السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ہمّت و جرأت مل گئی
آپ نے میرا پہلا خط بعنوان ’’مطالعے کی رسیا‘‘ شائع فرمایا، جس کے لیے مَیں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں اور آپ کے جواب نے تو مجھے بہت ہی مسرور کیا بلکہ اُسی سے مجھے دوبارہ لکھنے کی ہمّت و جرأت ملی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’قصّہ سامری جادوگر‘‘ میں لکھا تھا کہ فرعون کے نوزائیدہ لڑکوں کو قتل کرنے کے حُکم پر سامری کی ماں نے اُسے غار میں چُھپا دیا اور پھر پہاڑ کے بند غار میں اُس کی پرورش حضرت جبرائیلِ امینؑ کے ہاتھوں ہوئی، بخدا میرے لیے یہ بہت ہی حیران کُن بات تھی، جو پہلی بارمیرے علم میں آئی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر نورین سے بات چیت کے دوران بہت عُمدہ سوالات کیے گئے۔
’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر عبدالستار عباسی نے ’’سفرِوسط ایشیا‘‘ کی رُوداد گوش گزار کی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ کی ’’مسز ورلڈ پاکستان‘‘ سےعُمدہ بات چیت کا بھی جواب نہ تھا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے پاکستان کے ’’برکس‘‘ میں شامل ہونے کی پہلی شرط، معاشی ترقی کو قرار دیا۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں محمود احمد لیئق، انقلابی شاعر، حفیظ میرٹھی پر مضمون لائے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں بشیر جمعہ کی تحریر متاثرکُن تھی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی دونوں آپ بیتیاں بھی پسند آئیں اور اب ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی بات، اِس بار اقتدار شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی کے حصّے آیا، جب کہ میری چٹھی تو شامل تھی ہی، حوصلہ افزائی کا بے حد شکریہ۔ (ماہ نور شاہد احمد، میرپورخاص)
ج: چشمِ بددُور، تمہیں تو بہت ہی جرأت و ہمّت مل گئی۔ چند سطری خط، کئی صفحاتی خط میں بدل گیا۔ لیکن ابھی مختصر نویسی ہی کی عادت برقراررکھو کہ طول طویل خطوط میں سے پھر کافی کچھ ایڈیٹنگ کی بھی نذر ہوجاتا ہے۔
شروع دن سے دیوانے
اِس بار بھی ہمیشہ کی طرح دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحات شامل تھے۔ ’’پاک فوج کے ناقابلِ فراموش ریسکیو مشنز‘‘ پر شان دار تحریرلائے، رائو محمّد شاہد اقبال۔ بھارت،امریکا، مشرقِ وسطیٰ کے مابین نئی تجارتی راہ داری کے موضوع پر منور مرزا کا تجزیہ لاجواب تھا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ’’سفرِ وسط ایشیا‘‘ کی تیسری اور چوتھی اقساط بھی پہلی دو قسطوں کی طرح شان دار رہیں۔ 12 ربیع الاول کی مناسب سے درمیانی صفحات میں نبی کریمؐ کی سیرتِ طیّبہ بیان کی گئی۔ ریلوے سے متعلق مضمون شان دار اور دل چسپ تھا۔
