یہ کورونا سے سال بھر پہلے کی دنیا تھی۔ اتوار کی دھندلی صبح ہم تینوں سر نیہوڑائے مضمحل انداز میں اپنا اپنا ناشتا بنا رہے تھے۔ مَیں نے چائے دَم کرلی تھی۔ لائزتھ، قہوے کے لیے اپنی مخصوص کیتلی نکال چُکی تھی اور چولھے پر انڈا ابل رہا تھا۔ ٹیوڈر، کافی بنا کر ٹوسٹر میں ٹوسٹ ڈال رہا تھا۔ سردی کی شدید لہر آئی تو مَیں نے بےساختہ گردن موڑی۔ کچن کاؤنٹر سےملحق چھوٹے سےلاؤنج میں رکھے صوفے کے اوپر کھڑکی ذرا سی کُھلی تھی، جہاں سے جنوری کی یخ بستہ ہوا اندر آرہی تھی۔ مَیں نے اُس کو سختی سے بند کیا اور مُڑ کر بائیں ہاتھ لگے ریڈی ایٹر کا درجۂ حرارت بڑھادیا۔ کچھ جان میں جان آئی، تو شیشے سے باہر جھانکا۔
پہلی برف باری نے ہر طرف سفیدی سی چھڑک دی تھی۔ اوپر سے کچن کی گرمی نے باہر کی ٹھنڈک سے مل کر شیشے کو دھندلایا تو منظر اور سفید ہوگیا۔ دلیے کے پیالے میں گرم دودھ انڈیلتے ہوئے مَیں نے دیکھا لائزتھ ہاتھ میں رومال پکڑے سُوں سُوں کررہی ہے۔ ’’طبیعت ٹھیک نہیں کیا؟‘‘ مَیں نے خاموشی توڑی۔ ’’نہیں۔ کچھ بخار سا ہے، شاید ٹھنڈ لگ گئی۔‘‘ وہ لمحہ بھر کو رُکی ’’رات ٹھیک سے سو نہیں سکی۔‘‘ ’’مَیں بھی…شوراِس قدرتھاکہ سونا محال ہوگیا۔‘‘ ’’مَیں نےتوکانوں پرتکیہ لپیٹا، مگربے سود۔‘‘مَیں نےدیکھا ٹیوڈر مُسکرا رہا تھا۔ ’’کیا تم بھی تھے رات کی پارٹی میں؟‘‘ مَیں ٹھٹکی۔ کیوں کہ پارٹی والےتوابھی تک سو رہے تھے۔’’اوہ بالکل نہیں۔‘‘ اُس نے بےزاری سے کہتے ہوئے نفی میں سرہلایا۔ ’’یعنی تم بھی متاثرین میں سے ہو، ہماری طرح۔‘‘ مَیں مُسکرائی۔ ’’ہاں…‘‘ وہ اُسی بےزارمسکراہٹ سے بولا۔
کچن اورلاؤنج کے درمیان ایک چوڑا سا کاؤنٹر ڈائننگ میز کا کام دیتا تھا۔ اُس پر پڑی خالی شیمپین کی بوتلوں میں دُردِ تہہِ جام رات کی بقیہ کہانی کہہ رہی تھی۔ اُنہیں ایک طرف ہٹا کر مَیں نے اپنی پلیٹ رکھنے کی جگہ بنائی۔ ٹیوڈر اپنا ناشتا لے کر کمرے میں جا چُکا تھا۔ لائزتھ بھی ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ مَیں سوچ رہی تھی، ابھی تو آج کا دن باقی ہے۔ شام کو پھر کِرن اور رِشی کے دوست اکٹھے ہو جائیں گے اور ہمارے لیے مصیبت ہوجائے گی۔ لائزتھ کی طرف دیکھا، تو اُس نے جیسے میری سوچ پڑھ لی۔ ’’مَیں تو پچھلے ویک اینڈپر لندن چلی گئی تھی۔
میری ایک دوست ہے وہاں۔‘‘ ’’اچھا کیا، مگر یہ کوئی حل تو نہیں۔‘‘ ’’ہاں، مگر حل تو شاید کوئی بھی نہیں۔‘‘ وہ بولی۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے مَیں نے کہا۔ ’’پرسوں سے مجھے بھی یونی ورسٹی جانا ہے۔ اگرکل تمہاری طبیعت بہترہوتو مَیں تمہارے ساتھ چلی جاؤں۔ بس کا رُوٹ پتا چل جائے گا اوریونی ورسٹی میں اپنا سینٹربھی وزٹ کر لوں گی۔‘‘ ’’ہاں، کیوں نہیں ضرور…میری کلاس تو کل نہیں ہے، مگرمجھے لائبریری جانا ہے۔ مَیں نکلتے ہوئے تمہیں بتادوں گی۔‘‘ وہ خُوش دلی سے بولی۔
مَیں گزشتہ ہفتے ہی اِس اجنبی دیس میں پہلی بار آئی تھی۔ برمنگھم ائیرپورٹ کی عمارت سے باہر قدم رکھا، تو جنوری کی یخ بستہ ہوا نے استقبال کیا۔ شام ڈھل رہی تھی اور کوونٹری پہنچنے میں تو بالکل ہی رات ہوگئی تھی۔ منزل پر پہنچ کرعمارت میں داخل ہوئی تو ریسیپشن پر رہائش گاہ کی منتظم لینا موجود تھی۔ پختہ عُمر کی تجربہ کار سی عورت، جس کے ہر انداز سے پیشہ ورانہ مستعدی جھلک رہی تھی۔ دیکھنے میں میکسیکن لگتی تھی۔ اُس کے ساتھ دلبرانہ اداؤں والی لنڈا نام کی ماہ رُو تھی، انگلستانی، جس کے کانوں کے علاوہ چشم و ابرو، اور ہونٹوں کے گوشوں پر بھی سنہری بالیاں لٹک رہی تھیں۔
رہائش کی لکھت پڑھت میں ابھی کچھ رقم کی ادائی باقی تھی، جس کے یہاں پہنچنے پرادا کرنا طےہواتھا۔ میرے خدشات کے عین مطابق لینا نے اُس کا تذکرہ ضروری سمجھا، حالاں کہ رات کے آٹھ بجے تھے اور مَیں اِس قدر تھکی ہوئی اورنیند سے بوجھل تھی کہ مزید کھڑے ہونے کی بھی سکت نہ تھی، جب سے گھر سے چلی تھی، رات مِلی ہی نہ تھی، کیوں کہ سورج کے تعاقب میں سفر جاری تھا۔ مَیں نے کہا۔ اس وقت تومجھےمیرے کمرے میں پہنچاؤ، صبح بات کروں گی۔ لنڈا مجھے لے کرکئی بھول بھلیّوں سے ہوتی ہوئی، عمارت کے احاطے میں موجود اُس بلڈنگ کے سامنے پہنچی، جس کے چوتھے فلور پر واقع دائیں ہاتھ کے فلیٹ میں میرا کمرا تھا۔
