اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اصل اور خودساختہ مہنگائی نے عوام کیلئے جینے کوزندگی کے نام پر تہمت بنا دیا ہے۔خبر ہے کہ صارفین کیلئے نومبر میں سال بہ سال گیس کی قیمتیں 520فیصد اور بجلی کی 34.95فیصد تک بڑھیں، جس کی وجہ سے مجموعی مہنگائی میں اضافہ ہوا اور یہ 29.2فیصد تک جا پہنچی ۔ بنیادی ضروریات یعنی اشیائے خور و نوش کی مہنگائی شہری علاقوں میں 29.8 فیصد اور دیہی علاقوں میں 29.2فیصد ریکارڈ کی گئی، جبکہ غیر غذائی مہنگائی شہری علاقوں میں 30.9 فیصد اور دیہی علاقوں میں 25.9فیصد رہی۔شہری علاقوں میں جن اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں سالانہ بنیادوں پر سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا، ان میں مصالحہ جات، گندم کا آٹا، چاول، پھلیاں، چائے، گڑ، چینی، مشروبات، آلو اور دال ماش شامل ہے۔نان فوڈ کیٹگری میں جن اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، ان میں گیس چارجز، درسی کتب، اسٹیشنری، صابن،سرف،ماچس، مواصلاتی آلات، گھریلو ساز و سامان، بجلی چارجز اور ادویات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی تیل،گیس ،بجلی اور ڈالر مہنگا ہوتا ہے ہمہ گیر مہنگائی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے،جس کی اپنی وجوہات ہیں،تاہم نااہلی یہ ہے کہ جب یہی چیزیں سستی ہوتی ہیں تب مہنگائی میں کمی نہیں آتی۔ہمارے ہاں خود ساختہ مہنگائی اصل اور بڑا مسئلہ ہے۔ایک بار جو چیز مہنگی ہو جاتی ہے پھر اس کی قیمت کم نہیں ہوتی،مثال کے طورپر تیل سستا ہوا تو ٹرانسپورٹ کے کرائے کم نہ ہوئے ۔ حکومت عوام کو سبسڈی نہیں دے سکتی تو کم از کم خود ساختہ مہنگائی تو ختم کرائے ۔یاد رکھنے کی بات وہ ہے جو عالمی بینک کہہ رہا ہے کہ’’پاکستان کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ روشن مستقبل کیلئے مشکل فیصلوںپر مبنی سخت پالیسیاں اختیار کریگا یا ماضی کی ڈگر پر چلے گا‘‘،ہمیں اب اشرافیہ کی تعیشات بند کرکے وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑنا ہو گا کہ یہی ہماری بقا کا راستہ ہے۔