چند عشرے قبل تک پاکستان ریلوے کی مثالیں دی جاتی تھیں، مگر اب ریلوے کا وہ حال ہوگیا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ مشرق و مغرب میں تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں، واقعی اِس دوڑ میں آگے بڑھنا ہے، تو ہمیں ترقی کی ریل میں سوار ہونا پڑے گا۔ آئی پی پیز سے معاہدوں کی وجہ سے بجلی منہگی ہوئی ہے، جب تک اُن سے معاہدے ختم نہیں ہوجاتے اور پانی سے بجلی کی پیداوار نہیں بڑھائی جاتی، تب تک بجلی سستی نہیں ہو سکتی۔
رؤف ظفر کی دوسری نگارش کا بھی جواب نہ تھا۔ ہر مسئلے کا حل بندش ہی کیوں؟ ’’فن و فنکار‘‘کےتحت ایک منفرد تحریر پڑھنے کو ملی۔ اِس ضمن میں عاشر عظیم کے ساتھ تو بہت ہی زیادتی کی گئی۔ سُنا ہے کہ وہ اب دیارِغیر میں ٹرک چلاکر روزی روٹی کما رہے ہیں۔ حالاں کہ اُن کا ڈراما ’’دھواں‘‘ پی ٹی وی کا کلاسیک ڈراما تھا اور محترمہ شمائلہ ناز! ہم توشروع دن ہی سے سنڈے میگزین کے دیوانے ہیں، اِسی لیے اُس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج: یہ جو خطوط نگاروں کے آپس کے مکالمات چل رہےہوتے ہیں، یہ ہمارے ذہن سے تو یک سرمحوہی ہوچُکےہوتے ہیں۔ کبھی کبھی پرانے جرائد کھنگال کر دیکھ بھی لیتے ہیں کہ کس نے کیا فرمایا تھا، جس کا یہ جواب دیا گیا اور کبھی کبھی سوچتے ہیں ’’ارے! جانے دو بھئی، آپس ہی میں نمٹنے دو۔‘‘ آج بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ ہمارے ککھ پلے نہیں پڑا کہ شمائلہ ناز نے کیا کہہ ڈالا تھا، آج جس کا آپ کی طرف سے یہ جواب آیا ہے۔
ناخدا دکھائی نہیں دیتا
اللہ آپ کو شادو کام ران رکھے۔ نامساعد حالات میں شاید ہی کوئی ہو، جواپنی زندگی سے خوش اور مطمئن ہو، علاوہ حُکم رانوں کے۔ ہم اپنے مُلک کی کشتی کو کس طرح ایک خونی طوفان سے نکال کر لائے تھے، لیکن اب وہ ایک پھر بھنورمیں پھنسی ہوئی ہے اور اب تو کوئی ناخدا بھی دکھائی نہیں دیتا۔ وہ کیا ہے کہ ؎ لگتا نہیں ہے دِل مِرا اُجڑے دیار میں۔ بہرکیف، ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں قصّہ حضرت سلیمانؑ بہت ہی دل چسپ پیرائے میں تحریر کیا گیا۔ پوچھا گیا، ’’کیا بجلی سستی ہوگی؟‘‘ ارے بھئی، بجلی کیسے سستی ہو سکتی ہے، ناممکن! جب سے ہوش سنبھالا ہے، بجلی کو منہگے سے منہگا ہی ہوتے دیکھا ہے۔ چلیں، کوئی اور بات کرتے ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ پر نظر ڈالی تو دیکھتے کیا ہیں کہ پاکستان کو جلدی فیصلہ کرنا ہے کہ اُسے کون سی ٹرین میں سوار ہونا ہے۔ ارے منوّر صاحب! شبھ شبھ بولیں، پاکستان یقیناً ترقی کے موڈ میں ہے اور وہ ترقی ٹرین ہی میں سوار ہوگا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ ایک اچھا سلسلہ ہے، بہت دل چسپ انداز سے ضبط میں لایا جاتا ہے۔
