• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حسین ترین وادی، بدترین سزا: شہرِ سدوم کی ایک حسین ودل کش صبح ہے۔ حسبِ معمول نسیمِ سحر کے معطّر، پُرکیف جھونکے چہارسُو پھیلے ہوئے ہیں۔ قدرتی حُسن سے مالا مال سرسبز وشاداب پہاڑیوں کے بیچ اِس حسین وجمیل مہکتی وادی اور اس میں گنگناتی، بَل کھاتی شفّاف نیلے پانی کی آب شاریں، گہری جھیلیں، اناج کے خوشوں کی سبز چادر سے ڈھکے میدان، انواع و اقسام کے پھلوں سے لدے باغات، گھنے جنگلات کے درختوں کے پتّوں کی سرسراہٹ، شاخوں پر چہکتے پھرتے اپنے ربّ کی تسبیح پڑھتے، رنگ برنگ پرند اور آسمان پر تیرتے سفید وبھورے بادلوں کی اوٹ سے جھانکتی سنہری رُوپہلی کرنیں، اُن مکینوں کی منتظر ہیں کہ جو اس سعادتِ عظمیٰ سے محروم اپنے آشیانۂ استراحت میں گہری نیند، خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ 

خلافِ توقع آج جنگلی مرغِ زرّیں کی خوش کُن بانگ میں خوف واُداسی کی جھلک ہوتی ہے۔ ابھی مشرق سے اُبھرتے سورج کی چمک دار کرنیں شہر کو مکمل طور پراپنی لپیٹ میں لے بھی نہ پائیں کہ اچانک خُوب صُورت ماحول میں وحشت ناک خاموشی چھاگئی۔ پرندوں نے چہچہانا بند کردیا، درختوں کی سرسراہٹ، آب شاروں، جھرنوں کی گُنگناتی آوازیں رُک گئیں، بادِصبا رُوٹھ کر واپس ہوگئی۔

ہیبت ناک خاموشی میں کتّوں کے رونے کی آوازیں اور پرندوں کا خاموش ہوجانا، کسی آنے والی آفت کا پیش خیمہ لگ رہا ہے۔ وادی پر گھٹا ٹوپ اندھیرے میں موت کا سا سنّاٹا چھاگیا۔ شہر کے باسی ابھی پورے طور پر بے دار بھی نہ ہونے پائے تھے کہ اچانک ایک خوف ناک جھٹکے نے لمحوں میں سب کچھ ختم کرڈالا۔ اللہ کے حُکم سے رُوح الامین، حضرت جبرائیلؑ نے اپنے ایک پَر کی نوک سے پورے شہر کو اُٹھاکر آسمان پر پہنچایا اور پھرالٹ کر واپس زمین پر پٹخ دیا۔ 

اس طرح دنیا کی حسین وجمیل وادی، زمین میں چار سو بیس میٹر اندر دھنس کرپانی کی تہہ میں غرق ہوگئی۔ یہ پانچ خُوب صورت شہروں کی ایک بستی تھی، جس کا کوئی ایک فرد بھی زندہ نہ بچا، لیکن اللہ نے اس عظیم شہر کے کھنڈرات کو مستقبل کے لیے عبرت کاسامان بناکر محفوظ کرلیا۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے۔ترجمہ:’’اور ہم نے سمجھنے والوں کے لیے اس بستی میں ایک کُھلی نشانی چھوڑدی۔‘‘(سورۃ العنکبوت، آیت نمبر 35)۔

دنیا میں ہم جنس پرستی کی موجد، ملعون قوم بہت ڈھٹائی کے ساتھ علی الاعلان بدکاری کرتی

سدوم شہر کہاں واقع تھا؟:سدوم شہر جواب بحرِلوط یا بحرِ مردار کہلاتا ہے، اس کے مغرب میں اسرائیل اور مشرق میں اُردن واقع ہے۔ یہ علاقہ سطحِ سمندر سے420میٹر، یعنی1378فٹ نیچے ایک گہری جھیل کی شکل میں ہے، جس کی لمبائی 67کلومیٹراور چوڑائی18کلو میٹرہے۔ اس کے خاص حصّے میں پانی حد سے زیادہ نمکین ہے، جس میں کوئی جان دار زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس لیے اسے بحرِمُردار کہاجاتا ہے اور یہی شہر سدوم تھا۔ یہ علاقہ پانچ اچھے اور بڑے شہروں پر مشتمل تھا، جن کے نام سدوم، عمورہ، ادمہ، صبوبیم اور بالع یا صوغر تھے۔ سدوم ان شہروں کا دارالحکومت اور مرکز سمجھاجاتا تھا۔ حضرت لوط علیہ السلام کا قیام اِسی سرزمین پر تھا۔ (معارف القرآن، جلد3 صفحہ619,615)-

حضرت لوط ؑ کی سدوم کی طرف ہجرت: حضرت لوط علیہ اسلام کے والد کا نام ہاران تھا اور یہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے بھتیجے تھے۔ اِن کا بچپن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زیر سایہ گزرا۔ حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت سارہ علیہا السلام ملّتِ ابرہیمیؑ کے پہلے مسلم اور ’’سابقون الاوّلون‘‘ میں سے تھے۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرتوں میں ہمیشہ اُن کے ساتھ ساتھ رہے۔ توریت میں ہے کہ مصر میں قیام کے دوران اِن کے اورحضرت ابرہیم علیہ السلام کے پاس دیگر سازوسامان کے علاوہ مویشیوں کے بڑے بڑے ریوڑ بھی تھے۔ 

دونوں کے چرواہوں اور محافظوں کے درمیان عموماً کش مکش رہتی، چناں چہ باہمی رضا مندی سے دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ حضرت لوط علیہ السلام مصر سے ہجرت کرکے مشرقی اردن کے علاقے سدوم اور عامورہ چلے جائیں اور وہاں دینِ حنیف کی تبلیغ کریں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام واپس بیت المقدس چلے جائیں۔ 

حضرت لوط علیہ السلام اپنا سازو سامان اور مویشیوں کا ریوڑ لے کر سدوم کی سرسبز وشاداب سرزمین میں بس گئے، تو دیکھا کہ وہاں کے باشندے تو فواحش اور مصیبتوں میں اس قدر مبتلا ہیں کہ الامان الحفیظ۔، دنیا کی کوئی برائی ایسی نہ تھی، جوان میں موجود نہ ہو، دیگر بدترین عیوب وفواحش کے علاوہ یہ قوم ایک نہایت غلیظ عمل کی موجد بھی تھی، جسے آج کی جدید دنیا ’’ہم جنس پرستی‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ یہی وہ بدبخت قوم ہے، جس نے یہ ناپاک فعلِ بدایجاد کیا۔ زیادہ خباثت اور بے شرمی کی بات یہ تھی کہ یہ لوگ علی الاعلان، فخرومباہات کے ساتھ یہ بدکاری کرتے تھے۔(قصص القرآن، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، صفحہ 196/1)۔

قاضیٔ شہر کا عجیب فیصلہ: عبدالوہاب النجارالمصریؒ، قومِ لوط ؑ کی بدکرداری، سیاہ کاری اور جرائم پیشہ ذہینت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ بی بی سارہ نے اپنے گھر کے خادمِ خاص لعاز کو حضرت لوط علیہ السلام کی خیر خبر کے لیے سدوم بھیجا۔ بستی میں داخل ہوتے ہی ایک شخص مِلا اور ملتے ہی ایک پتھر مارکر اس کا سر پھاڑ دیا، جس سے بہت سا خون بہنے لگا اور ساتھ ہی لعاز کو پکڑ کرکہنے لگا۔ ’’یہ خون اگر تیرے بدن میں رہتا، تو تجھے بہت سی بیماریوں میں مبتلا کردیتا، میں نے اسے نکال کر تیرا بھلا کیا ہے، اب مجھے اس تعاون کا معاوضہ ادا کر۔‘‘ 

حضرت جبرائیل ؑ نے پورے شہر کو آسمان تک اُٹھا کر زمین پہ پٹخ دیا

لعاز تو یہ سن کر دنگ رہ گیا، ایک توچوری، اُوپر سے سینہ زوری۔ بحث وتکرار شروع ہوگئی اور معاملہ قاضی تک پہنچ گیا۔ قاضی نے مقدمہ سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ ’’اگر یہ تیرا سر نہ پھاڑتا، تو تیرا بہت نقصان ہوتا، چناں چہ تجھے اس کا معاوضہ اور محنتانہ ادا کرنا ہوگا۔‘‘ لعاز یہ غیرمنصفانہ فیصلہ سُن کر ہکّا بکّا رہ گیا۔ اُلٹی گنگا بہتی دیکھ کراُس نے دونوں کو مزہ چکھانے کا فیصلہ کرلیا۔ اُس نے فیصلہ سنتے ہی پاس پڑا ہوا ایک پتھر اُٹھایا اور پوری قوّت سے قاضی کے سر پر دے مارا، جس سے خون کا فوّارہ اُبل پڑا، پھر بولا ’’اے قاضی! میں نے تیرا سر پھاڑ کر اورخون بہاکر جو تیرا بھلا کیا ہے، اِس کا معاوضہ اس شخص کو دے دینا، جسے معاوضہ دینا میرے ذمّے ہے۔‘‘ (قصص الانبیاء، صفحہ182)۔

شہر بدر کرنے کی دھمکی: اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو نبوّت سے سرفراز فرماکراس قوم کی اصلاح پرمامور فرمایا تھا۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’اور لوط ؑ کو یادکرو، جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم بے حیائی کے کام کیوں کرتے ہو؟ کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مَردوں کی طرف مائل ہوتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم احمق لوگ ہو۔‘‘ (سورۃ النمل، آیات 55,54)۔ 

حضرت لوط علیہ السلام اپنی قوم کی عاداتِ بد کی وجہ سے بڑے پریشان رہتے اور دن رات انہیں وعظ ونصیحت فرماتے رہتے، لیکن قوم پر ان کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ وہ ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ فخریہ بدعات میں مشغول رہتے۔ حضرت لوط علیہ السلام کا نہ صرف مذاق اُڑاتے، بلکہ اُن کے ساتھ بہت سخت روّیہ رکھتے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’اور قومِ لوط ؑ نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا، جب ان سے لوط ؑنے کہا کہ تم کیوں نہیں ڈرتے، مَیں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں، تو اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو اور مَیں تم سے اس کام کا بدلہ نہیں مانگتا، میرا بدلہ اللہ ربّ العالمین کے ذمّے ہے، کیا تم تمام عالم میں سے صرف لڑکوں پر مائل ہوتے ہو، اور تمہارے پروردگار نے تمہارے لیے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں، ان کو چھوڑ دیتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے نکل جانے والے ہو۔‘‘(سورۃ الشعراء،آیات 160-166)۔ قوم کو حضرت لوط علیہ السلام کا وعظ ونصیحت بہت بُرا محسوس ہوتا، چناں چہ انہوں نے نہایت سختی سے کہا، ’’اے لوط! اگر تم باز نہ آئے، تو ہم تمہیں شہر بدرکردیں گے۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت نمبر167)۔

قوم کی جانب سے عذاب ِالٰہی کا مطالبہ:حضرت لوط علیہ السلام لطافت ونرمی کے ساتھ وعظ ونصیحت کرتے رہے۔ قوم کی خباثت، بے حیائی، بدکاری اور فسق وفجور پر ملامت کرتے ہوئے انہیں شرافت وپاکیزگی و طہارت کی زندگی کی رغبت دلاتے رہے، مگر اُن کی آنکھوں پر بے حیائی کا پردہ پڑچکا تھا۔ تمسخرانہ انداز میں گویا ہوئے’’لوط اور اس کے خاندان کو اپنے شہر سے نکال دو، یہ بے شک بہت ہی پاک لوگ ہیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف، 82)۔ حضرت لوط علیہ السلام نے دینِ ابراہیمیؑ کی تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بَھری محفل میں اُنہیں غیرت دلائی، ’’اے قوم کے لوگو! کیا تم ہی وہ نہیں ہوکہ تم مَردوں سے بدعملی کرتے ہو اور لوگوں کی راہ مارتے ہو اور اپنی مجلسوں میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو۔‘‘ ان کی قوم کے لوگ جواب میں بولے، ’’اے لوط! اگر تم سچّے ہو، تو تم ہم پر عذاب لے آئو۔‘‘ (سورۃ العنکبوت، آیت29)۔ اس مطالبے کے بعد حضرت لوط علیہ السلام کو یقین ہوگیا کہ اب یہ راہِ راست پر آنے والے نہیں، چناں چہ بے بسی کے عالم میں ربّ ذوالجلال کے حضور دُعا کے لیے ہاتھ پھیلادیے، ’’اے میرے پروردگار! ان مفسد لوگوں کے مقابلے میں مجھے نصرت عطا فرما۔‘‘ (سورۃ العنکبوت، آیت 30)۔

