• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پندرہ سالہ ملالہ یوسف زئی جب طالبان کے ہاتھوں موت و حیات کی کشمکش میں تھی تو پورا پاکستان اس کی زندگی کی دعائیں مانگ رہا تھا۔ مگر جب اہلِ مغرب نے سترہ سالہ ملالہ کو امن کانوبل پرائز دیا تو کچھ پاکستانی حیرت زدہ رہ گئے اور کچھ مشکوک ہو گئے۔ اس کی واحد وجہ اس کی عمر تھی۔ بہر حال اس وقت خواتین کی تعلیم کے حوالے سے ملالہ ایک استعارے کی حیثیت حاصل کر چکی ہے۔ چند دن پہلے جوہانسبرگ میں نیلسن منڈیلا کی دسویں برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا کہ طالبان نے افغانستان میں لڑکی ہونا ہی غیر قانونی بنا دیا ہے۔ دو سال پہلے تک افغانستان میں عورتیں کام کرتی تھیں اور وزارتوں کے منصب پر بھی فائز تھیں۔ لڑکیاں کرکٹ اور فٹبال کھیلتی تھیں، بچیاں اسکول جاتی تھیں، سب کچھ بہترین نہ ہونے کے باوجود پیشرفت ہو رہی تھی، تاہم طالبان نے قبضہ کرتے ہی خواتین کے حقوق سلب کر لیے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ طالبان حکومت کو نسلی عصبیت کی مرتکب قرار دے۔ یقیناً حقوق نسواں کے حوالے سے دنیا زیادہ دیر افغانستان سے صرف ِ نظر نہیں کر سکتی۔ اسے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔

کابل پرقبضہ کرتے وقت افغان طالبان نے دعوے تو بڑے بڑےکیے تھے مگر ابھی تک وہاں عام لوگوں کی زندگی قیدیوں سے کم نہیں۔ خاص طور پر خواتین کو تو سمجھ لیجئے جیلوں میں بند کر دیا گیا ہے۔ ان کے حقوق جس طرح پامال کیا جا رہے ہیں۔ وہ اکیسویں صدی کے ماتھے پر کسی سیاہ داغ سےکم نہیں۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال پر یہ سوالیہ نشان اس وقت ساری دنیا کی آنکھوں میں تیر کی طرح اتر گیا، جب وہاں کی معروف ایکٹر اور ٹی وی اینکر حسنہ سدا نے خود کشی کی۔ افغان حکومت نے اسے کوئی اور رنگ دینے کوشش کی مگر یہ بات طے شدہ ہے کہ یہ افغان طالبان کے رویے کے خلاف ایک احتجاجی خود کشی تھی۔ طالبان اسے خوف زدہ کرنے کیلئے کئی مرتبہ اس کے گھر پر حملہ کر چکے تھے۔ اسے ہر لمحہ یہی اندیشہ تھا کہ کب گولی اس کے جسم کو چیرتی ہوئی گزر جائے گی۔ یہ مسئلہ صرف حسنہ سدا کا نہیں تھا۔ یہ ہر اس لڑکی کا ہے، ہر اس عورت کا ہے جو تعلیم یافتہ ہے کیونکہ وہاں کچھ لوگوں کے نزدیک تعلیم یافتہ عورتوں کا قتل جائز ہے۔ انکے خیال میں مغربی علم نے انہیں اتنا گنہگار کر دیا ہے کہ اب صرف موت ہی انہیں پاک کر سکتی ہے۔ یعنی جب سے طالبان وہاں اقتدار میں آئے ہیں، عورت کو پتھر کے دور میں بھیج دیا گیا ہے۔ انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ دفاتر اور عدلیہ سے بھی خارج کر دیا گیاہے۔ حتیٰ کہ عورتوں کو سرکاری طور پر سرعام کوڑے مارے جا رہے ہیں۔

خواتین کے خلاف جنگ کا اعلان تو طالبان نے حکومت میں آتے ہی کر دیا تھا کہ سب سے پہلے ویمن افیئرز کی وزارت کےخاتمے کا اعلان کیا اور خواتین کے حوالے سے بڑے مکروہ احکامات جاری کیے اور جب خواتین نےاحتجاج کیا تو انہیں گرفتار کر کے ان پر تشدد کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ’’اصلاح شدہ‘‘ طالبان کا تصور غلطی ثابت ہوا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل کمیشن فار جیورسٹ (آئی سی جے) نےطالبان کی جانب سے افغان خواتین پر مظالم کو ریاستی جرم قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے مطالبہ کیا کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ انہوں نے عالمی برادری سے’’عالمی دائرہ اختیار استعمال کرنے‘‘ اور طالبان کو بین الاقوامی قوانین کے تحت جوابدہ ٹھہرانے کا مطالبہ بھی کیا۔

رپورٹ میں طالبان پر الزام لگا یا گیاہے کہ وہ پرامن احتجاج میں حصہ لینے والی خواتین اور لڑکیوں کو حراست میں لے کر جبری طور پر لاپتہ کر رہے ہیں اور انہیں حراست میں تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو طالبان ارکان سے شادی کرنے کیلئےمجبور کرنے کی کوششوں کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں۔ اگرچہ طالبان حکام کی جانب سے یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں کہ کسی بھی طرح کی پابندیاں خصوصاً تعلیم تک رسائی پر پابندی عارضی ہو گی تاہم ماہرین کے مطابق زمینی حقائق کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ دسمبر 2022 میں طالبان حکمرانوں نے خواتین کے این جی اوز میں کام کرنے پر پابندی عائد کی اور رواں سال اپریل میں انہیں اقوام متحدہ کیلئے کام کرنے سے بھی روک دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اب ملک کے کئی صوبوں میں اسکولوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ 10 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں جبکہ اس سے پہلے یہ پابندی چھٹی جماعت سے اوپر تعلیم حاصل کرنے کی خواہش مند لڑکیوں کیلئے تھی۔ ملک میں بیوٹی سیلون بند ہیں۔ خواتین پرکام کرنے اور کاروبار کرنے پر پابندی ہے۔انہیں دھمکا یا اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس وقت جو افغان مہاجر فیملیز واپس بھیجی جارہی ہیں ۔ان میں خواتین وہاں جانےکو بالکل تیار نہیں۔ خاص طور ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والی خواتین کا خیال ہے کہ ہمیں مار دیا جائے گا۔ مگر دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں جہاں انہیں تمام حقوق حاصل ہیں وہاں یہ لوگ پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں، دہشتگردی پھیلاتے ہیں اور غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر مسلسل یہی کہہ رہے ہیں کہ غیر قانونی مقیم غیر ملکی پاکستان کی سلامتی کو متاثر کر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں طالبان کی ’’خواتین کے خلاف جنگ ‘‘ میں انسانیت کے ناطے افغان خواتین کا ساتھ دینا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین