• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف انتہائی دانشمندی سے اپنی سیاسی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں ، اصولی سیاست اور تلخ زمینی حقائق دونوں کو لیکر چلنا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کو ایک کریڈٹ ضرور ، اداراتی مفادات سے وفاداری غیر مشروط اور اٹل ہے ۔ اچنبھے کی بات نہیں ، 1953 تا 2022، ’’اداراتی وارداتوں کا تحفظ‘‘اداراتی مفاد کا حصہ بنا چکے ہیں ۔ جنرل ایوب ، جنرل یحییٰ ، جنرل مشرف سے لیکر جنرل باجوہ تک کئی قومی مجرم قانون کی دسترس میں نہ آسکے۔ اس ملک کا حادثہ ، مقبول سیاست کا پروان چڑھنا ، اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کا مرہون منت ہے ۔ عبدالقیوم خان ، فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو ، نواز شریف اور اب عمران خان جس کسی نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنایا ، رفعتیں پائیں۔ پنجاب میں بالخصوص اور کسی حد تک KP میں ایسے بیانیہ کو ہمیشہ غیر معمولی پذیرائی ملی۔ اگر نواز شریف 1993 ، بعد ازاں 2018 میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ نہ اپناتے تو آج سیاسی ردی کا حصہ ہوتے۔ عمران کے حالات اس سے بھی بد تر، اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بن کر اقتدار ملاتواپنی سیاست کا سوا ستیاناس کرا بیٹھے۔

1996 میں جب سیاستدان بننے کا اعلان کیا ، زعم ایک ہی’’ ورلڈ کپ اور کینسر اسپتال کی موجودگی نے جو غیر معمولی مقبولیت دے رکھی ، سیاست میں کامیابی یقینی رہنی ہے‘‘ ۔ مایوسی کہ 1997 اور 2002 کے انتخابات میں بد ترین شکست کھائی ۔ گٹھ جوڑ سے 2018 میں جب اقتدارملا تومقبولیت کا خانہ خالی ہوچکا تھا ۔ دسمبر2021تک ، نواز شریف کی سیاست کا جادوسر چڑھ کر بول رہا تھا ، وجہ ، اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنا رکھا تھا۔ تحریک انصاف کے اکابر برملا اپنی سیاست زمین بوس ہونے کا اعتراف کرتے تھے۔ وطنی طول و عرض میں جتنے ضمنی الیکشن ہوئے ، ن لیگ کا ٹکٹ کامیابی کی ضمانت تھا ۔ دسمبر 2021 تک سیاسی افق پر نواز شریف کے علاوہ اور کوئی دوسرا تھا ہی نہیں ۔جیسے ہی مسلم لیگ ن اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بنی، اسکا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ عمران خان کو منتقل ہوگیا۔نواز شریف کی 40 سالہ سیاست چند ماہ کے اقتدار کی بھینٹ چڑھ گئی جبکہ عمران کی بد ترین غیر مقبول سیاست کو مقبولیت کے پَر لگ گئے ۔امابعد 10 اپریل 2022 ، اسٹیبلشمنٹ نے عمران مخالف جو بھی تادیبی اقدامات کئے ، عمران خان کی مقبولیت نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔

حیف ! جنرل باجوہ کی تاحیات آرمی چیف رہنے کی دُھن ، عمران خان سیاست کیلئے نعمت غیر مترقبہ بنی۔ جنرل باجوہ کا شہباز شریف حکومت پر مستعفی ہونے کا دباؤ ، عمران خان کے جلسے جلوس جنرل باجوہ کی توسیع مدت ملازمت کیلئے تھے ، باجوہ کا احمقانہ پلان عمران خان کی مضبوط سیاست کیلئے تریاق ثابت ہوا ۔جنرل باجوہ کی ساری سازشیں ، اللہ کی اسکیم کے آگے ڈھیر ، کریڈٹ نواز شریف کا ، کمال دانشمندی سے باجوہ پلان کو اس حد تک ضرور ناکام بنایا اور جنرل عاصم آرمی چیف بننے میں کامیاب ہوئے ۔ مگر اس وقت تک عمران سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کر چکا تھا ۔ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ مخالف موقف بغیر روک ٹوک اپنائے رکھا ، کثیر رائے عامہ کو اپنے حق اور اسٹیبلشمنٹ کیخلاف بھڑکانے میں کامیابی ملی۔

8 فروری کا دن ، عوام الناس، عمران خان کی ذات سے جوڑ چکے ہیں۔ رائے عامہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران کے میچ کے حتمی نتیجہ کے انتظار میں ، باقی بحثیںضمنی ہیں ۔ سیاسی صورتحال کچھ یوں کہ عمران خان جیل میں یا باہر ، دونوںصورتیں انکے وارے میں ہیں ۔ آج کے حالات کے تناظر میں گارنٹی دیتا ہوں کہ3 سال اندر اقتدار عمران کی دہلیز پر ہوگا ( دہلیز چاہے جیل کی ہو یا گھر کی ) ، بشرطیکہ موصوف نے اپنی جان بچا لی ۔ مملکت ایک بے ہنگم سیاسی دلدل میں دھنس چکی ہے ۔ ملک کے سیاسی ، انتظامی نظم و نسق ، آئینی موشگافیاں، قانون کی حکمرانی سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر ہے ۔ 70 سال کا تجربہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے سیاسی فہم و فراست میں تہی دامن ہے ۔ ہائیکورٹ کی حد تک وطنی عدالتیں ایسے فیصلے دینے میں قاصر جو اسٹیبلشمنٹ کے مزاج پر گراں گزریں ۔ نگران حکومتیں فقط کارپوریٹ مینجرز اور کچھ بھی نہیں ۔ بالفرض محال 8 فروری کو الیکشن کرابھی دیئے گئے ،نتائج کچھ بھی نکلیں ،کسی طور اسٹیبلشمنٹ اختیارات کی کُلی منتقلی نو منتخب حکومت کو نہیں کر پائے گی ۔ اسٹیبلشمنٹ پچھلے چند مہینوں میں کئی ارادے باندھ کر توڑ چکی ہے ۔ مثلاً ، منصوبہ a : وزیراعظم نواز شریف کی اکثریتی حکومت مع ممکنہ 4 صوبائی حکومتیں بھی ، منصوبہb : بصورت عدم الیکشن ایک قومی حکومت کی تشکیل ، منصوبہ c : وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومتیں ، جبکہ سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور KP میں فضل الرحمن کی مخلوط حکومت ، منصوبہ d : الیکشن کے بعد وفاق اور صوبوں میں قومی حکومتیں ( تحریک انصاف شامل ) ، ایسے تمام منصوبوں میں مشترک ایک ہی، وزیراعظم نواز شریف ہی ۔ قطع نظر نواز شریف اس بھان متی کے کنبہ کی سربراہی قبول کریں گے یا نہیں؟ بظاہر انکے اعصاب پر اس وقت اپنے ووٹر ز سپورٹر ز کو متحرک کرنے کا بھوت سوار ہے، سخت بیانیہ اپنا رہے ہیں۔ میرا اسٹیبلشمنٹ سے شکوہ ، 70 سال سے آزمودہ ناکامی کہ’’ زورِ بازو پر کرتے ہیں بھروسہ‘‘، وطنی سیاست چلانے کیلئے کیا آج کوئی دوسرا ہنر بھی آزمانے کو ہے؟ کاش ! عمران خان کی ذات کو ہدف ضروربناتے مگر ایسا حربہ بھی استعمال میں لاتے کہ رائے عامہ عمران سے بد دل رہتی ۔ آج اسٹیبلشمنٹ پر رائے عامہ کی تقسیم ، ادارے کیلئے زہر قاتل ، ملک دشمن فائدہ میں ہیں ۔ یہ بات سمجھانا ذرا مشکل ، عمران خان سیاست چوراہے پر ،محفوظ راستہ ایک ہی ، عمران خان نواز شریف کے ہاتھ مضبوط کریں اور اپنا مستقبل سنواریں ۔ بصورت دیگر سیاسی افراتفری میں ملک کا نقصان ، سیاسی جماعتوں کا مستقبل تاریک اور اسٹیبلشمنٹ مزید مضبوط ہوگی۔ پھر دُہراتا ہوں ، عمران خان کی سیاست کا مستقبل نواز شریف کی سیاست سے نتھی ہے۔ نواز شریف ناکام ہوئے تو عمران خان بھی تاحیات فارغ ۔ تحریک انصاف قیادت اور وکلاء کے نواز شریف مخالف بیانات، اپنی تکلیفوں کا ذمہ دار نواز شریف، خواجہ آصف وغیرہ کو ٹھہرانا، منافقت کی بد ترین مثال ہے۔ اگرجرات نہیں تو پھرکسی کانام نہ لیں، بجائے جھوٹ کا سہارا لینے کے۔ عمران خان کیلئے رہنماء اصول ، نواز شریف کی گوجرانوالہ 20 اکتوبر 2020 کی تقریر ازبرکرنا اور اپنانا ہوگی، اپنی حکمت عملی کا حصہ بنانا ہوگا ۔ ملک جس مقام پر آن پہنچا ہے ، معروضی حالات میں، اسٹیبلشمنٹ کا ماؤرائے آئین اختیارات اپنے پاس رکھنا آج انکی مجبوری ہے۔ خدشہ ہے کہ انتخابات کے انعقاد میں تاخیر یا بصورت انتخابات کا انعقاد، ہر دونوں صورتوں میں آئینی نظام شاید دوبارہ پٹڑی پر نہ چڑھ سکے۔ کاش! اسٹیبلشمنٹ، نواز شریف اور عمران خان مل بیٹھتے، تاکہ وطن عزیز کو اس دلدل سے نکالنے کا کوئی سبب بن پاتا۔ وطن کی فکر کسی کو ہے بھی یا نہیں؟

تازہ ترین