 جس پتھر سے جس شخص کی ہلاکت منظور تھی، اُس پر اُس کا نام کندہ تھا 

انسانی شکل میں فرشتوں کی آمد: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ؑ کی دُعا قبول فرمائی اور اپنے خاص فرشتے دنیا کی جانب روانہ کیے۔ علامہ عماد الدین ابنِ کثیرؒ، مفسّرین کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ’’یہ فرشتے حضرت جبرائیل ؑ، حضرت میکائیلؑ اور حضرت اسرافیل ؑ تھے، جو انسانی شکل میں دنیا میں آئے تھے۔ وہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملے اور انہیں بیٹے کی پیدائش کی خوش خبری سُنائی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ’’سورۃ الزاریات‘‘ میں اس ملاقات کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔ حضرت سدّیؒ فرماتے ہیں کہ ’’فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات کے بعد حضرت لوط علیہ السلام کی بستی پہنچے، تو دوپہر کا وقت تھا۔ 

سدوم شہر کے دروازے ہی پر اُن کی ملاقات حضرت لوط علیہ السلام کی صاحب زادی سے ہوگئی، جو وہاں پانی بَھرنے پہنچی تھیں۔ فرشتوں نے لڑکی سے پوچھا، ’’ہم یہاں کہیں ٹھہر سکتے ہیں؟‘‘ لڑکی نے جواب دیا کہ ’’آپ اس جگہ رُکے رہیں، مَیں واپس آکر بتاتی ہوں۔‘‘ درحقیقت لڑکی کو اس بات کا ڈر ہوا کہ اگر یہ قوم کے ہاتھ لگ گئے، تو قوم اُن کے ساتھ لازماً بُرا سلوک کرے گی، کیوں کہ تینوں فرشتے خُوب صُورت، نوعُمر لڑکوں کے رُوپ میں تھے۔ لڑکی نے گھر پہنچ کروالد کو صُورتِ حال سے آگاہ کیا۔ 

اُردن سے دریافت شدہ قومِ لوط ؑ کےبرباد شہر کے کھنڈرات
اُردن سے دریافت شدہ قومِ لوط ؑ کےبرباد شہر کے کھنڈرات

حضرت لوط علیہ السلام فوری طور پر اُن کے پاس پہنچے اورجب انہوں نے اپنے سامنے حسین وجمیل نوعُمر لڑکوں کو دیکھا، تو سخت پریشانی اور گھبراہٹ میں مبتلا ہوگئے۔ انہیں اپنی قوم کی عادتِ قبیحہ کے پیشِ نظر خطرہ تھا کہ قوم اُن کے ساتھ بدسلوکی کرے گی۔ قوم نے حضرت لوط علیہ السلام کو سختی سے منع کردیا تھا کہ مہمانوں کو اپنے گھر نہ ٹھہرانا، لیکن اس کے باوجود انھیں چُھپ چُھپا کر اپنے گھر لے آئے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے۔ ’’اور جب ہمارے فرشتے لوط ؑ کے پاس آئے، تو وہ اُن کے (آنے سے) غم ناک اور تنگ دل ہوئے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مشکل کا دن ہے۔‘‘(سورئہ ہود، آیت نمبر77)۔

حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی نے راز فاش کردیا:حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی اُن مشرکین سے ملی ہوئی تھی، اُس نے یہ راز فاش کردیا، جسے سُن کر بستی والے دوڑتے ہوئے آئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’اور لوط ؑ کی قوم کے لوگ اُن کے پاس بے تحاشا دوڑتے ہوئے آئے اور یہ لوگ پہلے ہی سے فعلِ شنیع کیا کرتے تھے۔ لوط نے کہا کہ ’’اے قوم! یہ میری (قوم) کی بیٹیاں ہیں، یہ تمہارے لیے پاک ہیں، تو اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں میں مجھے بے آبرو نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی ایک بھی شائستہ آدمی نہیں؟‘‘ وہ بولے ’’تمھیں معلوم ہے کہ تمہاری(قوم) کی بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں اور جو ہماری غرض ہے، اُسے تم خُوب جانتے ہو۔‘‘ 

سدوم شہر، آج بحرِلوط یا بحرِ مُردار کہلاتا ہے، جس کے مغرب میں اسرائیل اور مشرق میں اردن واقع ہے 

حضرت لوط ؑ نے کہا، ’’اے کاش! مجھ میں تمہارے مقابلے کی طاقت ہوتی یا کسی مضبوط قلعے میں پناہ پکڑسکتا۔‘‘ (سورئہ ہود، آیت نمبر80)۔ وہ بولے ’’کیا ہم نے تمھیں سارے جہاں (کی حمایت اور طرف داری) سے منع نہیں کیا تھا۔‘‘ (سورۃ الحجر،آیت نمبر70)۔ مفسّرین لکھتے ہیں کہ لوگوں کا ازدحام دیکھ کرحضرت لوط علیہ السلام نے گھر کا دروازہ بند کرلیا اور اُن نوجوانوں کو ایک کمرے میں چُھپا دیا۔ بدکار لوگوں نے آپ کے گھر کا گھیرائو کیا ہوا تھا، اُن میں سے کچھ گھر کی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کررہے تھے، تاکہ گھر کے اندر کُود سکیں۔ حضرت لوط علیہ السلام اپنے مہمانوں کی عزّت کے خیال سے بہت زیادہ گھبراہٹ، پریشانی اوربے چارگی میں مبتلا نظر آئے۔ (قصص الانبیاء، ابنِ کثیرؒ، صفحہ239)۔

فرشتوں کا اظہارِ حقیقت: فرشتے یہ سب دیکھ رہے تھے، جب انہوں نے ایک طرف حضرت لوط علیہ السلام کی بے بسی اور پریشانی دیکھی اور دوسری طرف نشے میں بدمست لوگ دیوانہ وار گھر کے اندر گُھسنے کے لیے بے تاب وبے قرارنظر آئے، تو فرشتوں نے حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے حضرت لوط علیہ السلام کو مخاطب کیا ’’اے لوط ؑ! ہم آپ کے ربّ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ یہ لوگ ہرگز آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ کچھ رات باقی رہے، تو اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو، اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے مُڑکر نہ دیکھے۔ مگر سوائے تمہاری بیوی کہ جو آفت اس قوم پر پڑے گی، وہی اُس پر بھی پڑے گی۔

عذاب کے وعدے کا وقت صبح کا ہے، جو اب زیادہ دُور نہیں۔‘‘ (سورئہ ہود، آیت نمبر81) مفسّرین لکھتے ہیں کہ ’’حضرت لوط علیہ السلام حقیقتِ حال جان کر مطمئن ہوگئے اور اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رات ہی کو نکل کھڑے ہوئے۔ بیوی بھی اُن کے ساتھ تھی، لیکن کچھ دُورجاکروہ واپس اپنی قوم کی طرف پلٹ گئی اور قوم کے ساتھ عذابِ الٰہی کا شکار ہوئی۔ حضرت لوط علیہ السلام کے خاندان میں صرف دو بیٹیاں تھیں اور کوئی مَرد نہ تھا، چناں چہ وہ دونوں بچّیوں کو لے کر صوغرنامی بستی میں چلے گئے۔ جسے لوگ غورزغر کہتے تھے۔(قصص ابنِ کثیرؒ، صفحہ237)۔

عذابِ الہٰی کی ابتدا:ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اور انہوں نے (لوط ؑ) سے اُن کے مہمانوں کو لینا چاہا، تو ہم نے ان کی آنکھیں اندھی کردیں۔‘‘ (سورۃالقمر، آیت نمبر37)۔ یہ قومِ لوط ؑپر آنے والے عذاب کی شروعات تھی۔ اس کی تفسیر ’’کنزالایمان‘‘ میں یوں بیان کی گئی ہے کہ ’’جب قومِ لوط ؑ کے افراد بڑی تعداد میں دروازے پر پہنچے، تو فرشتوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے کہا کہ آپ انہیں گھر میں آنے دیں۔ جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئے، تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ایک دستک دی، جس سے وہ فوراً اندھے ہوگئے اور آنکھیں ایسی ناپید ہوگئیں کہ نشان بھی باقی نہ رہا۔ 

چہرے سپاٹ ہوگئے۔ حیرت زدہ مارے مارے پِھرتے تھے، دروازہ ہاتھ نہ آتا تھا۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں دروازے سے باہر کیا۔‘‘ (کنزالایمان، صفحہ760)۔ کہتے جاتے تھے، ہائے ہائے لوط ؑ کے گھر میں بڑے جادوگر ہیں، انہوں نے ہم پر جادو کردیا۔ فرشتوں کی ہدایت پر حضرت لوط علیہ السلام اپنی بچّیوں کو لے کر نکل گئے۔ اب اصل عذاب شروع ہونے کو تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا، ’’پھر جب ہمارا حکم آیا، تو ہم نے اس بستی کے اوپرکو اس کا نیچا کردیا اور اس پر کنکر کے پتّھر لگاتار برسائے۔ 

