• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکّہ کے شمال میں سنگلاخ پہاڑوں، بے آب وگیا ہ ریتیلے چَٹیل میدانوں اور سنسان بیابانوں کے درمیان شام و فلسطین جانے والی واحد گزرگاہ، جو اُس وقت مکّہ مکرّمہ کو دنیا کے دوسرے مُمالک سے ملانے والا واحد زمینی راستہ تھا، جہاں سے مُلک عرب کے تاجروں اور ساہوکاروں کے سامانِ تجارت سے لدے ہزاروں اونٹوں کے قافلے شام، عراق، فلسطین کا رُخ کرتے اور وہاں سے شامی غلّے سمیت رُومیوں کا مختلف انواع واقسام کا سامانِ تجارت مختلف مقامات پر پہنچاتے۔ عربوں کی 70فی صد تجارتی سرگرمیوں کی گزر گاہ میدانِ بدر کے قریب دو بلند پہاڑوں کے درمیان واقع ’’وادئ ودان‘‘ میں ’’صفراء‘‘ نامی بستی تھی، جہاں ’’بنو غفار‘‘نامی ایک جنگ جُو قبیلہ آباد تھا۔

اس قبیلے کا تعلق بنو مرہ بن بکر سے تھا، جو کنانہ کے ایک بڑے قبیلے کی شاخ تھی اور اسلام سے قبل، دورِجاہلیت میں یثرب اور مکّہ مکرّمہ کی آبادی سے دُورآباد اِس قبیلے کا زیادہ تردارومدار راستے سے گزرنے والے قافلوں کی لوٹ مار پر تھا۔ یہاں کے لوگوں کا پیشہ بھی یہی تھا اور نوجوانوں کا شوق بھی اور انہی غیر اخلاقی، مجرمانہ سرگرمیوں کے سبب یہ علاقہ بہت خطرناک سمجھا جاتا تھا۔

ابو ذرنامی ایک نوجوان بھی اپنے بھائی اور والدہ کے ساتھ اسی قبیلے میں مقیم تھے۔ انھیں شمشیر زنی میں مہارت حاصل تھی اور شجاعت و بہادری میں بھی خاص مقام رکھتے تھے۔ مؤرخین کے مطابق ’’شروع میں ابوذر بھی قبیلے کے نوجوانوں کے ساتھ ان سرگرمیوں میں حصّہ لیتے رہے، لیکن پھر جلد ہی ان کا ضمیر بے دار ہوگیا اور انھوں نے ان غیر اخلاقی سرگرمیوں میں حصّہ لینا چھوڑ دیا۔‘‘ یہ وہ دن تھے کہ جب ابوذر حق اور سچ کی تلاش میں تھے۔

اُن کے اندر خیر و شر کی قوتیں باہم متصادم تھیں۔ انھیں بے جان پتھر کے بُتوں کی پرستش ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ عربوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ اُن کے ذہنوں میں ایک اللہ کا تصوّر ہمیشہ سے رہا ہے۔ جو اُن کے اپنے خداؤں لات و عزیٰ سے کہیں بڑا تھا، چناں چہ جب بھی کوئی مصیبت یا خطرات کے لمحات آتے، تو وہ آسمان میں موجود حضرت ابراہیم علیہ السلام کےربّ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے اور تمام عالموں کا ربّ اُن کی مشکلات حل فرما دیتا۔

حضرت ابوذرغفاریؓ خود فرماتے ہیں کہ ’’مَیں مشرف بہ اسلام ہونے سے قبل بھی نماز پڑھتا تھا۔‘‘ پوچھا گیا۔ ’’کس کے لیے پڑھتے تھے؟‘‘ جواب دیا۔ ’’اللہ کے لیے۔‘‘ سوال ہوا ’’منہ کس طرف کرتے تھے؟‘‘فرمایا۔ ’’جس طرف اللہ تعالیٰ میرا منہ پھیر دیتا، اُسی طرف کرلیتا۔ مَیں رات کے آخری پہرنماز پڑھتا اور سورج طلوع ہونے تک کمبل کی طرح پڑا رہتا تھا۔‘‘ (صحیح مسلم، 6359)۔

نام ونسب، حلیہ: حضرت ابوذرغفاری؄ کا نام جندب بن جنادہ بن سفیان بن عبید بن حرام بن غفار تھا۔ کنیت ابوذر، لقب شیخ الاسلام تھا۔ غفار قبیلے سے تعلق کی بِنا پرحضرت ابوذر غفاری؄ مشہور ہوئے۔ ان کا شمار’’سابقون الاوّلون‘‘ میں ہوتا تھا۔ والدہ کا نام رملہ بنتِ وقیعہ غفاریہ تھا۔ حضرت ابوذر؄، مکّی یا مدنی نہیں تھے، بلکہ عربوں کے ایک جنگ جُو قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ درازقد، سرمئی مائل گندمی رنگ، دبلے پتلے، لیکن چاق چوبند جسم کے مالک۔ داڑھی اور سر کے بال سفید تھے۔ (الاصابہ 7/107)۔

مکّہ میں قیام اور حضرت علیؓ سے ملاقات: حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوذر ؓکو رسول اللہ ﷺ کی نبوّت کا عِلم ہوا، تو انہوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا کہ’’ تم مکّہ جانے کی تیاری کرو اور اُن سے متعلق واقفیت حاصل کرو، جو یہ کہتے ہیں کہ مَیں نبی ہوں اور میرے پاس آسمان سے وحی آتی ہے، پھر واپس آکر مجھے ان کے بارے میں آگاہی دو۔‘‘ بھائی کے حکم پر انیس مکّہ روانہ ہوگئے۔ 

آنحضرتﷺ کی مجلس میں بیٹھےآپ ؐ کی باتیں غور سے سنیں، پھر واپس آکرحضرت ابوذرؓ کو بتایا۔ ’’مَیں اُن سے مِلا ہوں، اُنھیں خُود دیکھا ہے، وہ لوگوں کو اچھے اخلاق کا حکم دیتے ہیں اور مَیں نے اُن سے جو کلام سُنا، وہ کسی بشر کا نہیں ہے۔‘‘ حضرت ابوذرؓ نے سوال کیا کہ’’لوگ اُن کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ انیس بولے۔ ’’مکّہ کے لوگ انھیں جادوگر یا شاعر کہتے ہیں۔‘‘ حضرت ابوذرؓ نے کہا۔ ’’میرے بھائی! جس مقصد کے لیے میں نے تمہیں بھیجا تھا، مجھے اس کی پوری طرح تشفّی نہیں ہو ئی۔‘‘

آخر انہوں نے خُود سامانِ سفر باندھا۔ پانی سے بھرا ایک پُرانا مشکیزہ ساتھ لیا اور مکّہ چلے آئے۔ بھائی انیس نے آگاہ کردیا تھا کہ مکّہ والے خطرناک لوگ ہیں، اُن سے ذرا بچ کر رہیے گا۔ حضرت ابوذرؓ خانہ کعبہ میں آنحضرتﷺ کو تلاش کرتے رہے۔ پہچانتے نہیں تھے، بھائی کے مشورے کے پیشِ نظر کسی سے پوچھنا بھی مناسب نہیں تھا۔ 

کچھ رات گزر گئی، خانہ کعبہ کے ایک کونے میں لیٹے ہوئے تھے کہ اسی دوران سیّدنا حضرت علی مرتضیٰؓ کا اُدھر سے گزر ہوا۔ وہ اُن کی حالت دیکھ کر سمجھ گئے کہ کوئی مسافر ہے۔ حضرت علی ؓنے اُن سے کہا۔ ’’لگتا ہے، آپ مسافر ہیں، میرے گھر چل کر آرام کرلیں۔‘‘ حضرت ابوذرؓ اُن کے ساتھ ہولیے۔ لیکن اس دوران کسی نے ایک دوسرے سے بات نہیں کی۔ جب صبح ہوئی، تو حضرت ابوذر ؓ نے اپنا مشکیزہ اور توشہ اُٹھایا اور مسجد الحرام میں آگئے۔ 

یہ دن بھی یوں ہی گزر گیا۔ وہ حضور اکرمﷺ کو نہ دیکھ سکے۔ شام ہوئی، ابھی سونے کی تیاری کرہی رہے تھے کہ حضرت علیؓ کا وہاں سے پھرگزر ہوا۔ وہ انہیں پھر اپنے ساتھ گھر لے آئے۔ آج بھی دونوں نے ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی۔ اب تیسرا دن آگیا، رات سونے سے پہلے حضرت علیؓ نےانہیں اپنے گھر لے جاتے ہوئے راستے میں پوچھا ۔’’کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ آپ کے یہاں آنے کا مقصد کیا ہے؟‘‘

حضرت ابوذرؓ نے کہا۔ ’’اگر آپ مجھ سے یہ پختہ عہد کرلیں کہ میری راہ نمائی کریں گے، تو میں آپ کو سب کچھ بتادوں گا۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب وعدہ کرلیا، تو حضرت ابوذرؓ بولے۔ ’’مَیں بہت دور سے سفر کرکے مکّہ آیا ہوں تاکہ نئے پیغمبر سے مل سکوں اور اُن کے ارشادات سن سکوں۔‘‘ 

حضرت علیؓ یہ سُن کر بہت خوش ہوئے فرمایا۔ ’’بلاشبہ وہ حق پر ہیں اور اللہ کے سچّے رسول ہیں۔ اچھا جب صبح ہوجائے، تو آپ میرے ساتھ چلیے گا، اگر راستے میں مجھے کوئی خطرہ نظر آیا، تو میں کسی دیوار کے قریب کھڑا ہوجاؤں گا، اُس وقت آپ میرا انتظار مت کیجیے گا اور جب مَیں دوبارہ چلنے لگوں، تو میرے پیچھے آجائیے گا، تاکہ کوئی سمجھ نہ سکے کہ یہ دونوں ساتھ ہیں۔ اور اس طرح احتیاط کے ساتھ جس گھر میں مَیں داخل ہوں، اُس میں آپ بھی داخل ہوجائیے گا۔‘‘ انہوں نے ایساہی کیا اور پیچھے پیچھے چلتے رہے، یہاں تک کہ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ (صحیح بخاری حدیث 3522)۔

ابوذرؓ مشرف بہ اسلام ہوگئے:حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے آنحضرتﷺ سے عرض کیا کہ’’ اسلام کے اصول و ارکان مجھے سمجھا دیجئے۔ آپؐ نے میرے سامنے ان کی وضاحت فرمائی اور مَیں مسلمان ہوگیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا ’’اے ابوذر! اس معاملے کو ابھی پوشیدہ رکھنا اور اپنے شہر لوٹ جانا۔ پھر جب اللہ ہمیں غلبہ عطا فرمادے گا اور تمہیں معلوم ہوجائے گا، تب یہاں دوبارہ آجانا۔‘‘ مَیں نے عرض کیا۔ ’’اے اللہ کے رسولﷺ! اُس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ 

مَیں تو مکّہ والوں کے سامنے اسلام کے کلمے کا اعلان کروں گا۔‘‘ چناں چہ مَیں مسجد الحرام میں آیا۔ قریش کے لوگ وہاں موجود تھے۔ اُن کے سامنے بہ آواز بلند کہا۔ ’’اے قریش کی جماعت، سُنو! میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اُس کے رسولﷺ ہیں۔‘‘ حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ’’ میرا یہ اعلان سُن کر قریش چراغ پا ہوگئے۔ وہ سب میری طرف لپکے، وہ مجھے بے دین کہتے جاتے اور مارتے جاتے، یہاں تک کہ مَیں مرنے کے قریب ہوگیا۔‘‘

حضرت عباسؓ کا ایثار: اسی اثناء، حضورﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ وہاں آگئے اور انہوں نے جب یہ منظر دیکھا، تو تیزی سے میرے پاس آئے اور مجھ پر ڈھال بن گئے، پھر قریشیوں کو مخاطب کرکے فرمایا۔ ’’ارے نادانو! قبیلہ غفار کے آدمی کو قتل کرتے ہو۔ کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے تمام تجارتی قافلے قبیلہ غفار کے درمیان ہی سے گزرتے ہیں۔‘‘ 

یہ سُن کر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ جب دوسری صبح ہوئی، تو پھر میں مسجدِ حرام میں آیا اور توحیدِ و رسالت کی صداقت کا جو اعلان کل کیا تھا، اُسے پھر دُہرایا۔ قریشیوں نے کہا۔ ’’پکڑو اس بے دین کو۔‘‘ پھر جو کچھ انہوں نے کل میرے ساتھ کیا، اس ظلم و بربریت کو دوبارہ دُہرایا۔ 

اتفاق سے عباسؓ بن عبدالمطلب پھر وہاں آگئے اور مجھ پر ڈھال بن کر جیسا انہوں نے کل کہا تھا، ویسا ہی قریشیوں سے آج بھی کہا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوذرؓ کے اسلام قبول کرنے کی ابتدا اس طرح ہوئی تھی۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر 3522)۔

اور آدھا قبیلہ مسلمان ہوگیا:حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ ’’جب مَیں مکّہ آیا، تو مَیں نے ایک ناتواں شخص سے دریافت کیا کہ تم جس شخص کو صابی (بے دین) کہتے ہو، وہ کہاں ملے گا؟ یہ کہنا تھا کہ اس شخص نے میری طرف اشارہ کر کے، صابی کا شور مچایا۔ یہ سن کر وہاں موجود تمام لوگوں نے مجھ پر حملہ کردیا، یہاں تک کہ مَیں بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ 

