• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی بار یوں محسوس ہوا جیسے انتخابات کے التوا ء کی تمام راہیں مسدود کر دی گئی ہیں، لیکن ایک پھر کوئی نیا شگاف دریافت کر لیا جاتا ہے۔ ایک سازش ناکام ہوتی ہے تو ڈوریں ہلانے والے تماشہ گر کوئی نئی کٹھ پتلی لیکر آجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس باقر نجفی نے انتخابات کیلئے عدلیہ سے ریٹرننگ آفیسرز لینے کے بجائے انتظامیہ سے الیکشن کروانے کا نوٹیفکیشن معطل کیا تو بے یقینی کی گھٹائوں سے مطلع ابر آلود ہو گیا۔ چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں کہ اب 8فروری کو انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو پائے گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رُخصت پر بیرون ملک روانہ ہونے سے پہلے یہ ڈور سلجھا دی اور نہ صرف لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا بلکہ الیکشن کمیشن سے انتخابی شیڈول بھی جاری کروا دیا۔ خفیہ ہاتھ ایک بار پھر سرگرم ہوئے، اس بار حلقہ بندیوں پر اعتراضات سے متعلق مقدمہ بازیوں کی آڑ میں انتخابات ملتوی کروانے کی کوشش کی گئی۔ لگ بھگ 100حلقوں میں اعتراضات جمع کروائے گئے۔ جسٹس باقر نجفی نے تحریک انصاف کے رہنما چوہدری عرفان عابد کی درخواست پر نارووال میں قومی اسمبلی کے دو حلقوں NA-75 اورNA-76 کی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دیدیں۔ بلوچستان ہائیکورٹ نے بھی صوبائی اسمبلی کی دو حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دے دیا۔ معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ پہنچا۔ قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رُکنی بنچ نے قرار دیا کہ جب انتخابی شیڈول کا اعلان ہو جائے تو اس نوعیت کی عذر داریاں غیر موثر ہو جاتی ہیں۔ دوران سماعت جسٹس سردار طارق مسعود نے اس حوالے سے حیرت کا اظہار بھی کیا کہ جانے کیوں سب ہی انتخابات ملتوی کرانا چاہتے ہیں۔ جسٹس اطہر امن اللہ نے کہا کہ اگر ایک فرد کو ریلیف دیا گیا تو اس نوعیت کی درخواستوں کا سیلاب اُمڈ آئے گا۔ یہ فیصلہ آنے کے بعد یقین کرنا پڑا کہ اب انتخابات ہو کر ہی رہیں گے اور التوا کے سب دروازے مقفل کر دیئے گئے ہیں مگر پھر ایک اور رکاوٹ کھڑی کر دی گئی۔

پاکستان بار کونسل ،سپریم کورٹ بار اور سندھ ہائیکورٹ بار کے عہدیداروں کو اچانک الہام ہوا کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات نہیں ہو سکتے لہٰذا یک زبان ہو کر مطالبہ کیا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہو جائیں، پاکستان بار کونسل کی پریس ریلیز میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر نے اپنے آبائی علاقے جہلم میں تو قومی اسمبلی کے دو حلقے بنائے ہیں لیکن حافظ آباد کو قومی اسمبلی کی ایک نشست دی گئی ہے حالانکہ ان دونوں اضلاع کی آبادی میں معمولی سا فرق ہے۔ اگرچہ بنیادی طور پر یہ اعتراض ہی غلط اور بے بنیاد ہے لیکن وکلاء رہنمائوں کی معلومات بھی درست نہیں۔ سلطان سکندر راجہ کا آبائی علاقہ بھیرہ ہے جو ضلع سرگودھا کا حصہ ہے جبکہ انہوں نے کیڈٹ کالج حسن ابدال سے تعلیم حاصل کی جو ضلع اٹک کی حدود میں آتا ہے۔ جہلم سے ان کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔ اگر ان کا کوئی قریبی عزیز انتخابات میں حصہ لے رہا ہوتا اور اسے فائدہ پہنچانےکیلئے حلقہ بندی کی گئی ہوتی تو تب بھی اعتراض بنتا تھا لیکن میری معلومات کے مطابق سلطان سکندر راجہ کے چاروں بھائیوں ظفر سلطان راجہ، مظہر سلطان راجہ، اظہر سلطان راجہ اور فخر سلطان راجہ میں سے کوئی بھی عام انتخابات میں امیدوار نہیں۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے پاس ویٹو پاور نہیں ہے۔ وہ تمام اقدامات الیکشن کمیشن کے ممبران کی مشاورت سے کرنے کے پابند ہیں اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے تمام فیصلے اتفاق رائے سے کئے گئے ہیں۔ اگر واقعی کوئی ٹھوس اعتراض ہوتا تو پھر سب کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جاتا لیکن ایک شخص کو نشانہ بنائے جانے کا مطلب ہے کہ حقیقی وجوہات اور اسباب کچھ اور ہیں۔ وکلاء رہنمائوں کو قانونی طریقہ کار بتانا اگرچہ سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے لیکن شاید وہ یہ حقیقت فراموش کر گئے کہ چیف الیکشن کمشنر کو ہٹانے کا وہی طریقہ ہے جو کسی جج کے حوالے سے اختیار کیا جاتا ہے یعنی آئین کے آرٹیکل 209کے تحت ریفرنس دائر کیا جائے۔ اگر سلطان سکندر راجہ کے خلاف الزامات میں صداقت ہوتی اور شواہد دستیاب ہوتے تو وکلاء تنظیمیں ان کے خلاف متعلقہ فورم سے رجوع کرتیں لیکن میڈیا ٹرائل پر اکتفا کرنے کا یہی مطلب ہے کہ سب کسی کی خواہش اور فرمائش پر کیا جا رہا ہے۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار یا پھر سندھ ہائیکورٹ بار نے جنرل کونسل کا اجلاس بلا کر قراردادیں منظور نہیں کروائیں محض بیانات جاری کئے گئے ہیں۔ یعنی اسے وکلا ء برادری کا موقف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کس کے ایما ء پر اور کیوں کیا گیا؟ ایک موقف یہ ہے کہ وکلاء رہنما اپنی مرضی کی حلقہ بندیاں چاہتے تھے جب مطالبہ پورا نہیں کیا گیا تو وہ خفت مٹانے پر اُتر آئے۔ یہ بات جزوی طور پر درست محسوس ہوتی ہے لیکن میری دانست میں حقیقی وجوہات کچھ اور ہیں۔

وکلاء رہنمائوں کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر کے استعفیٰ کا مطالبہ انہی مقتدر حلقوں کے ایماء پر کیا جا رہا ہے جو ہر بار جمہوری عمل میں رخنہ ڈالنے کیلئے انتخاب سے پہلے احتساب کا بیانیہ بناتے ہیں، جو سیاست کے بجائے ریاست بچائو جیسے پرکشش نعروں کی آڑ میں انتخابی عمل کو سبوتاژ کرتے ہیں۔ لیکن اس بار ان کی یہ مہم کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ ان کا خیال ہے کہ چیف الیکشن کمشنر دبائو کی تاب نہ لاتے ہوئے استعفیٰ دیدیں گے تو عام انتخابات کھٹائی میں پڑ جائیں گے اور الیکشن کمیشن کے سینئر ممبر کو قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بنا کر اہداف حاصل کر لئے جائیں گے لیکن شاید انہوں نے آئین کے آرٹیکل 217کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جو قائم مقام چیف الیکشن کمشنر سے متعلق ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر چیف الیکشن کمشنر کا منصب خالی ہو جائے، چیف الیکشن کمشنر غیر حاضر ہوں یا پھر کسی بھی وجہ سے اپنے فرائض کی انجام دہی سے قاصر ہوں تو چیف جسٹس سپریم کورٹ ،عدالت عظمیٰ کے کسی حاضر سروس جج کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کریں گے۔یعنی بال ایک بار پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی کورٹ میں چلی جائے گی۔

تازہ ترین