پاکستان میں عام انتخابات، دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ نگراں حکومت میں بیٹھے بہت سے لوگوں کی خواہش ہے کہ عام انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہوجائیں۔اسی لئے عام انتخابات موخر کرنے کے حوالے سے ایک شوشا چھوڑا گیا۔لیکن پورے ملک سے شدید ردعمل آنے کے بعد عام انتخابات کو مطلوبہ وقت پر ہی کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ اس حوالے سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا دو ٹوک موقف آنے کے بعد نگرانوں کے ارمانوں پر پانی پھر گیا اور یوں عام انتخابات التواء میں ڈالنے کا سارا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔بہرحال دیر آید درست آید ۔اگر انتخابات کے انعقاد کو مزید التواء میں ڈالا جاتا تو پھر کسی کے ہاتھ بھی کچھ نہ آتا۔آج پنجاب میں شہباز شریف کی ٹیم کے بہترین افسران نگراں حکومت کا حصہ ہیں اور نگراں وزیراعلیٰ کو کامیاب کرنے میں شہباز شریف کی ٹیم کے افسران کا کلیدی کردار ہے۔لیکن اگر انتخابات تاریخ کو آگے بڑھایا جاتا تو نگراں پنجاب حکومت کی کامیابی کا بھرم بھی ختم ہوجاتا۔کیونکہ منتخب حکومت کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔پنجاب کی نگراںحکومت نے مرکز و دیگر صوبوں کی نسبت بہت بہتر کام کیا ہے لیکن اس بہتری کو کامیابی سے جوڑنا اور پھر انتخابات میں تاخیر کا سوچنا کہیں کی دانشمندی نہیں ہے۔آج طاقتور حلقوں اور موجودہ نگرانوں کی اولین ترجیح ہونی چاہئے کہ جلد از جلد عام انتخابات کا پرامن انعقاد کرایا جائے اور تمام حکومتی نظام و انصرام منتخب حکومت کے حوالے کرکے عزت سے گھر جایا جائے۔کیونکہ ملک منتخب حکومت کے آنے کے بعد ہی معاشی طور پر ٹیک آف کرے گا۔اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کا فاتح کون ہوگا؟ عمومی تاثر قائم کیا جارہا ہے کہ تحریک انصاف کو دبانے اور دیوار سے لگانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ ہر حد تک جائے گی اور تحریک انصاف کو کبھی جیتنے نہیں دیا جائے گا۔وہ سب کچھ کیا جائیگا جو مسلم لیگ ن کیساتھ 2018ءکے انتخابات میں کیا گیا۔عمومی تاثر قائم کردیا گیا ہے کہ اس وقت تحریک انصاف اپنی مقبولیت کی انتہاء پر ہے اور اس کی مقبولیت کا مسلم لیگ ن سمیت کوئی بھی مقابلہ نہیں کرسکتا۔سوشل میڈیا کی حد تک رائے قائم کی جارہی ہے کہ اگر لیول پلئینگ فیلڈ دے دی جائے تو شاید تحریک انصاف پورے ملک سے کلین سوئپ کردے گی۔میری ذاتی رائے میں یہ سب باتیں حقائق کے برعکس ہیں۔تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کاموازنہ کریں اور ہر ہر حلقے کا جائزہ لیں تو وہ مقبولیت انیس ،بیس کے فرق کے ساتھ کہیں آگے اور کہیں پیچھے ہے۔تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں سوشل میڈیا پر ریاستی سرمائے کا اربوں روپے خرچ کیے۔آج جو یوٹیوبرز اور صحافی رائے عامہ ہموار کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ انہیں باقاعدہ ففتھ جنریشن وار کیلئے تیار کیا گیا۔ راولپنڈی کے تعلقات عامہ میں سب سے زیادہ رسائی انہی لوگوں کو حاصل تھی۔مقصد یہ کہ عمران خان نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں ہی اپنا سوشل میڈیا اس حد تک مضبوط کرلیا کہ آج چوبیس کروڑ عوام کی ترجمانی سوشل میڈیا کے صرف چند ہزار اکاؤنٹس کرتے ہیں۔وگرنہ ایسا نہیںکہ تحریک انصاف انتخابی سیاست میں مسلم لیگ ن سے بہت آگے ہے۔اگر ایسا ہوتا تو 21اکتوبر کو پنجاب بھر سے لاکھوں لوگ نہ نکلتے۔مسلم لیگ ن نے گزشتہ چند ماہ کے دوران ایک ہی بڑی سرگرمی کی ہےاور اسی 21اکتوبر نے فرق واضح کردیا تھا۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سوشل میڈیا پر خرچ کیے گئے اربوں روپے ، آج عمران خان کے کام آرہے ہیں۔آج مسلم لیگ ن کا مقابلہ تحریک انصاف کے ووٹ بینک سے نہیں بلکہ عمران خان کے سوشل میڈیا پر خرچ کئے گئے اربوں روپے سے ہے۔ایسے میں پھر یہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ اگر مسلم لیگ ن تحریک انصاف کی آرٹیفیشل مقبولیت کا مقابلہ کرسکتی ہے تو پھر تحریک انصاف کے امیدواروں کو جیلوں سے رہا کرکے عام انتخابات میں حصہ لینے دیا جائے۔مگر ایسا نہیں ہے۔ تحریک انصاف کو دیوار سے مسلم لیگ ن کو جتوانے کے لئے نہیں لگایا گیا بلکہ سانحہ 9مئی ان کی جڑوں میں بیٹھا ہے اور سانحہ 9مئی کو افواج پاکستان اپنے خلاف ایک سازش سمجھتے ہیں۔وگرنہ الیکٹیبلز کو توڑنا اور حلقوں میں تحریک انصاف کے خلاف فضا ء بنانے سمیت یہ سب کام عمران کے زمان پارک میں بیٹھے ہونے کے باوجود کئے جاسکتے ہیں۔پاکستان میں تو صرف یوتھ کے ایک طبقے کو اس سوشل میڈیا وار کے ذریعے متاثر کیا گیا ہے وگرنہ مشرقی وسطیٰ میں لبنان،لیبیا،یمن ،سیریااور بحرین جیسے مستحکم ملکوں کو مغرب نے اسی سوشل میڈیا کے ذریعے الٹا کر رکھ دیا۔آج پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کی مقبولیت اسی طریقہ کار کے تحت کی گئی ہے۔آئندہ چند روز میں انتخابی شیڈول جاری ہوجائیگا۔مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف پورے ملک میں جلسوں کا آغاز کریں گے۔جس جس ضلع میں نوازشریف جلسہ کرتے چلے جائیں گے،وہاں کے انتخابی نتائج اسی جلسے کے بعد باآسانی مرتب کئے جاسکیں گے۔نوازشریف کا جلسہ مسلم لیگی امیدواروں کے لئے کامیابی کی ضمانت تصور ہوگا۔