• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چوہدری قمر جہاں علی پوری، ملتان

سلطان الپ ارسلان کا شمار خوفِ خدا رکھنے والے رحم دِل اور رعایا پرور مسلمان سلاطین میں ہوتا ہے، جس نے ہمیشہ اطاعتِ خداوندی اور رضائے الہٰی کو پیشِ نظر رکھا اور اپنی پوری زندگی نہایت سادگی سے بسر کی۔ سلجوقی حُکم رانوں کے اس ہونہار سپوت کو سپاہیانہ جوہر وَرثے میں ملے تھے، جب کہ باپ کی تربیت نے طبیعت میں راست بازی، نرمی و فیّاضی اور دارالعلوم بغداد کی تعلیم نے علماو فقرا سے محبّت بھی پیدا کر دی تھی۔ 

یہی وجہ تھی کہ اپنے زمانۂ شہزادگی میں بھی وہ رات کی تاریکی میں مخلوقِ خدا کے حالات سے آگہی اور غربا و مساکین کی مدد کے لیے تنہا گلیوں میں نکل جاتا ۔ ایک رات معمول کے مطابق شہزادہ الپ ارسلان اپنی رعایا کی خبر گیری کے لیے بغداد کے مغربی پُل پر کھڑا تھا، تو اس کی ملاقات ایک صوفی منش بزرگ سے ہوئی۔ سلامِ مسنون کے بعد شہزادے کا بزرگ سے جو مکالمہ ہوا، وہ اس کی شخصیت پر اسلامی تعلیمات کے گہرے اثرات ظاہر کرتا ہے۔

’’شہزادے اور بادشاہ ایسے اوقات میں سیر کو نہیں نکلا کرتے۔ ‘‘بزرگ نے طنز کرتے ہوئے کہا۔ ’’غالباً وہ اپنی بد اعمالیوں سے ڈرتے ہیں کہ مبادا کوئی انہیں تنہائی میں نقصان نہ پہنچا دے، مگر الحمدللہ، مَیں ہرگز ایسا نہیں ہوں۔‘‘ شہزادے نے برجستہ جواب دیا۔ ’’اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ گلیوں میں اس طرح گھومنے پھرنے سے ان کے رُعب و ہیبت میں فرق بھی آجاتا ہے۔‘‘ بزرگ نے شہزادے کو آزمانے کے لیے ایک مرتبہ پھر طنز کا نشتر چبھویا۔ ’’ لیکن مَیں تو ہر فرد کو اپنے مساوی خیال کرتا ہوں۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے اُس کی عزت کرتا ہوں اور آپ جیسے بزرگوں کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھتا ہوں۔ مَیں ہرگز نہیں چاہتا کہ دُنیا مُجھ سے خوف کھائے۔‘‘ 

پھر شہزادے نے بزرگ سے التجا کرتے ہوئے کہا، ’’آپ مُجھے بتائیں کہ میری زندگی کا دستورِ عمل کیا ہونا چاہیے؟‘‘صوفی منش بزرگ نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ایک سرد آہ بَھری اور پھر مشرقی بغداد کی سمت ہاتھ اُٹھا کر فرمایا، ’’اُس قصر کو دیکھو، جو دریا کے کنارے سنگِ مرمر کے عالی شان ستونوں اور محرابوں پر انتہائی رفعت و عظمت، دِل فریب نقش و نگار، آرام و آسایش کے بیش بہا سامان اور محیر العقول صناعیوں کے ساتھ دیکھنے والوں کی دِل چسپی اپنے اندر جذب کررہا ہے۔ 

کیا تم سمجھتے ہو کہ اس میں رہنے والے خلفا اُن محنت مشقّت کرنے والے مزدوروں سے زیادہ آرام کی نیند سوتے ہیں، جو دِن بَھر کی کڑی محنت کے بعد اپنی گھاس پھوس کی جھونپڑی میں چادر تان کر سو رہے ہوتے ہیں؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ جس طرح اس سنگین قصر کی بنیادیں پُختہ و مضبوط ہیں، اسی طرح قصرِ سلطنت کی بنیادیں بھی مستحکم ہیں؟ یاد رکھو، سیکڑوں عیّاش اُمرا، خود غرض وزرا اور سلاطین کے عالی شان محل، انقلاب کی موجوں نے خس و خاشاک کی طرح بہادیے۔ یہ بلند و بالا عمارات اور ان کی مضبوط بنیادیں سلطنت کے عروج و رفعت اور شہزادوں، بادشاہوں کے سکون و اطمینان کو ظاہر نہیں کرتیں۔ 