اگلے دن ادائی کرنے گئی، تو لینا نے کریڈٹ کارڈ دیکھتے ہی نفی میں سر ہلایا۔ ’’کیش!!‘‘ ’’مگرمیرے پاس تو اتنا کیش نہیں ہے۔‘‘ مَیں نے پریشانی سے کہا۔ ’’نکلوا لو۔‘‘ اُس نے آرام سے جواب دیا۔ ’’میرا بینک اکاؤنٹ نہیں ہے،اِس ملک میں، کل ہی تو آئی ہوں۔‘‘’’تو کُھلوا لو۔‘‘ ویسا ہی پُرسکون جواب آیا۔ اب بات میرے دائرۂ کار کے حدود اربع سے باہر ہو رہی تھی۔ ’’ٹھہرو، مَیں ابھی بتاتی ہوں، ادائی کیسے ہوگی۔‘‘ یہ کہہ کر مَیں نےصاحب کوگھرفون ملایا۔ اُن کو صورتِ حال بتا کرمشورہ لیا کہ ادائی کن کن طریقوں سےہوسکتی ہے۔ یہاں آنے سے پہلےمیری رہائش کے انتظامات کے لیے لینا سے تمام بات چیت اُنہوں نے ہی کی تھی۔ مَیں نےغورکیا کہ مجھے بات کرتے دیکھ کر لینا زیرِلب مُسکرا رہی ہے۔
فون بند کیا، تواُسی مسکراہٹ کے ساتھ، جس میں تمسخر تھا، بولی۔ ’’اپنے ہزبینڈ سے پوچھ رہی تھیں تم؟‘‘ غریب الوطنی کے تازہ تازہ احساس میں پوری طرح بھیگی ہوئی، مشرقی معاشرے سے آئی ایک گھریلو عورت، جس کو ڈھنگ سے چیک سائن کرنا بھی نہیں آتا تھا، وجود کو کاٹتی اِس مسکراہٹ کے آگے لحظہ بھر کو ڈھیرہوئی۔ پھر کچھ سوچ کر ترقی یافتہ مُلک کی خُود مختار، پُراعتماد، اپنا کمانے والی، بندشوں سے آزاد عورت کے آگے اعتماد سے کھڑی ہوئی، اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اورکہا۔ ’’ہاں…دراصل وہ میرا مینیجر بھی ہے۔ تمہیں دودن میں پیسےمل جائیں گے۔‘‘ اب حیران ہونے کی باری اُس کی تھی۔ مَیں نے ایک ادا سے اُس پر مسکراہٹ اچھالی اور دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
میرا نیا گڑیا گھر
صبح ناشتے کی چیزیں نکالتےہوئے کچن کیبنٹ پر لکھے ناموں پہ نظر پڑی، جن میں اب میرا نام بھی سب سےاوپرشامل ہوگیا تھا۔ مجھے یاد آیا، پچھلے ہفتےجب مَیں آئی تھی، تو ناموں کی یہ فہرست ہفتہ وار ڈیوٹی کے مطابق لگی ہوئی دیکھی تھی اور مَیں نے کرن سے پوچھا تھا۔ ’’یہ کس بات کی ڈیوٹی ہے بھئی؟‘‘ ’’ٹریش پھینکنے کی۔‘‘ وہ بولی۔ ’’اوہ اچھا…میرا نام بھی لکھ دو۔‘‘ ’’اچھا!!‘‘ یہ جواب کم، سوال زیادہ تھا، جیسے کہہ رہی ہو کہ سوچ لیں، آپ یہ کام کرنا چاہیں گی۔ ’’ہاں بالکل…یاد سے لکھ دینا۔ کہاں پھینکنا ہوتا ہے؟‘‘ ’’نیچے پارکنگ یارڈ کے ایک طرف بڑے والے ڈرم رکھے ہیں…اُن میں۔‘‘ تو نئی فہرست لگ گئی تھی اور اِس ہفتے کوڑا پھینکنے کی باری میری تھی۔
چیزیں سمیٹ کر مَیں کچن سے نکلی، ساتھ ہی میرے کمرے کا دروازہ تھا۔ اندرداخل ہو کر مَیں نے لمبی جیکٹ اور گرم اسکارف پہنا، پھر واپس کچن میں آکر دونوں بالٹیوں میں سےلفافے نکالے، اُن کے منہ بند کر کے گرہیں لگائیں اور اُٹھا کر فلیٹ کے دروازے کی طرف چل دی۔ لفٹ لابی میں داخل ہوئی تواحساس ہواکہ اندرونی گرمائش کی حدود دروازے تک ہی تھیں، لفٹ باہر کے موسم کے مطابق یخ ٹھنڈی ہے۔ گراؤنڈ پربڑے سے صحن میں دیوار کےساتھ ڈرم ترتیب سے رکھے تھے۔ کُوڑا اندر پھیلاہوا تھا، نہ باہر۔ مقررہ دن گاڑیاں آکر اُن ڈرمز کوخالی کر دیتی تھیں۔
کچن میں واپس آکر مَیں نے خریداری کی ضرورت کا جائزہ لیا۔ دوپہر کے کھانے کے لیے میرے پاس فروزن کباب اور روٹی کا پیکٹ تھا، جو مَیں ایک پاکستانی اسٹور سےخرید لائی تھی۔ سینزبری سے خریدا ہوا کٹا کٹایا پیک کیا ہوا سلاد، جس میں زیادہ تر راکٹ کے پتے بھرے ہوئے تھے، ایک جوس کا ڈبّا تھا، انڈے، سوسیج اور دہی۔ فریج، فریزر اچھےسائزکےتھے، مگر مجھ سے پہلے موجود پانچ افراد کے سامان سے لبالب بَھرے ہوئے۔ جب مَیں اپنا سودا لائی تھی، تو کرن نے ہی کھینچ تان کر جگہ بنائی اور میرے لیے فریزر کا ایک دراز اور فریج کا آدھا خانہ کسی طرح خالی کردیا۔ تو یہ کرن تھی!!