’’اسٹائل‘‘ کے صفحے پر تو آپ ہی چھائی ہوئی نظر آتی ہیں، حالاں کہ عورت کو سمجھنا تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ’’فن و فنکار‘‘ میں پڑھا، ’’ہرمسئلےکاحل بندش کیوں؟‘‘ اس لیے کہ صاحبانِ عقل اِس سے بہتر کچھ کر بھی نہیں سکتے، تو بندش ہی سہی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کے صفحے پر ’’قرعہ‘‘ ایک اچھی تحریر تھی۔ آپ کے صفحے پر کچھ نئے قارئین کا اضافہ اچھا لگا۔ ویسےبڑےزبردست، مزے دار جوابات دیتی ہیں آپ، ٹکا ٹکا کر۔ بہت ہی لُطف آتا ہے پڑھنے میں۔ اور جناب، یقین ہے کہ جب میرے خط کی باری آئے گی، سالِ رواں رخصت ہورہا ہوگا۔ موسم سرما کی آمد آمد ہوگی۔ (نرجس مختار، خیرپور میرس، سندھ)
ج: چلیں، خُوش ہوجائیں، آپ کی اُمیدوں سے توکچھ جلد ہی باری آگئی ناں…!! ویسے یہ ٹِکا ٹِکا کر دیئے جانے والے جوابات تب ہی زیادہ لُطف دیتےہیں، جب کسی اور کودیئے گئے ہوں۔
دُکھ ہوتا ہے
گل ہائےعقیدت!!’’سنڈےمیگزین‘‘ میرے سامنے ہے، سوچتا ہوں، کن کن صفحات کی تعریف کروں۔3 ماہ بعد میرا خط شائع ہوا، پھر بھی بےحد شُکرگزارہوں کہ آپ اپنے پرستاروں کو یاد رکھتی ہیں۔ آپ کا رائٹ اَپ ’’سنہری دھوپ سے چہرہ نکھار لیتی ہوں…‘‘بےمثال، لاجواب تھا۔ مَیں ناچیز شاعر ہوں، دو کتابوں کا مصنّف بھی، مگرتحریریں قابلِ اشاعت نہیں ٹھہرتیں، تو سخت دُکھ ہوتا ہے۔ (سیّد شاہ عالم زمرد اکبر آبادی، راول پنڈی)
ج: تو ذرا آپ یہ اندازہ لگائیے کہ ہمیں یہ جان کر کس قدر دُکھ ہوا ہوگا کہ آپ خیر سے دو کتابوں کے مصنّف اور شاعر بھی ہیں، جب کہ یہاں عالم یہ ہے کہ آپ کے چند سطری خط کو سمجھنااورشایع کرناایک کارِعذاب سے کم نہیں۔ اور رہی بات پرستاروں کو یاد رکھنے کی، تو باری آنے پر ہرایک ہی کا نامہ شایع کر دیا جاتا ہے، اِس میں کسی کی پرستاری یا ناپرستاری کا کوئی عمل دخل نہیں۔
وژن زبردست ہے
اس بات میں کوئی دو آراء نہیں کہ روزنامہ جنگ کا اتوار میگزین اپنے مضامین، تحقیقی مراسلوں اوریہاں تک کہ پرنٹنگ کےاعتبار سے بھی دیگر شایع ہونے والے تمام جرائد سے کہیں آگے ہے بلکہ اب کچھ تو اِس دوڑ سے باہر ہی ہوگئے اور یہ سب آپ کی بے پناہ محنت اور ٹیم ورک ہی کا نتیجہ ہے۔ بلاشبہ ایک طویل عرصے کی سخت جدوجہد ہی کے بعد آپ کو یہ اعزاز حاصل ہوسکا ہے۔ بس دُعا ہے کہ یہ معیار یوں ہی قائم و دائم رہے۔ جریدہ یوں ہی ہم سب کے دِلوں پہ راج کرتا رہے۔ آپ کے ’’انٹرویوز‘‘ بہت دل چسپ انداز میں لیے گئے ہوتے ہیں۔ اور منور مرزا کا وژن زبردست ہے۔ اورہاں، پلیز، ’’ڈائجسٹ‘‘ میں غزلوں کی اشاعت جاری رکھیں۔ (پرویز شکیل، حیدرآباد)
ج: جزاک اللہ۔ آپ لوگوں کی اس قدر حوصلہ افزائی ہی اِس قدرمصائب ومشکلات کے باوجود مسلسل محنت و ریاضت پر مائل کیے رکھتی ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کے صفحے کےلیےکوشش کر رہے ہیں کہ مستقلاً ایک گوشہ ’’شعر و شاعری‘‘ ہی کا مختص کردیاجائے۔
صحیح ایڈیٹنگ کیا کریں
