• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماحولیاتی تبدیلیاں آج ایک سنگین عالم گیر مسئلے کا رُوپ دھار چُکی ہیں، جو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی طورپربھی پوری دنیا کو متاثر کررہی ہیں اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ اس سنگین مسئلے پر سنجیدگی سے غورکیا جائے اور کُرّۂ ارض کو تباہی سے بچانے کے کچھ ٹھوس عملی اقدامات کیے جائیں۔ ہر سال 5جُون کو’’عالمی یومِ ماحولیات‘‘ منایا جاتا ہے، تاکہ ماحول کے تحفّظ کی اہمیت اُجاگر اور عوام میں اس کی بہتری کا شعور بےدار کیا جائے۔ 

رواں برس اقوامِ متّحدہ کی جانب سے مذکورہ عالمی یوم کا تھیم ’’پلاسٹک کی آلودگی کا خاتمہ‘‘ مقرر کیا گیا ہے اور اِس ضمن میں منعقدہ تقریبات کی میزبانی جنوبی کوریا کررہا ہے، جس کےجزیرے، ’’جیجو‘‘ میں عالمی یوم کی مرکزی تقریبات منعقد ہوں گی اور جسے مقامی حکومت نے 2040ء تک ’’پلاسٹک زیرو آئی لینڈ‘‘ بنانے کا عزم کیا ہے۔ 

یہ یقیناً ایک خوش آئند اَمر ہے۔ یاد رہے، اگر ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کے لیے بروقت اور بھرپور کوششیں نہ کی گئیں، تو آئندہ نسلوں کے زمین پہ رہنےکے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہوگی۔

فی الحال زمین ہی اِس کائنات میں موجود وہ واحد سیّارہ ہے، جو اپنے فطری توازن اور موسمی اعتدال کے باعث زندگی کے لیے ایک سازگارماحول فراہم کرتا ہے اور یہ موسمیاتی اعتدال ہی زمین پر حیات کی بنیاد ہے، لیکن تیز رفتارصنعتی ترقّی، غیر ذمّےدارانہ طرزِ زندگی، فضائی آلودگی، ایندھن کے حد سے زیادہ استعمال اور درختوں کی بےدریغ کٹائی نے اس توازن کو بُری طرح بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہر چند کہ گزشتہ نصف صدی میں ٹیکنالوجی نے دُنیا کو ایک نئی شکل دی ہے، لیکن اس ترقّی کی قیمت زمین کے قدرتی وسائل نے چُکائی۔ 

آج ایندھن کا بےتحاشا استعمال زمین کے درجۂ حرارت کو بڑھا رہا ہے اور یہ درجۂ حرارت اب اس حد تک جا پہنچا ہے کہ اس کے منفی اثرات واضح دکھائی دینے لگے ہیں۔ دُنیا بَھر میں موسموں کی شدّت میں اضافہ، غیرمتوقّع بارشیں، برف باری، سیلاب، زلزلے، طوفان، فصلوں کی پیداوار میں کمی اور نِت نئی بیماریوں کا جنم لینا اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں رُونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب پاکستان سمیت کئی ممالک میں اب بہار کا موسم تقریباً ختم ہوتا جارہا ہے۔ موسمِ سرما کے فوراً بعد ہی موسمِ گرما کا آغاز ہوجاتا ہے اور اس دوران نہ صرف شدید گرمی پڑتی ہے، بلکہ موسمِ گرما کا دورانیہ بھی خاصا طویل ہوچُکا ہے اور صرف پاکستان ہی نہیں، برِاعظم ایشیا کےدیگر ممالک بھی اسی خطرناک صورتِ حال سے دوچار ہیں۔

پھر ایمازون،کیلی فورنیا کے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات اورقُطبی برف کے تیزی سے پگھلنے کا عمل وغیرہ یھی اس اَمر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ اب کوئی بھی خطّہ موسمی تغیّرات سے محفوظ نہیں رہا۔ دوسری جانب کرّۂ ارض کی سطح کے نیچے موجود ٹیکٹونک پلیٹس کی مسلسل حرکت اور ان کی غیرمعمولی سرگرمی زلزلوں کی ایک بڑی وجہ بنتی جا رہی ہے۔ 