لنڈا مجھے لےکر تین سو چوبیس میں داخل ہوئی تھی، توسامنے یہی لڑکی مجھے ملی تھی۔ کچن میں چولھے پر مسور کی دال چڑھی ہوئی زوروشور سے ابالے کھا رہی تھی ۔ سیاہ شیشے کی انتہائی جدید الیکٹرک ہاٹ پلیٹ پر ہر طرف مسور کی دال کے پیلے چھینٹے اُڑ رہے تھے اور ناک میں اُس کی بُو ایسے گھس رہی تھی کہ مجھے لگا، مَیں برطانیہ نہیں، بورے والا آگئی ہوں۔
چھینٹے اُڑاتی دال کے سوس پین کے آگے بکھرے بالوں والی یہ بدحواس سی لڑکی کھڑی تھی، جو میرے لیے اُس لمحے سب سے قیمتی متاع تھی، کیوں کہ پاکستانی تھی۔ غیر ملک اور غیر لوگوں میں اپنائیت کا پہلا احساس اِسی سے ملا تھا۔ لینا نے فون پر بتایا تھا کہ ہم جس فلیٹ میں آپ کو کمرا دے رہے ہیں، وہاں پہلےسے ایک پاکستانی اسٹوڈنٹ بھی ہے۔ یہ سُن کر مجھے خاصا حوصلہ ہوا تھا اوراب وہی بڑھ کر میرے گلے لگی تھی۔
پھرچند روز میں، اُس چھوٹے سےگڑیا گھر کے سبھی مکینوں سےتعارف ہوگیا۔ دو لڑکیاں تھیں، کرن اورلائزتھ، اور تین لڑکے رِشی، ویراج اور ٹیوڈر۔ میرےآنے سے اس فلیٹ میں صنفی مساوات ہوگئی تھی۔ رِشی اور کِرن بھارت اور پاکستان کے خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھتےتھے،تبھی برطانیہ کی نجی یونی ورسٹی میں تعلیم اور رہائش کے لیے ایسی اچھی جگہ کے متحمّل تھے۔ ویراج، لندن میں مقیم بھارتی فیملی سے تھا، جب کہ ٹیوڈر ویلز کا رہائشی اور خالص برطانوی تھا، سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والا۔ کبھی کبھار ویک اینڈ پہ اُس کی گرل فرینڈ بھی آجاتی۔
اُسی کی طرح دھیمی، سلجھی ہوئی اور متبسّم۔ دونوں لاؤنج میں ایک ہی لیپ ٹاپ سامنے رکھ کر خاموشی سے بیٹھ جاتے اور کچھ دیکھ کر مُسکراتے رہتے۔ ایسی ہی لائزتھ بھی تھی۔ قازقستان سے آئی ہوئی۔ یہ خالص وسط ایشیائی نقوش اور معصوم چہرے والی باوقارسی لڑکی لاء اسکول میں پڑھ رہی تھی۔ بے حد مہذّب اور خیال رکھنے والی۔ کبھی اُس کی چیزیں اِدھر اُدھر بکھری پڑی نہ ہوتیں۔ نہ ہی سِنک میں کوئی برتن اَن دُھلا چھوڑ کر جاتی۔ تمیز سے کام کرتی، دھیما بولتی اورسہج چال چلتی۔ جس دن اُس کے ساتھ پہلے دن یونی ورسٹی گئی، تو فون میں ڈیٹا ختم تھا۔
میری نئی سِم پر ڈیٹا کا پیکیج شاید بہت کم تھا، جو دودن ہی میں ختم ہوچُکاتھا۔ لائزتھ نے اپنے فون پر کیمپس کا نقشہ نکالا، لائبریری سےمیرے سینٹر جانے والے راستے کی تصویریں بنا کرمجھے سینڈ کیں، پھرپہلی تصویرکھول کرمیری صحیح سمت میں رہنمائی کرکے مجھےرخصت کردیا۔ ابھی مَیں آدھے راستے میں تھی کہ اُس کا میسیج ملا۔ ’’باقی دو تصویریں دیکھنا نہ بھولنا۔‘‘ ساتھ اسمائلی کا ایموجی تھا۔ کیسی فرشتہ صفت ہے، قازقستان کی یہ لڑکی! مَیں خُوب ہی حیران ہوئی۔ ایک دن اس سے پوچھا۔ ’’تمہارا فیتھ کیا ہے لائزتھ…مسلمان ہو؟‘‘ اُس نے لاپروائی سے کندھےاچکائے۔ ’’ویل…میرے ماں باپ ہیں… مگر،مَیں کسی مذہب پہ یقین نہیں رکھتی۔‘‘
رِشی سوئیٹ سا لڑکا تھا، جسے یہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ رائس کُکر میں چاول ابالتا ہوں، تو وہ پیندے سے چپک کیوں جاتے ہیں۔ مگر کرن اور اس کی انڈین سہیلی اُوما جیسی جنگلی بلیوں کے ساتھ مل کر اُس کی بھی جُون بدل جاتی تھی۔ ویک اینڈ پہ کبھی لگتا، ہمارے فلیٹ میں کسی کی مہندی ہے، جواونچے سُروں میں ٹپّے گائے جارہے ہیں، کبھی لگتا، کوئی مغربی طرز کی پارٹی ہے، جس میں غل غپاڑا ہورہا ہے۔ کبھی بلند آہنگ قہقہوں کے ساتھ گپیں لگ رہی ہوتیں، تو کبھی زوروشور سے بالی وُڈ کے چارٹس پر انتاکشری گرم ہوتی۔
سرنگ کی مکین
میرے چھوٹے سے کمرے کی کھڑکی سڑک پر کھلتی تھی۔ چوتھی منزل پر ہونے کے باعث دُور تک شہر کا منظر نظر آتا تھا۔ کھڑکی کے سامنے سڑک کے پار واقع مےخانے کا اندرونی منظر تک شیشے کی کھڑکیوں سےنظرآتا۔ رات کے وقت کبھی کبھار بہکےقدموں سےچلتےکچھ مدہوش افراد دروازے سے نکل کرسنبھلنے کی کوشش کرتےدکھائی دیتے۔ اورہفتے کی رات تو خُوب ہی رونق ہوتی۔ عام طور پہ کم سخن، دھیمے، لاتعلق برطانوی مرد، عورتیں سڑک کنارے کھڑے شوروغل، دھکم پیل کرتے اور بلند بانگ قہقہےلگاتے۔ قریبی مارکیٹ وہی تھی، جوشہرکامرکز کہلاتا۔
تقریباً آدھ گھنٹے کی واک تھی۔ مجھےیہ راستہ بہت پسند تھا۔ جہاں گھروں کی قطار ختم ہوتی، وہاں کونے پر گرجا گھر بنا تھا۔ سڑک چھوڑ کر اُس کے پیلے پتّوں سے بھرے ہوئے صحن سے پار اُترنا بہت بھلا لگتا اور مَیں دوسری جانب نکل کر کنارے کنارے چلتے ہوئے سیڑھیاں اُتر جاتی۔ جہاں اوپر سے جاتی ہائی وے کو پار کرنے کے لیے پیدل کی سرنگ بنی ہوئی تھی ۔ اِس کشادہ اور بجلی سے روشن سرنگ کےعین درمیان اُس سرنگ کی مکین رہتی تھی۔ ایک کم زور اور زرد رُو جوان گوری عورت، جس نے یہاں گھر بنا رکھا تھا۔ پرانے گتّے اور کباڑ کے ڈھیر پر نرم سا بستر بچھا رکھا تھا۔ قریب سے گزرتے ہلکی سی ناگوار بُو محسوس ہوتی۔ نہ جانے کہاں سے اس کے پاس قسم قسم کی چیزیں پڑی ہوتیں، وہ دن بھر اکٹھی کرتی تھی یا لوگ خُود دے جاتے تھے، معلوم نہیں۔ سرنگ ہائی وے کے دوسری جانب نکلتی، تو مارکیٹ کو جانے والی سڑک شروع ہوتی، جس کے ایک طرف سرسبز گھاس اور پھولوں کے قطعات تھے۔
سب سے پہلے ایک گھر میں بنا ہوا چھوٹا سا ریستوران آتا، اس کے ساتھ آئس کریم پارلر، جس کے کاؤنٹر پر چھوٹا سا کتبہ لگا تھا، ’’متوازن غذا کا مطلب ہے، دونوں ہاتھوں میں آئس کریم!‘‘ پھر مارکیٹ کے کمپاؤنڈ تک دیگر ہر طرح کی دکانیں آتیں۔ کمپاؤنڈ سےبائیں مُڑ جاؤں، تو پرانے بازار پہنچ جاتی۔ منڈی کی طرز کے اسٹال، ہر چیز موجود مگر منظّم اور ترتیب وار۔ چھوٹے شہروں کی زندگی ویسے بھی پُرسکون ہوتی ہے۔
کوونٹری بھی چھوٹا سا شہر ہے، کوئی چھے ساڑھے چھے لاکھ آبادی کا،مگر خوب پُررونق۔ دوسری جنگِ عظیم میں جرمن طیاروں نے اس پر بم باری کر کےتہس نہس کردیا تھا، تو ایک طرح سے یہ اُس کے بعد تمام ہی دوبارہ بنا ہے، البتہ کچھ پرانی عمارتیں بحال کر کے نشانی کے طور پہ رکھی ہوئی ہیں۔ یہاں کا سینٹ مائیکل چرچ بھی تباہ ہوا، جو چودھویں صدی کا بنا ہوا تھا، تو اُس کی جگہ بہت خُوب صُورت کیتھیڈرل بنایا گیاہے، پرانے چرچ کے کھنڈرات کے بالمقابل۔
کچھ شہر کے بارے میں
برطانیہ کےمغربی وسط کا یہ شہر اپنے دامن میں تین یونی ورسٹیاں رکھتا ہے۔ بحالی کے بعد اس شہر نے تیزی سے ترقی کی، جدید صنعتوں میں نام کمایا،بلکہ برطانوی کاریں بنانے میں کوونٹری کی انڈسٹری کا بڑا حصّہ ہے، اسی بنا پر یہاں ایک ٹرانس پورٹ میوزیم بھی قائم ہے، جہاں برطانوی موٹریں، موٹر بائیکس اور سائیکلز سجائی گئی ہیں۔
شہر کی تاریخ تو شاید گیارھویں صدی تک قدیم ہے، جب رومیوں نے اس خطّے میں آکر بستیاں بسائیں، مگر وہ تاریخ تو محض بادشاہوں کی لڑائیوں پر موقوف ہے۔ دیکھنے کے لائق مقامات کو سرچ کیا، تو شہر کےاطراف کچھ پرانےمحلوں کی معلومات ملیں۔ ایک دن ٹیوڈرسے پوچھا کہاں جانا چاہیے؟ تو اُس نے بھی انہی محلات کا نام لیا۔ مَیں نے پوچھا، کوئی دل چسپ تاریخ ہے اِن کی، تو طنزیہ مُسکرایا۔