بعض خطوط بہت طویل ہوتے ہیں۔ اُن خطوط کی ایڈیٹنگ صحیح سے کیا کریں۔ ایڈیٹنگ کی قینچی تمام قارئین اور خطوط نگاروں کے لیے یک ساں چلایا کریں۔ یہ بہانہ نہ بنایا کریں کہ خطوط معیاری نہیں ہیں کہ آپ نے خُود ہی لکھ رکھا ہے کہ ’’جو جی میں آئے، لکھ بھیجیں۔‘‘ ویسے بھی اگر ہم اِتنے تعلیم یافتہ، عالم فاضل ہوتے تو اخبار میں عطاءالحق قاسمی کی طرح کالم لکھ رہے ہوتے، نوازشریف کی مدح سرائی کے بعد پی ٹی وی کے ایم ڈی بن جاتے۔ نہ کہ صبح و شام منہگائی بڑھنے کا رونا رو رہے ہوتے۔ ہمارے لیے تو اِس آسمان کو چُھوتی منہگائی کا غم ہی کافی ہے، اوپر سے خط کی اس قدر ایڈیٹنگ تو شدید ظلم کے مترادف ہے۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: آپ ناحق تعلیم یافتہ، عالم فاضل نہ ہونے کا غم نہ کریں کہ ایک آدھ نہیں، اَن گنت ایسے ہیں، جن کا علم وفضل نے بھی کچھ نہیں بگاڑا۔ آپ پی ایچ ڈی بھی کرلیتے، توفطرت میں تبدیلی محال ہی تھی، اِسی لیے اب ہم آپ کے ساتھ کچھ زیادہ مغزماری کرکے اپناوقت برباد کرنا ضروری خیال نہیں کرتے۔
فحاشی وعریانی سے پاک فلمیں
خالدہ سمیع کے خط کے جواب میں آپ نے لکھا کہ ’’کیا ہمارے یہاں کی مڈل کلاس میں دوپٹّے کے بغیر لباس کا تصّور بھی ممکن تھا۔ اور اب ڈیزائنرز نے پہناووں کےساتھ سِرےسے دوپٹّوں کاتکلف ہی ختم کردیا ہے۔‘‘ سوفی صد درست کہا آپ نے، بلکہ ہمارے تو دل کی بات کہہ دی۔ پہلے دوپٹّا عورت کی عظمت وعزت کا محافظ تصوّرکیا جاتا تھا۔ اِس پرایک خُوب صُورت فلم ’’دوپٹّا‘‘ بھی بن چُکی ہے، مگر یہ اُس دَور کی بات ہے، جب فحاشی وعُریانی سے پاک فلمیں بنا کرتی تھیں اور لوگ اُنہیں فیملی کےساتھ بیٹھ کردیکھنا پسند کرتے تھے۔
لیکن پھرانڈسٹری پر ایک ایسا طبقہ غالب آگیا، جس نے محض پیسا کمانے کے چکر میں فلموں میں عریانیت کو فروغ دیااوراس شان دارانڈسٹری کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ ہمارے پنجاب یونی ورسٹی کے ایک ساتھی طارق عزیز نے ’’دوپٹّا‘‘ نام کا ایک ڈراما بھی لکھا تھا، جو کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر ہوا تھا، جب کہ دوپٹّا فلم کے گانے بھی بہت مشہور ہوئےتھے، جوریڈیو پر اکثر فرمائشی پروگرامز میں بجتے تھے۔ ’’تم زندگی کوغم کا فسانہ بنا گئے، آنکھوں میں انتظار کی دنیا بسا گئے‘‘ اور ’’چاندنی راتیں، سب جگ سوئے، ہم جاگیں، تاروں سے کریں باتیں‘‘، یہ گانے میڈم نورجہاں نے گائے تھے اور اُن ہی پہ فلمائے گئے تھے۔ اُس دَور میں اگر فلموں میں لڑائی کے مناظر دکھائے جاتے، تو وہ بھی بہترین طریقے سےفلمائےہوتے، مگر رفتہ رفتہ صرف انڈسٹری ہی نہیں، پورا معاشرہ ہی اخلاقیات سے عاری ہوتا جا رہا ہے۔ (تجمّل حسین مرزا، ڈاک خانہ، باغ بان پورہ، لاہور)
ج: چلیں، دوپٹے ہی کے بہانے سہی، آپ کو پرانی فلموں پراپنی معلومات کے اظہار کا موقع توملا۔ ہمیں تو ’’تم زندگی کو غم کا فسانہ بناگئے‘‘ اور ’’تاروں سے کریں باتیں‘‘ کے بیچ بھول ہی گیا کہ بات دراصل مڈل کلاس خواتین کے دوپٹّا اوڑھنے کی ہورہی تھی۔
اس ہفتے کی چٹھی
میگزین موصول ہوا، سرِورق کی ماڈل پر اچٹتی سی نظر ڈال کر آگے بڑھ گئے۔ ’’قصص القرآن‘‘ میں ’’قصّہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ بلقیس کا‘‘ کی دوسری اور آخری قسط پڑھی۔ بے شک، حضرت سلیمانؑ کو اللہ تبارک تعالیٰ نے بے شمار معجزات سے نوازا تھا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال سوالیہ نشان بنے نظر آئے کہ ’’کیا کبھی بجلی سستی بھی ہوگی‘‘؟ ہم اِس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں کہ ’’پیوستہ رہ شجر سے، اُمیدِ بہار رکھ۔‘‘ اگر ہمّت و جرات کر کے کالا باغ ڈیم بنا دیا جائے بلکہ دیگرڈیمزبھی بنائےجائیں، تو ہمارے بھی حالات سدھرسکتے ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا مشرق ومغرب میں تبدیلی کی نشان دہی کر رہے تھے۔ ہمیں بھی سُستی وغفلت کی چادر اُتار کر ترقی کی دوڑ میں شامل ہونا چاہیے۔ سعودی عرب جیسا برادر مُلک، بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھارہا ہے۔
کویت، قطر بھی بھارت سے اربوں ڈالرز کے معاشی معاہدے کر رہے ہیں، تو کیا ہم اپنے برادر مُلکوں کو اپنی طرف راغب نہیں کرسکتے، صرف قرض اور امداد ہی کے لیے اُن سےاستدعا کرتے رہیں گے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر عبدالستار عباسی نے وسط ایشیائی ممالک کا سفری احوال رقم کیا، اچھا سلسلہ ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ نےحسبِ معمول بہترین اشعارسے مزیّن رائٹ اَپ تحریرفرمایا، توملبوسات تو تھوک کے حساب سے بکیں گے ہی۔ ’’رپورٹ‘‘ میں رئوف ظفر بھی بجلی بِلز ہی پرنوحہ کُناں تھے کہ ’’بِل نہیں، دِل جل رہے ہیں‘‘۔ مگر حُکم راں بھی تو گا رہے ہیں۔ ’’دل جلتا ہے تو جلنے دے، آنسو نہ بہا، فریاد نہ کر‘‘۔ لوگ دل کے مریض ہوگئے، خُود کُشیاں کررہے ہیں، مگر آئی ایم ایف کے سامنے سجدہ ریز حُکم رانوں کو عوام کی مشکلات نظر ہی نہیں آتیں۔ روشنی مانگو، تو شہر جلادیں گے، مختارِکُل جو ہوئے۔
’’رپورٹ‘‘ ہی میں محمّد واحد کاتجزیہ بھی درست تھا کہ منہگی بجلی ہی کی وجہ سے چوری بڑھی ہے اب غریب آدمی چوری کرے یا خُود کُشی، اس کے علاوہ اُس کے پاس چارہ بھی کیا ہے۔ ایک حدیثِ مبارکہﷺ کا مفہوم ہے ’’مفلسی کوروکو، یہ ایمان ضائع کرنے کا سبب بن جاتی ہے‘‘۔ اور یقیناً اس گناہِ کبیرہ کا بوجھ بھی حُکم رانوں کی گردنوں پرہوگا۔ ’’فن وفنکار‘‘میں فلموں، ڈراموں کی بندش کی بات کی گئی۔ دراصل ہمارے فلم سازوں نے عالمی ٹرینڈ، ’’مادر پدرآزادی‘‘ ہی کو کام یابی کی ضمانت سمجھ لیا ہے، جب کہ تہذیب و ثقافت کے تقاضے کچھ اورہیں۔
پہلے سنسر بورڈز فلموں، ڈراموں کے قابلِ اعتراض حصّے نکال پاس کر دیا کرتے تھے، مگر اب تو پوری فلم یا ڈراما ہی نئی ڈگر پر بنتا ہے، تو پھرمکمل بندش ہی واحدحل رہ جاتاہے۔ بہرکیف، سنسربورڈ اورانڈسٹری کے کرتا دھرتائوں کو مل بیٹھ کرقواعد وضوابط بنانے چاہیئں تاکہ فلم سازوں اور فن کاروں دونوں کا نقصان نہ ہو۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں فرحی نعیم ’’قرعہ‘‘ کے عنوان سے ایک منفرد افسانہ لائیں۔ بریگیڈیئر محمّد یونس کی نعت اور قمر عباس کی نظم بھی خُوب تھی، جب کہ ہمارے صفحے پر’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزاز شاہدہ ناصر کے نام رہا۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپور خاص)
ج: آج ضرورت سے کچھ زیادہ ہی سیانوں بیانوں والی، بہت سمجھ داری کی باتیں نہیں کرلیں آپ نے، حتیٰ کہ مصرعے تک بالکل صحیح لکھے۔ اللہ نظرِ بدسے بچائے۔
گوشہ برقی خطوط
* آپ سے بس یہ کہنا تھا کہ ’’جب سےتُونے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے… مَیں نے ’’سنڈے میگزین‘‘ ہاتھوں میں اُٹھا رکھا ہے…جب سے تُونے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے… مَیں نے ’’سنڈے میگزین‘‘ اپنے دل میں چُھپا رکھا ہے۔ (صاعقہ سبحان)
ج : ہاتھوں میں اُٹھانے، دل میں چُھپانے کی بجائے پڑھنے پر توجّہ دیتی، تو زیادہ اچھے نتائج کی توقع کی جا سکتی تھی۔
* آپ کو کوئی کہانی یا تحریر بھیجنی ہو تو کیا طریقۂ کار اختیار کیا جائے۔ فارمیٹ کیا ہونا چاہیے، یونی کوڈ میں بھیجیں یا کسی فائل کی صُورت۔ (جمیل جمیل)
ج: یونی کوڈ میں بھی بھیج سکتے ہیں، مگر سب سے بہتر تو یہ ہے کہ اردو اِن پیج فارمیٹ میں کمپوزڈ فائل بھیجیں۔ ویسے تحریر اچھی ہو تو فارمیٹ خواہ کوئی بھی ہو، شایع کر ہی دی جاتی ہے۔ اور ہاں، ای میل کے ساتھ آپ کا نام، آئی ڈی ’’جمیل جمیل‘‘ ہے، تو بھائی، اگر حُسن و جمال اتنا زیادہ ہوگیا تھا کہ سنبھالا نہیں جارہا تھا، تو ’’حسین و جمیل‘‘ ہی کر لیتے۔ یہ ’’جمیل جمیل‘‘ تو کچھ عجیب ہی معلوم ہورہا ہے۔
* آج اتوار کا دن ہے۔ ابھی ابھی اپنی تحریر ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے صفحے پر پڑھی، بتا نہیں سکتا کہ کتنی خُوشی ہوئی۔ یقین ہی نہیں آرہا کہ آخرکار، اب پورا پاکستان میری تحریر پڑھے گا۔ آپ کی اتنی محبّتوں کا ہمیشہ تہہ دل سے شُکر گزار رہوں گا۔ آئندہ بھی مجھے اِسی طرح سپورٹ کرتی رہیے گا، یوں ہی میرا حوصلہ بڑھاتی رہیے گا۔ (محمّد عُمراسرار، بھکّر)
ج: سارا پاکستان تو نہیں، ہاں البتہ پڑھنے لکھنے کے شوقین افراد کی ایک بڑی تعداد آپ کی تحریر ضرور پڑھے گی اور سپورٹ اور حوصلہ افزائی کی جہاں تک بات ہے، تو وہ ہر اچھےلکھاری کا بنیادی حق اور ہماری ذمّےداری ہے۔
* منور راجپوت نے ’’تاریخِ اسلامی کے نوجوان شہنشاہ‘‘ کے عنوان سے بہت ہی عُمدہ فیچر تحریر کیا۔ سہل زبان و انداز میں اتنی معلوماتی تحریر لکھنے پر مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ (بینش صدیقہ، کراچی)
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk