرت بھی دائو پر لگانے سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔اب بھی انہیں کمیٹی میں شامل ہونے پر رضامند اور قائل کر لیا جائے تو مذاکراتی عمل کی کامیابی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اگر طالبان شریعت کے متمنی ہیں اور اپنے نظریات بندوق کے زور پر مسلط کرنے کی روش سے باز آ جائیں توکسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔جس عظیم فاتح کے مماثل قرار دیکر نواز شریف کو میدان جنگ میں کود جانے کا مشورہ دیا جا رہا تھا،اسی چرچل نے کہا تھا،روایات کی محبت کبھی کسی قوم کو کمزور نہیں کرتی بلکہ ضعف و ناتوانی کے عالم میں تقویت کا باعث ہوتی ہے۔اندیشے اور وسوسے اب بھی موجود ہیںکیونکہ ہمارے مقتدر حلقے قابل اعتبار نہیں رہے اور بد عہدیوں کی فہرست بہت طویل ہے ۔قیدیوں کی رہائی کا معاملہ اور معافی کی پیشکش توکی جائے گی مگر دو مطالبات ڈیڈ لاک کا باعث بن سکتے ہیں۔حکومت یہ مطالبہ تسلیم نہیں کرےگی کہ وزیرستان سے فوج نکال لی جائے اور طالبان اس بات پر آمادہ نہیں ہونگے کہ محض وعدوں ،یقین دہانیوں اور ضمانتوں پراعتبار کر کے ہتھیار ڈال دیں،ہاں پاکستان میں کاروائیاں نہ کرنے کی شرط پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔مگر راستہ ہمیں ڈھونڈنا ہوگاکیونکہ چرچل جیسا فاتح بھی کہتا ہے ،میں شہادت کے لئے پادر رکاب رہتا ہوں مگر ترجیح یہ ہوتی ہے کہ جنگ ملتوی ہو جائے۔میرے وہ دوست جو نواز شریف کو چرچل بن کر سب کچھ نیست و نابود کرنے کے مشورے دے رہے تھے اور اب انہیں بزدلی کے طعنے دیتے نظرآتے ہیں ،اگر وہ چرچل کی ہی چند نصیحتیں پلے باندھ لیں تو ان کا زاویہ فکر درست ہو جائے۔
’’اگر ہم ماضی اور حال کی جنگ میں اُلجھ جائیں تو مستقبل ہار جائیں گےـ‘‘
’’آپ کا کیا خیال ہے جنگ بہت آسان اور سیدھا راستہ ہے؟ہرگز نہیں،ہرگز نہیں،ہرگز نہیں۔یہ وہ طوفان ہے جس کی موجوں کا تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا۔ہر وہ لیڈر جو جنگ کرنے کا سوچ رہا ہے ،اسے ادراک ہونا چاہئےکہ ایک مرتبہ طبل جنگ بج چکا تو پالیسی آپ کے گھر کی باندی نہیں رہےگی بلکہ ان دیکھے اور نا قابل اختیار حالات کی غلام ہو گیـ‘‘
جنگ کی ہولناکیوں سے باخبر آئن سٹائن نے کہا تھا،مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ تیسری عالمی جنگ کن ہتھیاروں سے لڑی جائے گی لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ چوتھی عالمی جنگ لاٹھیوں اور پتھروں کے ساتھ لڑی جائے گی۔دہشت گردی کے خلاف اس اندھی جنگ میں بہت قتل و غارت گری ہو چکی ،اس بات سے کیا فرق پڑتا ہےکہ مرنے والےکسی ڈرون حملے میں مارے گئے،کسی خود کش حملے کا نشانہ بنے یا پھر فوجی آپریشن کی زد میں آ کررزق خاک ہوئے۔ یہ کھیل جو سالہا سال سے جاری ہے،اسے اب ختم ہونا چاہئے۔اب اس لاحاصل جنگ کو ختم ہونا چاہئے۔اور یہ اسی صورت ختم ہو گی جب فریقین وسعت قلبی کا مظاہرہ کریں گے،چونکہ ریاست کو ماں کا درجہ حاصل ہے اس لئے اعلیٰ ظرفی اور شفقت کی توقع بھی حکومت سے کی جانا چاہئے۔جن کا خیال ہے کہ بندوق کی زبان سے بات کرنے والے ناقابل اصلاح ہیں ،وہ اس خام خیالی سے نکل آئیں۔بس ضرورت یہ سمجھنے کی ہے کہ خون سے خون نہیں دھویا جا سکتا۔اندھیروںسے اندھیرے نہیں مٹائے جا سکتے،تاریکیاں دور کرنے کیلئے شمعیں جلانا پڑتی ہیں۔نفرتوں کی دیواریں نفرتوں سے نہیں گرائی جا سکتیں ،انہیں زمین بوس کرنے کے لیئے محبت کا سیل رواں درکار ہوا کرتا ہے۔اگر میاں نواز شریف خلوص نیت کے ساتھ چیمبر لین بننے جا رہے ہیں تو یہ وقت ہے ان کے ساتھ کھڑا ہونے کا۔
تازہ ترین