ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں بظاہر انتخابات کی طرف بڑھ رہی ہیں، لیکن تمام نظریں ایک ’’غیر سیاسی‘‘ ادارے پر مرکوز ہیں جسے زیادہ تر پاکستانی اپنے ملک کی سیکورٹی اور سا لمیت کی ضمانت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پاکستان کی بطورِ ایک آزاد ملک، زیادہ عرصہ یہی صورت رہی ہے۔ ملک کیلئے اپنے منصوبوں اور پالیسیوں کا خاکہ تیار کرنے کی بجائے سیاسی رہنما عسکری قیادت کا سہارا لے کر اقتدار میں پہنچنے، یا پھر وہ جنرلوں پر تنقید کرتے ہوئےعوامی حمایت متحرک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عشروں پر محیط سیاسی مداخلت کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی زیادہ تر سیاست اب صرف اور صرف اسکے گرد گھومتی ہے کہ عسکری قیادت کیا کر یا سوچ رہی ہے ۔ اپنی تعریف کے اعتبار سے سیاست تنازع کی طرف لیجاتی ہے ، جبکہ بطور ادارہ ، فوج اسی وقت اپنا کام بہترین انداز میں کر سکتی ہے جب اسے عوام کی حمایت حاصل ہو۔ مختلف سیاست دانوں کی طرف سے ہونے والے تابڑ توڑ حملوں کے بعد پاکستانی فوج کا بطور ادارہ مفاد اسی میں ہے کہ اب یہ مکمل طور پر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلے۔ اس مقصد کیلئے سیاست دان کو اپنے قاعدے قانون پر اتفاق کرنا پڑئیگا کہ اُسے اداروںکے ساتھ رابطے میں تو رہنا ہے لیکن ان کا ہاتھ پکڑ کر کوئی منزل طے نہیں کرنی اور نہ ہی قومی سلامتی کے اداروں پر حملے کرنے ہیں ۔ اس سے فعال جمہوریت کی بنیاد رکھنے میں مدد ملے گی ۔ دوسری طرف اگر پاکستان کو بدستور ایک قومی سلامتی کی ہائبرڈ ریاست بنائے رکھنا ہے تو پھر یہ بقول جرمن نژاد امریکی فلاسفر، ہنہ ارندت(Hannah Arendt) یقینی طور پر ایک آمرانہ ریاست بننے کے اصول پر گامزن ہوگی۔
وہ اصول یہ ہے کہ ’’حکومتی ادارے جتنا خود کو نمایاں کرینگے، ان کی طاقت اتنی کم ہوتی جائیگی، اور کسی ادارے کے وجود کے بارے میں جتنا کم علم ہوگا، وہ بالآخر اتنا ہی طاقتور ہوگا۔‘‘ایک عام خیال ہے کہ پاکستان کو نادیدہ ہاتھ چلاتے ہیں۔جمہوریت میںزیادہ شفافیت اور سیاستدانوں کے درمیان سمجھوتے کی خواہش درکار ہوتی ہے۔ لیکن پاکستانی آمریت بھی کم موثر ہو کر رہی گئی ہے کیونکہ اس کے غالب ہاتھ کو عوامی طور پر شناخت کیا جارہا ہے ، اور اس کی تشہیر ہونا شروع ہوگئی ہے۔
میجر جنرل شیر علی خان، جنھوں نے جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے وزیر برائے اطلاعات و قومی امور کے طور پر خدمات انجام دی تھیں، کا کہنا ہے کہ ملکی سیاست اور پالیسیوں پر پاک فوج کا اثر و رسوخ فوج کے ’’کرشماتی کردار‘‘ سے وجود میں آتا ہے، کیوں کہ پاکستانی عوام اپنی مسلح افواج میں ایک غیر مرئی کشش محسوس کرتے ہیں۔ یحییٰ خان کو لکھے گئے ایک خط میں جو بالآخر 1970 میں پاکستان کے پہلے عام انتخابات کے انعقاد کا باعث بنا، جنرل شیر علی نے نوٹ کیا کہ مارچ 1969 میں ایوب کے بعد فوج سیاست دانوں پر بازی لے جانے میں اس لیے کامیاب نہیں ہوئی کہ اس کے پاس ہتھیاروں کی طاقت تھی ۔ ان کے خط میں کہا گیا کہ ’’اگر ہمیں نواب پور روڈ (ڈھاکہ کی مرکزی سڑک) سے گزرنا پڑتا توسامنے ایسی تباہ کن طاقت ہوتی کہ ہماری کوئی بھی تباہ کن طاقت اسے کنٹرول نہ کرسکتی ۔ مارچ 1969 میں جس چیز نے فوج کو نااہل سیاستدانوں سے میدان جیتنے کے قابل بنایا وہ اس کے کرشمے کی طاقت تھی۔ یہ ایک قیمتی سیاسی وسیلہ تھا جو ایک بار ضائع ہو جائے تو آسانی سے دوبارہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اس لیے موجود تھا کیونکہ عوام کی بڑی تعداد کا فوج سے براہ راست سامنا نہیں ہوا تھا۔ ان کیلئے یہ ایک افسانوی وجود تھا، ایک جادوئی طاقت، جو ضرورت کے وقت ان کی اس وقت مدد کرے گی جب باقی سب ناکام ہو جائیں گے۔
ایک فوجی کمانڈر کی براہ راست حکمرانی کا ہر دور۔ ایوب خان 1958-69،یحییٰ خان1969-71، محمدضیاءالحق 1977-1988، اور پرویز مشرف 1999-2007 کے خاتمے پر وہی سیاستدان اقتدار میں واپس آئے جنکی مبینہ نااہلی اور بدعنوانی کی وجہ سے فوج کو پہلے مداخلت کی دعوت دی گئی تھی۔ یوں حکمران کمانڈروں میں سے کوئی بھی اس کرشمے کو کمزورہونے سے نہ روک سکا ۔ اپنے کرشمے کو برقرار رکھنے کیلئے فوج کو حکمرانی کرتے ہوئے آنکھوں سے اوجھل رہنا ہوتا ہے یا سیاست دانوں ساتھ تال میل بنانا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں جمہوریت کی جھلک نظر آتی ہے۔پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ (1958-1966) نے ایک بار وضاحت کی تھی کہ سیاست نے انہیں حیران کر دیا کیونکہ انہیں ’’دشمن کو تلاش کرنے اور دشمن کو ختم کرنے ‘، اور اپنے اعلیٰ افسران کی فرمانبرداری کرنے اور اپنے ماتحتوں کو حکم دینے کی تربیت دی گئی تھی لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ’’اپنے لوگوں‘‘ سے کیسے نمٹا جائے جن کے عقائد اور یقین نے انھیں سرکش بنا دیا ہے۔
سیاست متبادل حل، نظریات اور پالیسی آپشنز کے درمیان انتخاب کرنے کے بارے میں ہے۔ اس کیلئے سمجھوتہ اورمفاہمت کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس میں حمایت یا فرمانبرداری حاصل کرنے کیلئے فرمان جاری کرنے کی بجائے قائل کرناپڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ فوجی کی تربیت افسران کو سیاست کیلئے تیار نہیں کرتی۔ لیکن پاکستان کا سیاسی طبقہ بھی حقیقی قیادت فراہم کرنے سے قاصر رہا ہے۔ اپنے حریفوں کو مات دینے کے ایک نہ ختم ہونے والے کھیل کے علاوہ، پاکستانی سیاست دان اور انھیںکور کرنے والا میڈیا بمشکل ہی پالیسی اصولوں کی بات کرتا ہے ۔
پاکستان کو ایسی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جو کشمیر کے بارے میں نعروں، بعض ہمسایوں اور مغرب سے نفرت، امت کی محبت اور چین کی تعریف سے بالاتر ہو۔ اسے پائیدار اقتصادی ترقی، سرمایہ کاری کو راغب کرنے، انسانی سرمائے کی تعمیراور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے روزگار پیدا کرنےکیلئے واضح منصوبوں کی ضرورت ہے۔ سول سروس اور پولیس میں اصلاحات لانے، فوج کو جدید بنانے، اور تمام قومیتوں اور نسلی گروہوں کے انضمام کی ضرورت ہے۔ لیکن پاکستان کے کسی بھی سیاسی کھلاڑی نےیہ واضح نہیں کیا کہ ان میں سے کسی بھی چیلنج سے نمٹنے میں وہ کس طرح ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اگلا الیکشن اب بھی موروثیت اور دھڑے بندیوں اور مظلومیت، اور کس نے کس کے ساتھ کیا، کی دہائی سے عبارت ہوگا۔ غیر مرئی حکومت اور غیر ملکی ہاتھوں کے بارے میں سازشی نظریات کیخلاف معمول کی (اور جائز) شکایات ہونگی۔ لیکن اصل مسائل پر توجہ نہیں دی جائے گی۔ اگر فوج سیاست سے دستبردار ہو کر اپنا کرشمہ دوبارہ حاصل کر لے تو ملک بہتر ہو گا۔ لیکن کیا پاکستان کے سیاست دان اس موقع پر آگے بڑھ کر پالیسی آپشنز پر تبادلہ خیال اور ایک دوسرے سے بامعنی بات کرنا شروع کر سکتے ہیں؟