• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے چھ رکنی بنچ نے اپنے ہی پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے اگرچہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت دیدی مگر یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے احکامات سے مشروط ہوگا اور انٹرا کورٹ اپیلوں پر فیصلے تک 102گرفتار افراد کے ٹرائل کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ پانچ ایک کے تناسب سے آنے والے مذکورہ اکثریتی فیصلے سے جسٹس مسرت ہلالی نے اختلاف کیا ہے۔ سپریم کورٹ یہ کیس پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت سُن رہا تھا جو پارلیمنٹ کی جانب سے مارچ 2023ء میں منظور کیا گیا مگر پانچ رکنی بنچ کے 23اکتوبر 2023ء کے ایک شارٹ آرڈر کے تحت معطل ہوگیا تھا۔ موجودہ چیف جسٹس کے عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ معاملہ فل کورٹ میں پیش کیا گیا جس نے مذکورہ قانون بحال کر دیا۔ اس باب میں قانونی اصول یہ ہے کہ چھوٹی عدالت کا فیصلہ بڑی عدالت کے فیصلے سے اور چھوٹے بنچ کا فیصلہ بڑے بنچ کے فیصلے سے بدلا جاسکتا ہے۔ لہٰذا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء اب جاری و ساری قانون ہے۔ 13دسمبر کے عدالتی آرڈر سے یہ بات طے ہوگئی کہ فوجی عدالتیں فی الحال اپنا کام جاری رکھیں گی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں سپریم کورٹ کا حتمی حکم آنے تک سماعت معطل رہنے سےہونیوالے وقت کےزیاں کو روکنا ممکن ہوگیا ہے ۔ کیونکہ انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کو حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لئے یقیناً کچھ نہ کچھ وقت درکار ہوگا۔ بدھ کو سنائے گئے فیصلے کے سیاسی وقانونی مضمرات ہوسکتے ہیں ۔سیاسی یہ کہ پاکستان تحریک انصاف کے لوگ متاثر ہوں گے، ان کے لئے مشکلات پیدا ہوں گی جبکہ بحیثیت جماعت بھی پی ٹی آئی کے لئے مشکلات سامنے آسکتی ہیں۔ پی ٹی آئی کو سیاسی فعالیت کی طرف لوٹنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی، خاص طور پر ان غلطیوں کو دور کرنا ہوگا جو 9مئی کے افسوسناک واقعہ کی صورت میں ظاہر ہوئیں۔پی ٹی آئی کو فوری طور پر درپیش مشکلات میں سے ایک مشکل الیکشن میںاس کی شمولیت کے حوالے سے سامنے آئی جس پر پارٹی چیئرمین کی تبدیلی کی صورت میں ایک حد تک قابو پالیا گیا۔ تاہم پارٹی کو 9مئی کے واقعات کے حوالے سے موقف میں تبدیلی لانا بھی ہوگی۔ تشدد کا راستہ سیاسی جماعتوں کے لئے نہ درست ہے اور نہ ہی انہیں اس سے کسی نفع کی امید کرنی چاہئے۔ بدھ کے روز سامنے آنے والے عدالتی فیصلے پر بعض حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا، انسانی حقوق کے حوالے سے بعض سوالات بھی اٹھائے گئے ۔ جبکہ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک انٹرویو میں اس فیصلے کو اصول کی جیت قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ 9مئ کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کا مقدمہ ملٹری کورٹس میں چلنا چاہئے۔ اس باب میں یہ سوچ بھی سامنے آئی کہ تیزی سے سماعت کرنے والی عدالتوں میں اگر سویلین ملزمان کی ٹرائل ممنوع کر دی گئی تو کلبھوشن یادیو جیسے تمام دہشت گرد اور غیر ملکی جاسوس سویلین ہونے کی بنیاد پر اسپیڈی ٹرائل سے بچنے کے راستے نکالتے رہیں گے۔ ایک قانونی حلقے کی یہ رائے سامنے آئی کہ ملک میں دہشت گردی اور دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے جو قانونی خلا آگیا تھا، سپریم کورٹ نے اس کیلئے شیلڈ مہیا کر دی ۔ اس حلقے کا کہنا ہے کہ اگر کوئی کورٹ اسپیڈی ٹرائل کر رہی ہوتو ہمیں اسکا خیرمقدم کرنا چاہئے۔ قانونی مباحث اپنی جگہ یہ بات کسی طور نظر انداز نہیں کی جانی چاہئے کہ وطن عزیز کے سلامتی کے لئے دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ جتنا اہم ہے سیاسی سرگرمیوں کا صحتمند انداز میں جاری رہنا بھی اتنا ہی ضروری ہے ۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو اپنے کارکنوں کی تربیت ایسے خطوط پر کرنی چاہئے جن سے قومی مفادات کے حوالے سے حساسیت اور احساس ذمہ داری نکھر کر سامنے آئے۔

تازہ ترین