جب ہوش آیا، تو مَیں نے دیکھا کہ مَیں سر سے پاؤں تک خون میں لت پت ہوں۔ پھر مَیں زم زم کے پاس آیا۔ خون دھویا اور آبِ زم زم پیا۔ مَیں وہاں تیس دن اور تیس راتیں رہا، میرے پاس سوائے آبِ زم زم کے، کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا، جب بھوک لگتی، تو اُسی کو پیتا۔ 

پھر مَیں فربہ ہوگیا، یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بٹ مڑگئے۔ رسول اللہﷺ سے ملا، تو آپؐ نے فرمایا ’’تم یہاں کب آئے؟‘‘ مَیں نے عرض کیا۔ ’’یہاں تیس رات اور دن سے ہوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’تمہیں کون کھلاتا ہے؟‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’صرف زم زم کا پانی پیتا ہوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’زم زم کا پانی برکت والا ہے، وہ کھانے کی طرح پیٹ بھر دیتا ہے۔‘‘ سیّدنا ابوبکر صدیق ؓ نے کہا۔ ’’یارسول اللہﷺ!کیا آج کی رات مَیں انہیں اپنا مہمان بنالوں؟‘‘ حضور اکرمﷺ نے اجازت مرحمت فرمائی۔ مَیں حضرت صدیقِ اکبرؓ کے گھر آگیا۔ 

انہوں نے مجھے طائف کی سوکھی کشمش کھانے کو دیں۔ یہ پہلا کھانا تھا، جو مَیں نے مکّے میں کھایا۔ رسول اللہﷺ نے مجھے حکم دیا کہ مَیں اپنی قوم میں واپس جاؤں اور انھیں دین کی دعوت دوں، چناں چہ واپس آیا، بھائی انیس سے ملا، اُسے ایمان کی دعوت دی، پھر ہم دونوں اپنی ماں کے پاس آئے، انہیں مسلمان کیا، پھر اپنی قوم کو دین کی دعوت دی۔ چناں چہ آدھی قوم اس وقت مسلمان ہوگئی اور آدھی ہجرتِ مدینہ کے بعد مسلمان ہوئی۔ (صحیح مسلم 6359)۔

مناقب: غزوئہ بدر، احد اور خندق میں حضرت ابوذرؓ شریک نہ ہوسکے۔ ان ایّام میں آپؓ اپنے گاؤں میں قیام پذیر تھے۔ اس کے بعد آپؓ مسجد میں آجاتے اور اہلِ صفہ کے ساتھ وقت گزارتے۔ اگر بارگاہِ رسالتؐ میں کوئی چیز تقسیم ہوتی تو آپؓ سے ابتدا کی جاتی۔ اگر آپ ؓ موجود نہ ہوتے تو آپؓ کو تلاش کروایا جاتا۔ (تاریخ ابن عساکر 66/187)سونا، چاندی جمع کرنا آپؓ کو سخت نا پسند تھا۔ ایک دفعہ کسی نے پوچھا۔ ’’آپؓ دوسروں کی طرح اپنی جائیداد کیوں نہیں بناتے؟‘‘ 

ارشاد ہوا۔ ’’مجھے امیر بننے کی خواہش نہیں۔‘‘ ایک شخص نے آپؓ کے پاس آکر کچھ مال پیش کیا، تو آپؓ نے فرمایا۔ ’’میرے پاس دودھ کے لیے ایک بکری، سواری کے لیے ایک گدھا اور خدمت کے لیے بیوی ہے۔ ایک چادر ضرورت سے زائد ہے، جس کی وجہ سے مَیں خوف زدہ رہتا ہوں کہ کہیں مجھ سے اس کا حساب نہ لیا جائے۔‘‘ امام جعفرصادقؓ نے حضرت ابوذرؓ کی عبادت سے متعلق فرمایا۔’’

حضرت ابوذرؓ کی بیش تر عبادت غور و فکر پر مبنی تھی، خدا کے خوف سے اس قدر روتے کہ آنکھوں میں زخم ہوجاتے۔‘‘ امام جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ’’ حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں، مجھے تین چیزیں ایسی ملی ہیں، جنہیں لوگ نا پسند کرتے ہیں، مگر مَیں پسند کرتا ہوں، یعنی موت، غربت اور بیماری۔‘‘ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’ اے ابوذرؓ! تم نیک آدمی ہو، عن قریب میرے بعد تم پر آزمائشیں آئیں گی۔‘‘ آپؓ نے عرض کیا۔ ’’راہِ خدا کی آزمائشؓ؟‘‘ارشاد ہوا۔ ’’ہاں راہِ خدا میں‘‘عرض کیا۔ ’’حکم الٰہی کو خوش آمدید۔‘‘ (تاریخ ابن عساکر 66/192)۔

غزوئہ تبوک میں شرکت: حضرت ابوذر غفاریؓ غزوئہ تبوک میں شریک تھے۔ آپؓ کا اونٹ لاغر اورکم زور تھا۔ چلتے چلتے تھک گیا اور ایک مقام پر اس نے آگے چلنے سے انکار کردیا، تو حضرت ابوذر ؓنے اپنا اسباب اپنے کندھے پر رکھا اور پیدل روانہ ہوئے، جب رسول اللہﷺ کے لشکر کے قریب پہنچے، تو صحابہؓ نے آنحضرتؐ سے عرض کیا کہ ’’یارسول اللہﷺ! ایک آدمی پیدل چلا آرہا ہے۔‘‘

رسول اکرمﷺ نے فرمایا۔ ’’ابوذرؓ ہوں گے۔‘‘ جب وہ نزدیک آئے، تو اس شخص نے عرض کیا۔ ’’یارسول اللہﷺ! خدا کی قسم، وہ ابوذرؓ ہی ہیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’ابوذرؓ پر خدا رحم کرے، تنہا پیدل چلتا ہے، تنہاہی مرے گا اور تنہاہی قبر سے اُٹھے گا۔‘‘(سیرت ابنِ ہشام، جلد 2صفحہ 327)۔

حضرت ابوذر غفاریؓ وفات پاگئے: رسول اکرمﷺ کی رحلت کے بعد حضرت ابوذرؓ بھی مدینہ چھوڑ کر شام کے ایک دیہات میں جا بسے۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیّدنا عمر فاروقؓ کے اختتامِ خلافت تک وہیں مقیم رہے۔ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں دمشق پہنچے، لیکن مسلمانوں کی مال و دولت سے رغبت اور دنیا سے پیار دیکھ کرسخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ امیر المؤمنین سیّدنا عثمان غنیؓ نے انہیں مدینہ بلوالیا۔ 

آپؓ مدینہ تشریف تو لے آئے، لیکن مسلمانوں کی دنیا سے رغبت دیکھ کر بڑے دل برداشتہ ہوئے۔ معاملات کو مزید خرابی سے بچانے کے لیے حضرت عثمانؓ نے انہیں مدینے کے ایک دیہات ربذہ منتقل ہونے کا حکم دیا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمانؓ نے حضرت ابوذرؓ کو مقامِ ربذہ کی طرف منتقل کیا اور وہاں وہ بیمار ہوئے، تو اُن کے پاس اُس وقت صرف اُن کی بیوی اور ایک غلام تھا۔ 

انہوں نے اُس وقت وصیّت کی کہ ’’میری وفات کے بعد غسل دلواکر کفن دینا اور پھر جنازہ راستے کے بیچ میں رکھ دینا، جو پہلا شخص راستے سے گزرے، اُس سے کہنا کہ یہ ابوذرؓ صحابئ رسول ؐ کا جنازہ ہے، اُن کی تدفین میں ہماری مدد کرو۔‘‘ چناں چہ اُن کے انتقال کے بعد ان کی اہلیہ اور غلام نے ایساہی کیا۔ نہلانے اور کفن دینے کے بعد جنازہ راستے میں رکھ کر وہاں سے گزرنے والے پہلے شخص کا انتظار کرنے لگے۔

اتنے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اہلِ عراق کے چند افراد کے ساتھ اُس طرف سے گزرے اور عین راستے میں جنازہ دیکھ کر ٹھٹکے تو حضرت ابورذر غفاری کے غلام نے کھڑے ہوکر بہ آواز بلند کہا۔ ’’یہ جنازہ رسول اللہﷺ کے صحابی، ابوذر غفاریؓ کا ہے۔ اے راستے سے گزرنے والو!  ان کی تدفین میں ہماری مدد کرو۔‘‘ 

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فوراً اونٹ سے نیچے اُترے اور کہا۔ ’’لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ پھر جنازے کے قریب بیٹھ گئے اور روتے ہوئے کہا۔ ’’رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا تھا کہ ابوذرؓ تنہا پیدل چلتا ہے۔ تنہاہی مرے گا اور تنہاہی قبر سے اُٹھے گا۔‘‘ اور پھر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے غزوئہ تبوک میں حضرت ابوذرؓ کا قصّہ بیان کیا اور حضرت ابوذرؓ کو سپردِ خاک کر کے چلے گئے۔(سیرت ابنِ ہشام، جلد 2،صفحہ328،329) آپؓ کی وفات23ہجری میں ہوئی۔