جو نشان کیے ہوئے تیرے ربّ کے پاس ہیں۔ اور وہ پتّھر ظالموں سے کچھ دُور نہیں۔‘‘ (سورئہ ہود، آیات نمبر 82، 83)۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے قومِ لوط ؑ کے شہر، جس خطّہ ٔ زمین پر تھے، اس کے نیچے اپنا بازو ڈالا اور اُن پانچوں شہروں کو، جن میں سب سے بڑا سدوم تھا اوراُن میں چار لاکھ نفوس بستے تھے، اتنا اونچا اُٹھایا کہ وہاں کے کتّوں اور مُرغوں کی آوازیں آسمان پر پہنچنے لگیں اور اس آہستگی سے اٹھایا کہ نہ تو کسی برتن کا پانی گرا اور نہ کوئی سونے والا بے دار ہوا اور پھر اس بلندی سے اُن کو اوندھا کرکے پلٹا دیا اور پھر اُن پر جو پتّھر برسائے، اُن پر ایسا نشان تھا، جس سے وہ دوسروں سے ممتاز تھے۔ قتادہؒ نے کہا کہ ان پرمُہریں لگی ہوئی تھیں۔ ایک قول یہ ہے کہ جس پتّھر سے جس شخص کی ہلاکت منظور تھی، اُس کا نام اس پتّھر پر لکھا تھا۔ (کنزالایمان،صفحہ 332)۔

دیکھو مجھے، جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو:’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘ کے مطابق، امریکی ماہرینِ ارضیات و آثارِ قدیمہ نے 10سال کی طویل تحقیق و جستجو کے بعد قومِ لوط ؑکے شہر سدوم کے کھنڈرات اردن میں بحیرۂ مردار کے قریب واقع تل الحمام کے علاقے میں دریافت کر لیے۔ مشن کے سربراہ Steven Collins Prof نے اس شہر کی دریافت کو ایک گم شدہ خزانے کی دریافت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم یہ جان کر حیران رہ گئے کہ سدوم شہر میں زندگی دفعتاً ختم ہوگئی تھی۔‘‘ محقّقین نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’’سدوم شہر دو حصّوں میں منقسم دکھائی دیتا ہے۔ ایک بالائی اور دوسرا زیریں۔ 

شہر کے گرد مٹّی کی اینٹوں کی 10میٹر اونچی اور52میٹر چوڑی دیوار کے کھنڈرات بھی دریافت ہوئے، جو شاید حفاظتی دیوار ہے۔ شہر کے دروازوں کی باقیات بھی ملی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جب یہ شہر تباہ ہوا، تو اُس وقت بھی لوگ روزمرّہ معمولات میں مشغول تھے۔ مگر زندگی اچانک ہی ختم ہوگئی۔ تحقیقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شہر3500 سال قبلِ مسیح میں تباہ ہوا۔‘‘ تاریخ خود کو دُہراتی ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے فرما دیا تھا کہ ’’ہم نے اس بستی کو صریح عبرت کا نشان بنا دیا ہے، ان لوگوں کے لیے، جو عقل و شعور رکھتے ہیں۔‘‘ (سورۃ العنکبوت، آیت35)۔ 

اللہ تعالیٰ کے معاملات دیکھیں کہ امریکا، جو ہم جنس پرستی کے مادر پدر آزاد کلچر اور سیکس فری سوسائٹی کا سرپرست و رُوح رواں ہے، آج اُسی ملک کے ماہرین کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ساڑھے تین ہزار سال بعد ہم جنس پرستی کے موجد شہر کی باقیات دریافت کروا کر یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ تم آج جو کچھ کررہے ہو، اللہ اس سے لاعلم نہیں ۔ تم سے پہلے بھی اس فعلِ بد کے مرتکب سرکشوں، نافرمانوں، ملعونوں کو ہر خائن و خاسر کے لیے عبرت کی مثال بنایا گیا۔

قرآنِ کریم میں ذکر: قرآنِ کریم کی پندرہ سورتوں کی چالیس آیات میں حضرت لوط علیہ السلام اور اُن کی قوم کا ذکر موجود ہے۔ مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ توریت کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت لوط علیہ السلام مع خاندان سدوم سے ہجرت کرکے صفوغریا ضغر کی بستی میں چلے گئے تھے، جو سدوم کے قریب ہی آباد تھی۔ آفتاب نکلنے کے بعد جب انہوں نے سدوم کی جانب دیکھا، تو وہاں ہلاکت اور بربادی کے سوا کچھ نہ تھا۔ حضرت لوط علیہ السلام کچھ دن بعد صوغر چھوڑ کر قریبی ایک پہاڑی پر آباد ہوگئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔‘‘ (قصص القرآن، صفحہ205)۔