• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں پانچ ہزار سالہ وادی سندھ کی تہذیب کے عظیم الشان موہن جو دڑو کے قدیمی اور روبہ زوال آثار قدیمہ کی شامت آئی ہوئی تھی جب ان آثارپر سندھ فیسٹول کے نام پر بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں لیزر روشنیوں اور فیشن و فن کے اجنبی طائفوں کے ذریعے گھوڑے دوڑا دئیے گئے۔ یہ خیال نہ کبھی ان آثار کی کھدائی کی نگرانی کرنے والے سر جان مارشل کو آیا ، اور نہ ہی مارٹیمر ویلر کو اور نہ ہی اس طرح ذوالفقار علی بھٹو کو کہ وادی سندھ کی پانچ ہزار تہذیب کو متعارف کرانے کے لئے ممی ڈیڈی کلاس مجاوروں کے ذریعے موہنجو دڑو کو اس طرح دنیا بھر میں متعارف کروایا جائے۔ لیکن جب مہتا پیلس” مہوٹا پیلس‘‘ بن جائے اور موہن جو دڑو اور” موہن جو ڈارو اور مجاورو ممی ڈیڈی کلاس قطع نظر اس کے کہ پاکستان میں حکومتیں سیاسی ہوں کہ آمرانہ تو پھر اسی طرح توہوتا ہے جس طرح موہن جودڑو کے تہذیبی روح پر لیزر روشنيوں کے ذریعے شب خون مارا گیا۔ چاہے آپ ترقی پسندی اور روشن خیالی کتنے ہی دعوے کیوں کرتے ہوں لیکن آپ نے بھی اس قدیم وادی سندھ کی تہذیب کے آثار کے ساتھ بھی تقریباً وہی کچھ کیا جو گزشتہ دہائی میں بامیان افغانستان میں بدھ کے مجسموں کے ساتھ طالبان نے کیا تھا۔ بس فرق اتنا ہے کہ وہ بندوقوں سے مسلح تھے اور آپ کلچر ولچر بنے ہوئے ہیں۔ موہن جو دڑو کے اسٹوپا کے مابین اور نزدیک بجلی کے کھمبے گاڑ کر روشنی کا سسٹم بنایا گیا، اسٹیج عین آثارقدیمہ کے بیچ بنایا گیا۔ ایک ہزار پولیس والے و دیگر سکیورٹی افراد آثارقدیمہ پر متین کیے گئے جہاں پر انہوں نے اپنے کیمپ قائم کیے۔جب مین آف موہن جو دڑو سوبھو گیان چندانی ، جو پیدا ہی موہن جو دڑو کے قریبی گائوں بنڈی میں ہوئے تھے نوے برس سے زائد عمر اور بیماری کے باوجود موہن جودڑو کے آثار کو اس طرح تباہ کرنے کے خلاف احتجاج کو گھر سے سڑک پر نکل آئے تو فیشن پریڈ مجاور سوبھو گیان چندانی سے زیادہ کلچر کے نہ تو رسیا ہو سکتے ہیں نہ علمبردار۔
سندھ کے دانشور اور بزرگ شخصیت سوبھو گیان چندانی وہہستی ہیں جنھیں عظیم بنگلہ شاعر رابندر ناٹھ ٹیگور مین فرام موہن جو ڈارو کہہ کر یاد کرتے تھے۔1930 کی دہائی میں جوہی، دادو کے قریب قدیم آثار دریافت کرنے والے آثار قدیمہ کے بنگالی محقق موجمدار کا ڈاکوئوں کے ہاتھوں قتل ہوا تھا تو سوبھو کو ٹیگور نے کہا تھا سندھ کے ڈاکوئوں نے کیوں ہمارے بنگالی ماہر آثآر قدیمہ کو قتل کیا خیر۔
خدارا جشن مرگ انبوہ سندھ و ملک کے حالات کے باوجود منائيں ضرور منائيں لیکن موہن جوڈارو کے آثارقدیمہ اور اس کی عین روح اور نرخروں پر پر چڑھ کر نہیں۔ پانچ سو کے قریب وی وی وی آئي پی مہمان بھی موہن جودڑو کے قدیم آثار کی دست برد کے اتنے ہی مجرم ہیں جتنے اس کے میزبان۔ آج نہیں تو کل تاریخ انہیں کٹہرے میں ضرور کھڑا کرے گی کہ قدیم عظیم انسانی تہذیب کے آثارکی بیحرمتی اس طرح کس کس نے کی تھی۔ ویسے بھی قانون برائے تحفظ قدیم آثارات کے تحت بھی یہ سنگین قانونی خلاف ورزی ہے۔ لیکن کون پوچھتا ہے کہ جب دن نوں راج فرنگی داتے رات نوں راج ملنگی دا بنا ہوا ہو۔ سندھ کی سڑکوں پر ڈاکو راج پانچ بجے شام کے بعد شروع ہوجاتا ہے، تعلیم کے تباہی اپنے عروج کے آسمان بھی پار کرگئی ہو، ضلعے وڈیروں اور بدمعاشوں کو لیز پر ملے ہوئے ہوں، اقلیتوں کی نقل وطنی اغوا و دیگر وجوہات کی بناء پر جاری و ساری ہو، عورتوں پر تشدد اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں سندھ کے وزیراعلی کے ضلعے میں سب سے زیادہ ہوں، وہاں کس سندھ کا جشن منایا جارہا ہے۔ بچے مٹی کھا رہے ہوں اور لوگ بچے غربت میں بیچ رہے ہوں وہاں کیسا جشن سندھ۔ چلو لوگوں کے گھروں سے غائب کیے جانے کی بات نہیں کرتے کہ اس کے پیچھے جانے پر خود حکمرانوں کو اپنے غائب ہوجانے کا خطرہ ہے۔ ضرور جشن منائو لیکن موہن جودڑو اور جناح صاحب کے مقبرے کو معاف کردو۔ سندھ کے ہر شہر اور گائوں کو موہن جو دڑو کے آثار قدیمہ میں بدل دینے کے بعد اب توپوں اور گھوڑوں کا رخ موہن جو دڑو کی طرف کیا معنی۔کس نے اس شام نہیں دیکھا جب سندھ کے اصل فنکاروں اور صوفی فنکاروں کو موہن جو دڑو پر سندھ فیسٹول سے میلوں دو رکھا گیا۔ کوریوگرافروں نے گڑھی خدابخش میں سول لباس میں بےنظیر بھٹو کی قبر پر سندھی ٹوپی اور اجرکوں میں ملبوس پھولوں کی چادر چڑھائے جانے کے بعد اب تک کیسے اسٹیج سجائے اور ناٹک رچائے ہیں۔ اب بینظیر کے بچے ہپ ہاپ گاتے ہیں۔ اچھی بات ہے۔ لیکن اپنے خرچ پر کائيں۔لیکن وہ جاگيردار ٹائپ اور ممی ڈیڈی کلاس ٹائپ مجارو جو بقول میرے دوست اور شاعر حسن درس کے سندھ کے غریب فنکاروں اور عظیم مراثیوں پر ویلوں کے پیسوں سے بڑے آدمی بنے ہیں وہ موہن جو دڑو پر ناٹک، کرنے کو جی حضوری اور خوشامدی کے دربار سجانے آئے۔ وہ جنھوں نے نیویارک کے یونین اسکوائر پر عظیم فنکارہ عابدہ پروین کے کنسرٹ کے موقع پر بھی وی آئی پی کرسیوں کی قطاریں سجائی تھیں۔ جو فوجی گورنر ہوں کہ بھٹو کی پھانسی کے بلیک وارنٹ پر دستخط کرنے والے سب سے خراج وصول کرتے آئے نوکریا پکی کرتے آئے ہیں۔ سدا بہار بیوروکریٹ جنہوں نے جنرل ضیاء کی آمریت کے دور میں عظیم صوفی اور سندھی شاعر شاہ عبدا لطیف کے رسالو کا ایک ایڈیشن فوجی گورنر جنرل جہانداد خان سے منسوب کیا تھا۔ اب سندھ میں ٹھیکیدار قسم کے لوگ آرٹ کے چوہدری بنے ہوئے ہیں۔بھٹو اور موہن جودڑو پر یاد آیا کہ جب 1972 میں شملہ میں بھارت کی اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی اور پاکستان کے وزیر اعظم بھٹو کے درمیان مذاکرات تقریباً ایک دفعہ ناکام ہوچکے تھے اور پاکستانی وفد بوریا بستر باندھنے والا ہی تھا تو بھٹو آخری کوشش کے طور پر اندرا گاندھی سے اس طرح مخاطب ہوئے تھے:” میں موہن جودڑو کی پانچ ہزار سالہ پرانی تہذیب کا وارث ہوں اور مسز گاندھی آپ اجنتا اور ایلورا جیسی عظیم الشان تہذیب کی وارث ۔ ایسا نہ ہو کہ کل آنیوالی نسلیں ہمیں کہیں کہ موہن جو دڑو اور اجنتا اور ایلورا کی تہذیبوں کے وراث برصغیر میں امن نہیں دے سکے تھے۔‘‘ جو بھٹو کی ایسی بات کے بعد ناکام ہوتے شملہ مذاکرات پھر شروع کر کے کامیابی کو پہنچے تھے۔ وہی اجنتا اور ایلورا جنہیں اورنگ زیب جیسے کٹر حکمران نے بدل کر اورنگ آباد اور اسلام آباد کے نام دئیے تھے۔ کسے خبر تھی کہ اورنگزیب کے صدیوں بعد ضیاء الحق اس ملک پاکستان سے وہی آکر کرے گا۔
تازہ ترین