سلطنت کی مضبوطی اور اس کا قیام و استحکام بادشاہوں کی ہر دِل عزیزی میں مضمر ہے۔ قلب کا سُکون و اطمینان خدائے قدّوس کی اطاعت اور روزِ جزا کے خوف میں پوشیدہ ہے، جب کہ بادشاہ کی حفاظت کا راز مُلک کے امن، رعایا کی خوش حالی، خلقِ خدا کے ساتھ عادلانہ سلوک اور اخوّت و مساوات میں چُھپا ہے۔ اس لیے تمہیں اُن نیک دِل خلفائے راشدینؓ کی تقلید کرنی چاہیے، جن کے نام تاریخِ اسلام اور صفحۂ روزگار پر سُنہری حروف سے لکھے ہوئے ہیں۔ میری نصیحت یہی ہے کہ ہر کام خاصی احتیاط اور کوشش سے کرو اور اس کے انجام کو خدا پر چھوڑ دو۔ اپنی قوّتِ بازو پر بھروسا رکھو۔ اللہ مسبّب الاسباب ہے۔‘‘

الپ ارسلان اور رومی شہنشاہ کی جنگ

سلطان طغرل بیگ کے بعد الپ ارسلان حُکم راں بنا، تو اس نے بڑی شان و شوکت سے حکومت کی۔ اس نے خُوں ریزی سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کی اور انتہائی مجبوری کے بغیر کبھی کسی کے خلاف جنگ کی جسارت نہیں کی۔ تاہم، اس دوران شہنشاہِ قسطنطنیہ یورپ کی دوسری سلطنتوں کی مدد سے ایک لاکھ سپاہیوں کے ساتھ مسلمانوں کو تہس نہس کرنے اور اپنی مقبوضات واپس لینے کے لیے جنگ کے ارادے سے آگے بڑھا۔ اس موقعے پر سلطان نے اُسے صلح کا پیغام بھیجا، لیکن وہ جنگ پر مُصر رہا۔ نتیجتاً، سلطان الپ ارسلان بھی چالیس ہزار مجاہدین کے ساتھ اس کے مقابلے پر اُتر آیا۔ 

اس جنگ میں رومی شہنشاہ کی ایک لاکھ سپاہیوں پر مشتمل فوج نے چالیس ہزار مجاہدینِ اسلام سے شکست کھائی اور کثیر تعداد میں اسیرانِ جنگ اور سامانِ حرب الپ ارسلان کے ہاتھ آیا۔ تاہم، سلطان نے اسلامی قانون کی رُو سے فدیہ لے کر تمام اسیرانِ جنگ کو رہا کر دیا۔ اپنی اس شکست پر نخوت و غرور میں ڈُوبا شہنشاہِ روم طیش میں آگیا اور اس نے پہلے سے زیادہ قوّت اور لائو لشکر کے ساتھ الپ ارسلان کی فوج پر حملے کا فیصلہ کیا۔ اس موقعے پر الپ ارسلان نے اُسے یہ پیغام بھیجا کہ ’’مَیں بندگانِ خدا کا ناحق خون نہیں بہانا چاہتا۔ معقول اور منصفانہ شرایط پر صُلح کے لیے تیار ہوں۔‘‘ مگر غرور کے نشے میں چُور اس بدمست رومی شہنشاہ نے صُلح کی پیش کش مسترد کر دی۔

جب الپ ارسلان کو یقین ہو گیا کہ اب لڑائی کسی صُورت نہیں ٹل سکتی، تو اُس نے سب سے پہلے خشوع و خضوع سے اللہ تعالیٰ سے غیبی مدد طلب کی اور پھر اپنی فوج کے سامنے یہ ایمان افروز تقریر کی کہ ’’مُجھے تمہاری وفاداری اور جاں نثاری پر پورا یقین ہے اور بھروسا بھی۔ تم ہمیشہ اپنے عمل سے ثابت کرتے رہے ہو کہ تم اسلام کے سچّے اور جاں باز سپاہی ہو۔ مَیں جانتا ہوں کہ تمہارا جوش و جذبہ اور خود داری تُمہیں مُجھے چھوڑنے کی اجازت نہیں دے گی، لیکن مَیں تمہیں بہ خوشی اس بات کی اجازت دیتا ہوں کہ تم میں سے جو بھی جنگ کے لیے تیار نہ ہو یا کسی وجہ سے مجبور ہو، وہ بلاتکلف میدانِ جنگ سے واپس چلا جائے۔‘‘ الپ ارسلان کی اس تقریر کے جواب میں مجاہدینِ اسلام نے اپنی تلواریں فضا میں بلند کر دیں۔

جنگ کے دوران الپ ارسلان کی سپاہ نے رومی شہنشاہ کی افواج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اِدھر رومی شہنشاہ نہایت مغرورانہ انداز میں اپنی بھاری بھرکم فوج کی کمان کررہا تھا، تو اُدھر الپ ارسلان اسلام کے ایک ادنیٰ سپاہی کی حیثیت سے میدانِ جنگ میں اپنے سرفروشوں اور جاں بازوں کو دادِ شجاعت دینے کے ساتھ اللہ سے اپنی نصرت و فتح کی دُعا مانگ رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں کُشتوں کے پُشتے لگ گئے اور لاشیں ہی لاشیں نظر آنے لگیں۔ مجاہدین کے بلند حوصلے دیکھ کر بُزدل دشمن کے پائوں اُکھڑ گئے اور رومی شہنشاہ کا تمام غرورو نخوت خاک میں مل گئی۔ 

اسیرانِ جنگ میں متکبّر رومی شہنشاہ بھی شامل تھا، جس نے الپ ارسلان کی صلح کی درخواست رَد کردی تھی۔ اب رومی شہنشاہ ایک جنگی قیدی کی شکل میں الپ ارسلان کے دربار میں موجود تھا۔ اگر یہ عظیم الشّان فتح، خدا فراموش عیسائی شہنشاہ کو ملتی، تو اس کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا اور شاید اپنے حریف الپ سلطان کا سَر قلم کرنے کا حُکم دیتا۔ تاہم، سلطان الپ ارسلان جنگ میں کام یابی کے بعد بھی اسلامی اصولوں پر کاربند رہا اور جب اسیرانِ جنگ کو اس کے سامنے پیش کیا گیا، جن میں رومی شہنشاہ بھی شامل تھا، تو وہ اپنے تخت سے اُترا اور چند قدم آگے بڑھ کر اُس مغرور بادشاہ کا استقبال کیا اور اُسے نہایت عزت و اکرام کے ساتھ اپنے تخت پر جگہ دی۔ 

پھر ہفت روزہ’’ جَشنِ شُکر‘‘ کے بعد سلطان الپ ارسلان نے رومی شہنشاہ سے پوچھا کہ ’’شکست کے بعد تمہیں مُجھ سے کس قسم کے سلوک کی امید ہے؟‘‘ ’’اگر ظالم ہو، تو مُجھے قتل کردو۔ اگر متکبّر ہو، تو مُجھے قید رکھو اور اگر وسیع الظّرف اور فراخ دل ہو، تو فدیہ لے کر چھوڑ دو۔‘‘ رومی شہنشاہ نے جواباً کہا۔ ’’اگر مُجھے شکست ہوتی اور مَیں بہ حیثیت قیدی تمہارے سامنے لایا جاتا، تو تم میرے ساتھ کیا برتائو کرتے؟‘‘ سلطان الپ ارسلان نے سوال کیا۔ ’’اگر تم میرے قیدی ہوتے، تو مَیں تمہارے لیے سزائے تازیانہ تجویز کرتا۔‘‘ رومی شہنشاہ نے شوخ لہجے میں جواب دیا۔ 

مشہور انگریز مؤرخ، ایڈورڈ گبّن رومی شہنشاہ کے اس گستاخانہ جواب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ’’ گرچہ یہ جواب احسان فراموشی کے مترادف تھا، مگر سلطان الپ ارسلان یہ گستاخانہ جواب سُن کر مسکرایا اور بولا ’’یہ تعلیم تمہیں تمہاری خود ساختہ عیسائیت نے دی ہے، مگر اسلام ایسی تعلیم نہیں دیتا۔ الحمد للہ، مَیں مسلمان ہوں اور تمہاری قید میں نہیں ہوں۔ مَیں تمہارے ساتھ وہی سلوک کروں گا، جس کی تعلیم مُجھے شارعِ اسلام ، حضرت محمدﷺ نے دی ہے۔

جب آپؐﷺ مکّہ معظمہ میں فاتحانہ حیثیت سے داخل ہوئے ، تو آپﷺ نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ذاتِ پاک پر کیچڑ اُچھالنے والوں اور ایذا رسانوں کو معاف فرما دیا تھا۔‘‘ چناں چہ سلطان الپ ارسلان نے دس لاکھ دینار بہ طور فدیہ اور ساٹھ ہزار دینار بہ طور خراج اور تمام مسلمان اسیرانِ جنگ کی رہائی کی شرط پر رومی شہنشاہ کو با عزّت طریقے سے بری کر دیا، جب کہ عیسائیت سمیت دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے اقوام کی پوری تاریخ رحم دلی کی ایسی ایک بھی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