انتخابی شیڈول آنے کے بعد انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے تمام شک و شبہات دم توڑ گئے ہیں۔ویسے تو نگرانوں کی بڑی خواہش تھی کہ عام انتخابات مزیدچند ماہ تاخیر کا شکار ہو جائیں۔ اس حوالے سے انہوں نے کوشش بھی بہت کی۔حتیٰ کہ پنجاب کی نگراں حکومت نے تو ہر ہر ضلع کے انتظامی افسر کے ذریعے سروے کروا کروا کر طاقتور حلقوں کو بھیجے کہ ابھی تحریک انصاف کی مقبولیت برقرار ہے اور مسلم لیگ ن اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔حالانکہ ان سروے کا عوامی رائے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔بھلا ایک ڈپٹی کمشنر اپنے دفتر میں بیٹھ کر کسی بھی ضلع میں انتخابات کے متوقع نتائج کے حوالے سے کیسے کوئی حتمی رائے دے سکتا ہے؟ صحیح صورتحال جاننے کیلئےپورے ضلع میں باقاعدہ سروے کرائے جاتے ہیں،انتظامیہ پورے ضلع میں متحرک ہوکر حلقہ پٹواری سے لے کر قانوں گو اور اسی طرح تحصیلدار سے لے کر اسسٹنٹ کمشنر تک سب کو اس سروے کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ ان کے نتائج ریکارڈ پر ہوتے تو یہ گمان کیا جاسکتا تھا کہ پنجاب کی نگران حکومت نے اپنے ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے جو سروے کرواکے راولپنڈی بھجوائے ہیں،وہ کسی حد تک عوامی رائے کے ترجمان ہیں۔جبکہ یہاں صرف مزید چند ماہ حکومت کرنے کیلئےڈپٹی کمشنرز کے دفاتر میں بیٹھ کر تیار کروائی گئی رپورٹس کو بنیاد بنا کر کہا گیا کہ عام انتخابات میں مزید تاخیر کردی جائے۔حالانکہ سوشل میڈیا اور گراؤنڈ پر صورتحال بہت مختلف ہے۔جو تجزیہ نگار انتخابی سیاست سے واقف ہیں،وہ اتفاق کریں گے کہ صرف انتخابات والے دن کو صحیح انداز میں مینیج نہ کرنے سے بیس سے تیس ہزار کا فرق پڑ جاتا ہے۔ویسے تو پنجاب کے تمام حلقوں میں تحریک انصاف کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے پاس کہیں زیادہ مضبوط امیدوار ہیں اور اگر کسی حلقے میں تحریک انصاف کا پلڑا بھاری بھی ہے تو وہاں کا تحریک انصاف کا امیدوا ر سانحہ نو مئی یا کسی دیگر کیس میں مفرور ہے۔ایسے میں اگر اسے تحریک انصاف کا ٹکٹ مل بھی جائے اور الیکشن ڈے پر تحریک انصاف کاووٹر بڑی تعداد میں نکل بھی آئےتو ؟۔ اگر کسی حلقے میں ستر یا اسی ہزار پر ممبر قومی اسمبلی جیتتا ہے تو اس میں اکثریتی ووٹرز کو انتخابات کے روز ٹرانسپورٹ دے کر گھروں سے لانا پڑتا ہے۔ چلیں مان لیں کہ یہ لوگ تحریک انصاف کی محبت میں بغیر ٹرانسپورٹ کے خود نکل آئیں گے۔اگرایک حلقے میں بغیر ٹرانسپورٹ کے نکلنے والے ووٹرز کی تعدادپچاس ہزار بھی ہو تو یہ انتہائی غیر معمولی اور دوسرے الفاظ میں پانچ لاکھ کے برابر ہوگی۔لیکن حقائق یہ بھی ہیں کہ یہ پچاس ہزار ووٹ اس تحریک انصاف کے امیدوار کو ایم این اے نہیں بناسکتے۔ستر یا اسی ہزار کا ہندسہ عبور کرنے کے لئے اسے حلقے میں بیٹھ کر الیکشن ڈے کے حوالے سے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ ٹرانسپورٹ،پولنگ ایجنٹس اور پولنگ ڈے کی منصوبہ بندی کئے بغیر وہ پچاس ہزار سے کم ووٹ تولے سکتا ہے، زیادہ نہیں۔
یہ ان حلقوں کی بات کی ہے ،جہاں بقول نگرانوں کے تحریک انصاف کی بہت بڑی لہر ہے،لیکن میرے ذاتی رائے میں وہاں بھی ایسا نہیں ہے۔ پھر بھی کچھ دیر کے لئے نگرانوں کی بات درست مان لی جائے تو اگر تحریک انصاف کے مضبوط حلقوں میں یہ صورتحال ہوگی تو کمزورحلقوں کا اندازہ آپ خود لگاسکتے ہیں۔جبکہ ایسے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کے لئے الیکشن ڈے،ٹرانسپورٹ سمیت تمام منصوبہ بندی کے ساتھ ستر یا اسی ہزار کا ہندسہ عبور کرنا کوئی مشکل نہیں ہوگا اس لئے بند کمروں میں بیٹھ کر عوامی رائے کا اندازہ لگانا اور الیکشن کرا کے عوامی رائے جاننا دو مختلف چیزیں ہیں۔
جبکہ یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ پھر تحریک انصاف کو لیول پلئینگ فیلڈ دیں ،تاکہاس کے امیدوار انتخابات کے روز تمام ترمذکورہ بالا منصوبہ بندی کرسکیںاور پچاس ہزا ر کے بجائے اسی ہزار ووٹ لیں اور کامیاب ہوں۔یہ درست رائے ہے۔لیکن اگر کوئی انتخابی امیدوار ریاست میں انتشار پھیلاکر غائب ہوگیا ہو اورپھر ٹوئٹر ،فیس بک کے ذریعے ریاست کی سالمیت گزشتہ ایک سال سے للکار رہا ہو ،یا کسی امیدوار پر کرپشن کے کیسز ہیں اور وہ نیب اور اینٹی کرپشن کو مطلوب ہو اور اس دوران اشتہاری بھی ہوچکا ہو۔مگراب ہماری خواہش ہے کہ اسے لیول پلئینگ فیلڈ کے نام پر حلقے میں آنے دیا جائے اور اس کے تمام تر جرائم کے باوجود 8فروری تک اسے انتخابی مہم چلانے دی جائے ،اس میں بھی وہ جو مرضی کرتا رہے اور ریاست خاموش رہے کہ لیول پلئینگ فیلڈ ہے۔اسی طرح سے عمران خان کے خلاف مضبوط ترین کرپشن کیسز کے باوجود اسے صرف اس لئے رہا کردیں کہ انتخابات سر پر ہیں اور یہ ایک جماعت کا سربراہ ہے ،اس کو لیول پلئینگ فیلڈ مہیا کی جائے۔خدارا عمران خان کا نوازشریف،بے نظیر بھٹو،ذوالفقار علی بھٹو جیسے لوگوں سے موازنہ نہ کریں۔یہ تو وہی ہے کہ کہاں رام رام...کہاں ٹیں ٹیں...!
باقی ان دنوں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی امریکا کے دورے پر ہیں۔ان کی وطن واپسی آئندہ کے سیاسی منظر نامے کا تعین کرے گی۔ویسے تو یہ دورہ سی پیک،افغان پالیسی اور مشرقی بارڈر کی صورتحال کے حوالے سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے،لیکن یہ تمام معاملات براہ راست عام انتخابات اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)