’’بس یہی کہ ایک محل میں ایک بادشاہ رہتا تھا۔ کچھ دُور کے محل میں رہنے والے دوسرے بادشاہ نےاُس پر حملہ کیا۔ وہ دونوں وقتاً فوقتاً لڑتے اور حملے کرتے رہتے تھے، یہاں تک کہ ایک تیسرا بادشاہ آیا اوراُس نے ان دونوں کو حملہ کرکے ختم کردیا، تو اب اُس کا محل بھی یہیں موجود ہے۔‘‘ بہت خُوب! ہم نے سوچا دیکھ کے کیا کرنا ہے، البتہ ہربرٹ آرٹ گیلری اورمیوزیم ضرور دیکھناچاہیے، وہاں سبھی معلومات مل جائیں گی، نئی بھی اور پرانی بھی۔ اس کے علاوہ پرانے وقتوں سے منسلک کوونٹری کا ایک داستانی کردار لیڈی گوڈائیوا ہے، جس کا تاریخی حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔
بلکہ شہر کے مرکز میں موجود ایک وسیع کمپاؤنڈ کے درمیان اس کردار کا مجسمہ بھی نصب ہے۔ پرانےسینٹ مائیکل کیتھیڈرل چرچ کےکھنڈرات اور نیا کوونٹری کیتھیڈرل بھی دیکھنے کا دل چاہ رہا تھا، جو بالکل آمنے سامنے ہیں۔ چرچ اور کیتھیڈرل میں فرق ایسے ہی ہے، جیسا مسجد اور جامع مسجد میں۔ یعنی کیتھیڈرل بڑے پیمانے کا چرچ اورعموماً شہر بھر کے لیے ایک ہی ہوتا ہے، مزید یہ کہ وہاں بشپ موجود ہوتا ہے، جب کہ چرچ میں محض پادری (پریسٹ) سے کام چل جاتا ہے۔ اتوار کے دن ان دونوں مقامات کا قصد کیا۔ پیدل چلتے کیتھیڈرل پہنچی، تو تقریباً دوپہر ہو رہی تھی۔ صبح کی سروس صبح صبح ہوچُکی تھی، اگلا اجتماع سہ پہر میں ہونا تھا۔ اب چرچ پہنچ کر سروس میں حاضر ہونا تو بنتا تھا، لہٰذا اتنی دیر کے لیے ہربرٹ میوزیم کارُخ کرلیا۔
ہربرٹ آرٹ گیلری اور میوزیم
بیسویں صدی کے آغاز میں بننے والا ہربرٹ عجائب گھر اب آرٹ گیلری اور اسٹوڈیو ہے، تو لرننگ سینٹراورتاریخی نوادرات کا ریکارڈ خانہ بھی۔ تزئینِ نو کے بعد2010 ء کےایک سال کے اندر اس کو تین لاکھ لوگوں نے دیکھا۔ وسطی برطانیہ کا یہ سب سے مقبول بغیر ٹکٹ میوزیم ہے۔ اِس میں شہر کی تعمیر و ترقی کی تاریخ بکھری ہے، جس کے مطابق انیسویں صدی کے اختتام تک یہ برطانیہ کے کام یاب ترین شہروں میں جگہ پانےکوتیارتھا۔ صنعتیں لگ رہی تھیں، لوگ تیزی سے یہاں منتقل ہورہے تھے۔
کئی گھروں میں بجلی اور بعض میں ٹیلی فون بھی پہنچ گیا تھا۔ فلمز کی نمائش ہوتی تھی، کاریں، سائیکلز اور بجلی کی ٹرامز چلتی تھیں، لوگ ٹرین پہ سفر کرتے تھے۔1867 ء کا چَھپا ہوا دَکوونٹری ٹیلی گراف بھی رکھا نظرآیا، جس پر ہفتہ وار اشاعت کی تعداد چھے ہزار اور ایک پینی قیمت درج تھی۔ پرانے ریڈیو، جو ہمارے ہاں بھی کئی گھروں میں دادا، پردادا کے وقتوں کےموجودہیں، فریج، ابتدائی ٹیلی ویژن، واشنگ مشینز، ہیٹر، استریاں، گھریلو استعمال کی مشینز، غرض ہر قسم کی ایجاد یہاں کی اپنی خانہ زاد صنعت کی یادگار کے طور پہ نمایاں کی گئی تھی۔ جنگ کی تباہی کے باوجود سینیما 1945 ء میں یہاں عروج پہ تھا، پھر ٹی وی کی آمد سے سینیما بند ہونے لگے۔
دو سینیما رٹز اور پیلاڈیم1950 ء کے بعد جنوبی ایشیا کے لوگوں نے خرید لیے اور یوں وہاں ہندوستانی فلموں کی نمائش شروع ہوئی، جو اُس وقت اپنے علاقوں میں خُوب مقبول ہورہی تھیں، کیوں کہ یہ خطّہ ابھی ٹیلی وژن عام ہونے کے وقت سے کم از کم پچیس تیس سال دُور تھا۔ اُسی دَور میں کوونٹری سمیت دیگر برطانوی شہروں میں صنعتوں کے قیام میں تیزی آئی تو دوسرے مُلکوں سے آنے والوں کو سہولت دی گئی۔ یوں جنوبی ایشیا خاص طور پر پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش سے بہت لوگ یہاں آکر بس گئے، تو یقیناً ہندوستانی فلم کو بہت ناظرین میسّر تھے۔
میوزیم کےاس حصّے میں ہندوستانی فلمزکے پوسٹرز لگے دیکھے بلکہ دلیپ کمار کی فلم ’’آن‘‘ کے پوسٹر پر اُردو میں تفصیلات درج تھیں، ڈائریکٹر محبوب عالم اور موسیقار نوشاد۔ فلم ’’ناگن‘‘ اور ’’شعلے‘‘ کے پوسٹرز بھی تھے جو کہیں 1970ء کے دوران یہاں ریلیز ہوئی ہوں گی۔ کوونٹری تھیٹر میں 20 اگست 1972ء میں منعقد ہونے والے گلوکار محمد رفیع کے لائیو شو کا پوسٹر بھی تھا۔
مگر جو ٹی وی اور اس کے بعد ویڈیو نے سینیما کے ساتھ کیا، اُس سے کہیں زیادہ اب انٹرنیٹ نےاخبارات کے ساتھ کردیا ہے۔ دوسری منزل پر موجود آرٹ گیلری میں دَکوونٹری ٹیلی گراف کے دفتر کی دو پینٹنگزنے اپنی جانب توجّہ مبذول کروائی۔ اُس اخبار کا لوگو تھا ’’اگر کچھ آپ کے لیے اہم ہے، تو وہ ہمارے لیے اہم ہے۔‘‘، ایک تصویر اُس لوگو کے ساتھ، جب اخباراپنے جوبن پر تھا، دوسری تصویر بند دفتر کی، جس پر مصوّرنے خُود لکھا تھا۔ ’’اب ہم ہی اہم نہیں رہے۔‘‘
لیڈی گوڈائیوا
لیڈی گوڈائیوا کے نام سے یہاں ایک پورا کمرا مخصوص ہے، جس میں کوونٹری کے اُس صدیوں پرانے داستانی کردار سے منسوب تمام کہانی سُنی اور دیکھی جا سکتی ہے۔ 1897ءکی بنی ہوئی برطانوی مصوّر، جان کولیئر کی پینٹنگ بھی یہاں موجود ہے،جس میں اُس کردار کو اُس کی مشہور سواری کے لمحے میں مجسّم کیا گیا ہے۔ کہانی ایک ایسی پاک باز اور شوہر پرست عورت کی ہے، جس کے شوہر کو مقامی بااثر اور طاقت کے نشے میں چُورکھیڑے ٹائپ لارڈ نے اپنےعتاب سے بچانے کی شرط یہ رکھی کہ اُس کی خوب صورت بیوی گھوڑے پر برہنہ سوار ہو کر شہر کا طواف کرے۔
اپنے شوہر کی جان بخشی کے لیے وہ پردہ نشین نکلی، بےلباسی کو چُھپانے کے لیے اُس نے اپنے لمبے گھنے بال کھول کرڈالے اور شرط کے مطابق گھوڑے پر شہر کے راستوں سے گزری۔ اس کی عزت و حُرمت کی خاطر شہر کےسب لوگ گھروں میں چلےگئے اور راستوں کی طرف کُھلنے والی کھڑکیاں بند کرلیں۔ ایک شخص، جس نے اُس کی حرمت کا پاس نہ کیا اوراُسے دیکھنےکی کوشش کی، اُس کی آنکھوں میں قدرت نے ایسی شعائیں ڈالیں کہ وہ عُمر بھر کے لیے اندھا ہوگیا۔ اس قربانی نے لیڈی کا مرتبہ مقامی آبادی کی نظروں میں کئی گنا بڑھا دیااوروہ داستانوں میں ہمیشہ کےلیےامر ہوگئی۔
کہانی تو اچھی تھی، مگر برطانوی قوم نے جو سبق خاصل کیا، وہ یقیناً اچھانہیں تھا۔ شہر کے لوگوں نےتوکھڑکیاں بندکرکےاُس کی بے لباسی کا بھرم رکھا تھا، مگر جان کولیئر نے اُسے اپنی پینٹنگ کے ذریعے ساری دنیا تک پہنچا دیا اور ہربرٹ والوں نےتواُس کی کہانی کو باقاعدہ فلماکراسکرین پر چلا رکھا ہےاور وہ بھی بغیر ٹکٹ، جس میں وہ بے چاری بے لباسی میں بال کھولے گھوڑے پر بیٹھی شہر کے گلی کُوچوں سے گزرتی ہے۔
اب کون کون آنکھیں بند کرے… اور آخر کتنی کُھلی آنکھوں پرعذاب اُترے۔ میوزیم سے باہر آتے ہوئے مَیں سوچ رہی تھی کہ وہ تو اچھا ہوا کہ لبرل معاشروں میں فیمنزم نے عورت کا کپڑے پہننا یا نہ پہننا معاشرے کے دائرۂ تشویش سے باہر قرار دے رکھا ہے، ورنہ اگرمان لیا جائے کہ بے لباسی میں عورت کی بےحُرمتی ہے، اور جو عورت کو بےلباس کردے، چاہےفرد ہو یا نظام، وہ ظالم ہے، تو آج کا برطانیہ اپنی موجودہ تہذیب کے ساتھ لیڈی گوڈائیوا کے ہیروئک کردار کا دفاع کیسے کرے گا؟
بچّے فطرت پر ہوتے ہیں!
گیلری کاایک وسیع ہال بچّوں کے لیے دل چسپ معلومات پر مبنی ہے۔ ماحولیات، جانور، اجرامِ فلکی، زمین کی ساخت، سمندروں کی حیرت انگیز دنیا، ان سب کو ماڈلزکی شکل میں بنا کر سِکھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی بچّوں کی مختلف معلوماتی سرگرمیوں کے لیے جگہ مخصوص کی گئی ہے۔ وہیں ایک طرف بورڈ پر سوال لکھا تھا۔ ’’آپ کے نزدیک امن کیا ہے؟‘‘جس پرآٹھ سے گیارہ برس کے بچوں نے معصومانہ بلکہ فکر انگیز اور کچھ حد تک فلسفیانہ جوابات لکھے ہوئے تھے، مثلاً:ایک دوسرے کو جیسا وہ ہے، ویسے قبول کرنا۔ ہرکوئی خوش رہ سکے،دوسروں کے ساتھ اچھا ہو اور ایک دوسرے کے لیے مشکلات نہ کھڑی کرے، کچھ بھی ہو فساد اور برائی حل نہیں ہے، امن ہی کی دنیا کو تلاش ہے۔
میرے لیے امن یہ ہے کہ مَیں پُرسکون ہوں اور اچھی باتیں سوچتے ہوئےلُطف حاصل کروں۔مَیں محفوظ رہوں، کوئی مجھ سے ناخوش نہ ہو، کوئی مجھ پر حملہ نہ کرے۔ جب ہم اپنے آپ کواوردوسروں کوانسان کے طور پہ دیکھیں، رنگ اور مذہب سے نہیں، اور کہیں کہ خدا کا شُکر ہے۔ امن ہم سب کے پاس ہے، بس ہمیں اپنے اندر اس کو تلاش کرنا ہے۔ معاف کردینا سب سےمشکل عمل ہے، اگر آپ معاف کر سکیں تو امن میں رہیں گے۔
مُلکوں پہ حملے نہ ہوں۔فلسطین کو زندہ رہنے دیں، یہ امن ہے۔ ظلم ختم ہوجائے، تو امن ہوجائے اور دنیا ہی میں جنّت ہو۔ ایک دوسرےسے محبّت، سب مخلوقات پہ مہربانی اور بس! برطانوی بچّوں کی سوچ پڑھ کر جہاں بےاختیار ’’ماشاءاللہ‘‘ نکلا، وہیں فطری طور پہ یہ بھی سوچا کہ خُود برطانیہ اور اس کے حواریوں نے امن کے نام پہ دنیا کو جو دیا ہے، کیا وہ اِن میں سے ایک بھی تعریف پہ پورا اُترتا ہے؟
کوونٹری کیتھیڈرل کی سروس میں…
ہربرٹ میوزیم سے ہو کر مَیں وقت پر کیتھیڈرل پہنچ گئی تھی۔ شیشے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی، تو چرچ کے مخصوص سُرخ اور سفید لبادے میں ملبوس ایک پادری نے بڑھ کر استقبال کیا۔’’سروس اٹینڈ کرنا چاہتی ہو؟‘‘ اُس نے پوچھا، کیوں کہ کچھ سیاح بھی گھوم پِھر کرعمارت دیکھ رہے تھے۔ میرے اثبات پراُس نے نشستوں کی طرف اشارہ کردیا۔ اندر گرمائی کا تو کوئی انتظام نہ تھا، البتہ باہر کی یخ ہوا کے تھپیڑوں سے پناہ ضرور ملتی تھی۔ بےحدو حساب وسیع اور اونچی چھت والے ہال کے اندر گرمائی کا انتظام ہوبھی کیسےسکتا تھا۔
سروس کا وقت ہونے کو تھا۔ مَیں گھڑی دیکھتے ہوئے منتظر تھی کہ ہال کی ویرانی اور خاموشی چہل پہل میں بدلے، مگر گزرتے لمحوں کے ساتھ کوئی خاص فرق نہ پڑا۔ کوئی ایک ہزار لکڑی کی کرسیاں تھیں، جو اب تک خالی ہی پڑی تھیں۔ آخر کار، مَیں ایک نشست پر ٹک گئی اور سامنے پڑی بائبل کے اقتباسات پر مبنی دعاؤں کی کتاب اُٹھا کر ورق گردانی کرنے لگی۔پیروکاروں کی تعداد کے لحاظ سے رومن کیتھولک عیسائیت کا سب سے بڑا فرقہ ہے۔ اس کےبعد پروٹیسٹنٹ فرقہ آتاہے۔تیسرےاور چوتھے نمبر پر آرتھوڈوکس فرقے کی اقسام ہیں۔
رومن کیتھولک عقیدے کے مطابق تثلیث کا مطلب باپ بیٹا اور مقدّس مریمؑ ہے، جب کہ اصلاح پسند پروٹیسٹنٹ عقیدےکی تثلیث میں مریمؑ کی بجائے مقدّس روح کو شامل کیا جاتا ہے۔ اینگلیکن عقیدہ پروٹیسٹنٹ عقائد کاپیروکارہے،مگرکئی معاملات میں دونوں عقائدکا ملغوبہ ہے۔ چرچ آف انگلینڈ اِسی عقیدے پر ہے۔ رومن کیتھولک کی طرح ان کے ہاں مقدس مریمؑ کی حیثیت خدا کی تو نہیں، مگر مریمؑ سے مانگنا اور اُن کو پکارنا انہوں نے اپنی عبادت کے طریقے (Liturgy) میں شامل کررکھا ہے۔ ان کے پیرومرشد آرچ بشپ آف کنٹربری ہیں، جب کہ رومن کیتھولک کے پیشواویٹی کن میں موجود پوپ ہیں۔
مقدّس باپ منتظر رہا
مَیں اُس ٹھنڈے یخ عظیم الشان ہال میں جیکٹ اور مفلراچھی طرح لپیٹے لکڑی کی ایک کرسی پر اُکڑوں، اکیلی بیٹھی تھی۔ سردی جیسے درو دیوار سے بہہ رہی تھی۔ پھر غور کیا، تو دو قطاریں آگے، ایک نشست پر ایک شخص اور نظر آیا۔ نہ جانے وہ کب آیا۔ گردن گھمائی تو دائیں طرف کے حصّے میں بچھی خالی کرسیوں کے ہجوم میں ایک اورکرسی کو شرفِ نشست یابی حاصل تھا۔ سروس شروع ہوئی تو دو افراد اور آگئے۔ کرسی، کرسی پر بیٹھنے والوں کی بھی مہر ہوتی ہے۔ تو اس وسیع و عریض بلکہ عظیم الشان ایک ہزار نشستوں کے ہال میں آج کی اتوار گویا ہم پانچ افراد کے لیے یہ سب اہتمام تھا۔
آخرکار، اسٹیج پرحرکت کےآثارظاہر ہوئے۔ شمعیں جل اٹھیں، بہت سی اونچی مخصوص نشستوں پر کچھ لوگ بیٹھے دکھائی دیے۔ پھر اسٹیج کے دونوں اطراف سے دھیمے سُروں میں کوئر گاتے ہوئے بچّوں کی قطاریں نمودار ہونے لگیں۔ نوجوان لڑکے، لڑکیاں قطاروں میں پیچھے کی جانب تھے۔ فرشتوں جیسا بہروپ بنائے انسان، تقدّس کی علامت لگ رہے تھے۔
اسٹیج پر پہنچ کر وہ سب دونوں جانب آمنے سامنے ایک خاص ترتیب سے اپنی نشستوں کے آگے کھڑے ہوگئے۔ سُروں کی ندیا کبھی دھیمے بہتی اور کبھی اونچی۔ پھر سُروں کے ساتھ بہت سے ساز شامل ہوگئے۔ بلند آہنگ اور مترنّم، ایسا لگا، ہرطرف سُر ہی سُر پھیلے ہیں اور ایک خاص ترتیب سے زمین پہ اُتر رہے ہیں ، انسان کی دنیا میں الوہی نغمات کا نزول ہورہا ہے، ابھی اور اُسی وقت۔
مذہب کا عجائب گھر
آج اتوار کا دن ہونے کی بنا پر شام کی سروس میں ہونے والا خطبہ مفصّل تھا۔ خطبہ دینے کے لیے چرچ آف انگلینڈ کی نمائندہ ایک عالم خاتون آئی تھیں، جنہوں نے بپتسمہ دینے کی اہمیت اور فضیلت تفصیل سے بیان کی۔ آخرمیں دُعا مانگی گئی، پھر گاتے ہوئے کوئر کے لوگ اسٹیج سے اُترے اور سہج سہج چلتے ہوئے اطراف کی راہ داریوں میں گم ہوگئے۔ مَیں دس بارہ سال کی بچی ہوتی، تو اِن مناظر سے بےطرح مسحور ہوجاتی۔
جلتی موم بتیاں، سیکڑوں قمقموں والے فانوسوں کی مختلف زاویوں سے پڑتی ہوئی روشنیاں، پاکیزہ لبادوں میں لپٹے خُوب صُورت وجود، انتہائی رومان پرور ماحول، جو تخیّل کو اَن دیکھی دنیاؤں میں لےجاتاہے۔ ہماری مساجد کے سیدھے سادے، بلکہ غریبانہ حد تک سادہ ماحول سے کتنا فرق تھا۔ اچھی سے اچھی مسجد بھی ہوگی تو کیا، زیادہ سے زیادہ رنگین قالینی صفیں ہوں گی، ایک آدھ فانوس…اگرہوگا بھی تواُسے جلانےکا فیصلہ مسجد فنڈ کودیکھ کر کیا جائے گا۔ امام کی محراب پر کچھ نقش و نگار ہوں گےاوربس۔
کہیں شاید وضو خانوں میں اچھی ٹائلزبھی لگی ہوتی ہوں گی۔ اور اِدھر یہ دیوارگیرمصورانہ شاہ کار، مقدّس رُوح اور مقدس مریمؑ کے دودھیا ملکوتی مجسمے، اُن کے پھیلے ہوئے پَر، زمین سے لے کر بلند چھت تک رنگین شیشوں سے بنے آرٹ کے نمونے۔ ان رنگین شیشوں سے آتی سُرخ، سبز، نیلی اور زرد روشنی کی لہروں کو مختلف زاویوں سے ڈالی گئی مصنوعی روشنیوں کے ساتھ مِلا کر ایک جادوئی سا ماحول بنا ہوا۔ چھت اتنی بلند کہ دیکھنے کےلیےگردن کو نوّے کے زاویے سے بھی زیادہ پیچھےلے جانی پڑے۔
اور پھر چھت پر گویا ایک الگ ہی دنیا۔ فنِ تعمیر، مصوّری اور روشنیوں کے کمال امتزاج سے گندھی ہوئی۔ یہ سب ہماری مساجد میں کہاں، مگرعجیب بات کہ پھر بھی نمازیوں سے بَھرجاتی ہیں۔ اوریہاں کےماحول کےلیےکی ہوئی ساری محنت مقدّس باپ کےبچّوں کودروازے سےاندرلانےمیں ناکام رہتی ہے۔ باہر نکلی، تو دیکھا کہ کیتھیڈرل کے دروازے کے بالکل سامنے منہدم شدہ تاریخی کیتھیڈرل کے کھنڈرات میں ایک میلہ سا لگا ہوا ہے۔
تماش بینوں سےصحن بَھراہوا تھا اور اتوار کی شام کے لیے خاص اہتمام تھا، جس میں رنگ برنگ روشنیوں، مصنوعی دھند اور موسیقی کی پُراسرارسی دُھنوں نےایک سماں باندھا ہوا تھا۔ رنگ و نُور کا سیلاب تو خانۂ خدا کے اندر بھی تھا اور سازو آواز کا جادو بھی… مگراندرہرجتن کےباوجود ایک جمود تھا۔ اورجو چیز وہاں نہیں تھی…زندگی،وہ یہاں تھی۔ منہدم شدہ تاریخی کیتھیڈرل کے بےچھت کھنڈرات میں۔ (جاری ہے)