• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں گزشتہ ایک ہفتے سے پاکستان نیوی کے زیراہتمام پی این وار کالج میں منعقدہ میری ٹائم سیکورٹی ورکشاپ میں شریک ہوں اور آج بروز جمعرات اختتامی سیشن کے دوران میرا ارادہ پاکستان نیوی کی دفاعی خدمات کے تناظر میں ملکی معیشت کے استحکام کیلئے میری ٹائم ٹورازم پر اپنے خیالات کااظہار کرنا ہے، میری ٹائم سیکورٹی ورکشاپ منعقد کرانے کا مقصد ملکی سطح کے نمایاں پالیسی ساز، ماہرین تعلیم ،بزنس کمیونٹی اور میڈیا نمائندگان کو ایک چھت کے نیچے اکٹھا کرکے دفاعی نکتہ نظر سے پاکستان کے سمندروں کی حفاظت پر مامور پاک بحریہ کی گراںقدر خدمات سے آ?گاہی فراہم کرنا ہے۔تاریخی طور پرقیام پاکستان کے موقع پر رائل انڈین نیوی کو دونوزائیدہ خودمختار ممالک کے دوران تقسیم کردیا گیاتھا،چند ماہ کے مختصر عرصے میں بمبئی کی بندرگاہ سے پاکستانی بحری جہاز کراچی کے ساحل پر پہنچنے لگے،اس وقت پاک بحریہ کو ناکافی وسائل، ٹیکنیکل مسائل،پیشہ ورانہ افراد کی قلت، آ?پریشنل ایشوز اور دیگر چیلنجز کا سامنا تھا، تاہم ا?ج سات دہائیوں بعد پاک بحریہ کا شمار دنیا کی طاقتور ترین بحری قوتوں میں کیا جاتا ہے اور گاہے بگاہے عالمی میڈیا پر پاک بحریہ کے حوالے سے رپورٹس نشر ہوتی رہتی ہیں، مجھے یاد ہے کہ گزشتہ برس پاکستان نیوی کے جنگی جہازپی این ایس تیمور کے سری لنکا کی بندرگاہ میں لنگر انداز ہونے پرپڑوسی ملک کے میڈیا پر بہت زیادہ واویلا مچاتھا ، میری نظر میں اسکی بڑی وجہ پینسٹھ کی جنگ میں پاکستان نیوی کا وہ بہادرانہ کردار ہے جسکی بدولت پاکستان کی سمندری حدود کا بھرپوردفاع ممکن ہوا،آ?ج بھی ہمارے بڑے فخریہ بتاتے ہیں کہ غازی نامی پاکستان کی واحد آبدوز نے تن تنہا سمندر میں پاکستان کی جانب بڑھتے جنگی بیڑے کی پیش قدمی روکےرکھی۔ تاہم میری نظر میں آج اکیسویں صدی میں جنگ کا طریقہ کاریکسر تبدیل ہوگیا ہے، آج کی جدید جنگیں روائتی طور پر سمندری، فضائی اور زمینی دفاع تک ہی محدود نہیں رہیں بلکہ معاشی میدان میں اپنا لوہا منوانے والی قومیں ہی فاتح قرار پاتی ہے، اس حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان نیوی کا ملکی معیشت کے استحکام کیلئے بہت کلیدی نوعیت کا کردار ہے۔ایک طرف دنیا کے نقشے میں متعدد لینڈ لاکڈ ممالک کا براہ راست رابطہ سمندر سے منقطع ہے تو پاکستان کی ساحلی پٹی ایک ہزار کلومیٹر سے زائدپر مشتمل ہے،بحیرہ عرب کے کنارے مکران کوسٹل ہائی وےکا سفر خوبصورت اور دلکش مناظر سے بھرپور سمجھا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ زمانہ قدیم میں یہ راستہ یونانی فاتح سکندراعظم کی فوجوں نے بھی استعمال کیا تھا، یہ راستہ کراچی کو بلوچستان سے منسلک کرتے ہوئے آ?گے ایران کی سرحد تک جا ملتا ہے، ہنگول نیشنل پارک بلوچستان میں مکران کے ساحل پر 1650 مربع کلومیٹر کے رقبے پر واقع ہے جسے 1988 میں ریزرو پارک قرار دیا گیا تھا،پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تناظر میں گوادرکو نمایاں مقام حاصل ہوگیا ہے جبکہ اورماڑہ، پسنی اور تربت بھی کافی حد تک شہری سہولتوں سے آ?راستہ ہیں، پاکستان کی ساحلی پٹی کے ساتھ بے شمار سیاحتی مقامات موجود ہیں جو سیکورٹی کی مجموعی صورتحال میں بہتری کے باعث لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔ آج اگر ہم اپنے خطے پر نگاہ ڈالیں تو ا?س پاس کے بہت سے ممالک اپنی ملکی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے بحری سیاحت کو فروغ دینے کیلئے کوشاں ہیں، ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی رپورٹ میں بنگلہ دیش کی معیشت کیلئے خلیج ِ بنگال سے منسلک کوسٹل اینڈ میری ٹائم ٹورازم کو نہایت اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بلیو اکانومی کی بدولت غربت میں کمی، روزگاری مواقع میں اضافہ اور معیارزندگی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ بھارتی حکومت نے بحری سیاحت کو فروغ دینے کیلئے دریائے گنگا پر دنیا کا سب سے بڑا کروز منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس حوالے سے 78میری ٹائم سیاحتی مقامات کی نشاندہی کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت حکومتی سطح پر پاکستان نیوی بہترین پوزیشن پر ہے کہ وہ پاکستان کی ساحلی پٹی پرملکی معیشت کی بحالی کی خاطر لوکل کمیونٹی کے ساتھ ملکرعالمی معیار کے منصوبے متعارف کرائے، اگر پاک بحریہ کے توسط سے کراچی ، گوادر اور دیگر ساحلوں پر عالمی سیاحوں کی توجہ حاصل کرلی جاتی ہے تو یہ جہاز سازی کی صنعت کو بھی تقویت پہنچائے گی، میری معلومات کے مطابق کراچی شِپ یارڈچار سال میں بحری جہاز تیار کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، اس وقت پاکستان کے پاس صرف تیرہ جہاز ہیں، عالمی سیاحت اور بین الاقوامی تجارت کی بدولت ہمیں جہازسازی کے بڑےآا?رڈر بھی مل سکیں گے۔ میں نے کینیڈا، یورپ اور دیگر ممالک کے دوروں کے دوران یہ محسوس کیا ہے کہ وہاں پہلے حکومتی ادارے دلچسپی دکھاتے ہیں، سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے پرکشش مراعات کا اعلان کرتے ہیں اور پھر پرائیویٹ بزنس کمیونٹی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ پاک نیوی کے زیراہتمام حالیہ ورکشاپ میں شرکت سے مجھے احساس ہوا ہے کہ پاکستان کو دیگر عالمی ممالک سے سمندری راستے سے منسلک کرنے اور بحری تجارتی امور کو اپنی قومی ترجیحات میں شامل کرنے سے بیش بہا فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں،اس حوالے سے پاکستان نیوی اگر متحرک ہوجاتی ہے تو عالمی مسافروں کی بذریعہ بحری راستہ آ?مدورفت نہ صرف پاکستان کا مثبت امیج بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرے گی بلکہ ہماری قومی معیشت کے استحکام کیلئے بھی اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین