اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’آپ ﷺ کو لوگوں کےنفوس کے تزکیے اور اخلاق و کردار کی تعمیر کے لیے بھیجا گیا ہے۔‘‘ سورۂ قلم میں اللہ تعالی نے نبیٔ کریم ﷺ کے اخلاقِ عالیہ کی مدح کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’بے شک، آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہیں۔‘‘
پھر سیرتِ نبویؐ کا مطالعہ بھی ہمیں بتاتا ہے کہ آپؐ نہایت نرم خُو، شفیق اور مہربان تھے اور جو ایک مرتبہ آپؐ سے مل لیتا، آپؐ کی محبّت کا اسیر ہو جاتا۔ حضرت انسؓ نے آپ کی خدمت میں دس برس گزارے اور اُن کا کہنا تھا کہ پیارے نبیؐ نے اُنہیں کبھی سخت سُست کہا اور نہ کبھی ڈانٹا۔ اِسی طرح حضرت ابو سفیانؓ نے اسلام قبول کرنے سے قبل دربارِ روم میں آپؐ کے اخلاقِ حسنہ کی تعریف کی۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے نبیٔ اکرم ﷺ کی اطاعت اور آپؐ کی تعلیمات کی پیروی ہم پر فرض ہے اور اِسی میں ہی ہماری دُنیا و آخرت کی بھلائی پوشیدہ ہے۔
آپؐ سراپا صدق وصفا تھے اورجُھوٹ کو سخت ناپسند فرماتے۔ فرمانِ نبویؐ ہے کہ ’’سچ بولا کرو کہ سچ جنّت میں لے جائے گا۔‘‘ لہٰذا، آپؐ کا امّتی ہونے کے ناتے ہمیں بھی ہر حال میں سچ بولنا اور جُھوٹ سے گریز کرنا چاہیے۔ غُصّہ، بدگوئی اورسخت کلامی شخصیت کے منفی پہلو ہیں اور نبیٔ اکرمؐ نے مختلف مواقع پر ان سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ نہایت باحیا تھے۔ صحابہؓ بیان فرماتےہیں کہ آپؐ کنواری لڑکیوں سےبھی زیادہ حیادار تھے۔ آپؐ لباس میں ستر کا اہتمام فرماتے اوراپنے پیروکاروں کو بھی جسم کومناسب لباس سے آراستہ کرنے اور اپنے ستر کو اچّھی طرح چُھپانے کی تاکید کرتے۔ اسی طرح آپؐ دورانِ گفتگو بھی حیا کو ملحوظِ خاطر رکھتے۔
زندگی میں کام یابی، اصولوں کی پابندی کے بغیرممکن نہیں اورسیرتِ پاکؐ کےمطالعے سے ہمیں ایک بااصول و متوازن زندگی کا سبق ملتا ہے، جب کہ اس کے برعکس آج ہماری زندگی افرط و تفریط کا شکار ہے۔ البتہ ہم اسوۂ حسنہ پرعمل پیرا ہو کر ایک بہتر اور کام یاب زندگی گزار سکتے ہیں۔ نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ ’’جو بڑوں کی عزّت اور چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
لہٰذا، اگر ہم خُود سے عُمر اور رُتبےمیں بڑے افرادکی عزّت کریں اور عُمر اور رُتبے میں خود سےچھوٹے افراد سے نرمی و شفقت کا برتائو کریں، تو اپنے ارد گرد کے ماحول کو خوش گوار اور اپنی زندگی کو حسین تر بنا سکتےہیں۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ کی امتیازی خصوصیت آپؐ کی نرم مزاجی تھی۔ نبیٔ کریمؐ نے ہرمعاملے میں نرمی کی ہدایت فرمائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ’’نرمی خیر لاتی ہے۔‘‘ اگر ہم بھی دوسروں سے نرمی اور عفو و درگزر کا معاملہ کریں، تو زندگی گُل زار اور دُشمن، دوست بن سکتے ہیں۔
آج ہم سب دوسروں سے حُسنِ اخلاق کی توقّع رکھتے ہیں، جب کہ اس ضمن میں ہمیں پہلے اپنی ذات کو نمونۂ عمل بنایا چاہیے۔ سیرتِ نبویؐ ہر فرد کو اپنی اصلاح اور تزکیۂ نفس کی تعلیم دیتی ہے اور نبی کریمؐ سے محبّت کا حقیقی تقاضا بھی یہی ہے کہ آپؐ کی مبارک زندگی کے بارے میں کماحقہ علم حاصل کیاجائے اور اس پرعمل کی حتی الامکان کوشش بھی کی جائے۔ یاد رہے کہ اسوۂ حسنہ کی پیروی اور تعلیماتِ نبویؐ پر عمل ہی دُنیا میں ہماری بہتری اور آخرت میں نجات کاضامن ہے۔ سو، ہمیں آج ہی سے اپنی زندگی تعلیماتِ نبویؐ سے آراستہ و پیراستہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ قیامت کے دن نبی اکرمؐ کی شفاعت کے مستحق بنیں۔