اسی طرح شدید گرمی کے باعث عملِ تبخیر میں بھی اضافہ ہوا ہے، جو بارشوں اور سیلاب میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ گرچہ ان بارشوں کے باعث وقتی طور پر درجۂ حرارت کم ہو جاتا ہے، لیکن بعدازاں یہ زمین کی ساخت، زرخیزی، آبادیوں اور دریاؤں کے بہاؤ کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ 

علاوہ ازیں، موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں زیرِزمین پانی بھی تیزی سے کم ہو رہا ہے اور ماہرین خبردار کرچُکے ہیں کہ اگلے تیس برسوں میں کئی خطّے پانی کی شدید قلّت کا سامنا کریں گے، جب کہ کئی ساحلی شہر زیرِ آب بھی آسکتے ہیں، جن سے لاکھوں لوگوں کی زندگی متاثر ہوگی۔

اگر ان تمام عوامل کی خرابی کی وجہ تلاش کی جائے،توپتاچلتا ہےکہ خُود انسان ہی اپنے فطری مسکن کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ قدرتی نظام میں مداخلت، درختوں کی بےدریغ کٹائی، ایئرکنڈیشنرز، گاڑیوں اور صنعتوں سے خارج ہونے والی مضر گیسز، مصنوعی سیّارچوں کا ملبہ اور جدید اسلحہ سازی جیسے عوامل ہمارے ماحول کو بگاڑنے میں بڑا کردار ادا کررہے ہیں۔ 

نیز، آلودگی کے سبب اوزون کی تہہ، جو زمین کو سورج کی ضرررساں شعاعوں سے محفوظ رکھتی ہے، اب پہلے کی نسبت کہیں زیادہ متاثر ہو چُکی ہے اور اسی سبب زمین کے درجۂ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ واضح رہے، درخت نہ صرف آکسیجن فراہم کرتے ہیں، بلکہ یہ زمین کا درجۂ حرارت برقرار رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، مگر بدقسمتی سے سرسبز جنگلات کو فرنیچر کی تیاری، ایندھن اور دیگر تجارتی مقاصد کے لیے بے رحمی سے ختم کیا جارہا ہے، جب کہ شجرکاری کے رُجحان میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔ 

اگر درخت لگائے بھی جاتے ہیں، تو اکثر مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب ضائع ہوجاتے ہیں۔ دوسری جانب مصنوعی کھادوں اور کیمیکلز سے تیار کی جانے والی فصلیں نہ صرف انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ یہ زمین کی زرخیزی بھی ختم کررہی ہیں۔ یہی نہیں، آلودہ پانی کا استعمال اور فُضلے کی نکاسی کا ناقص انتظام آبی حیات اور ماحول کے لیے مُہلک ثابت ہو رہا ہے۔

یاد رہے، اسلامی تعلیمات میں ماحول کی حفاظت کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے، تو درخت لگانے کو صدقۂ جاریہ قرار دیا گیا ہے، جب کہ زمین پرفساد پھیلانے کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں، قرآنِ مجید اور احادیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی، جن میں قدرتی وسائل بھی شامل ہیں، قدر اور حفاظت کی تلقین کی گئی ہے، مگر بدقسمتی سے آج ہم ان تعلیمات ہی سے غافل ہوچُکے ہیں اور اسی کا خمیازہ بھی بُھگت رہے ہیں۔

اقوامِ متّحدہ نے 2015ء میں عالمی سطح پر 17 پائے دار ترقیاتی اہداف (SDGs) طے کیے، جن میں سے 9 اہداف براہِ راست ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ہیں اور یہ اہداف اس اَمر کی غمّازی کرتے ہیں کہ دُنیا مستقبل کے سنگین خطرات کو بھانپ چُکی ہے، لیکن اس ضمن میں عملی اقدامات کی رفتار بہت سُست ہے۔

یاد رکھیں، ماحولیاتی تحفّظ کے لیےیہ کانفرنسز، سیمینارز، آگہی مہمّات اور سرکاری منصوبے اُس وقت تک بےاثر رہیں گے، جب تک ماحول کو آلودگی سے بچانے کے سنجیدہ عملی اقدامات نہیں کیے جاتے اور ماحول دوست اقدامات میں سب سے پہلا، مؤثر ترین اقدام درخت لگانا ہے۔

اگر ہر فرد سال میں صرف ایک بھی درخت لگائے اور اس کی مناسب دیکھ بھال کرے، تو شجرکاری کے مثبت نتائج سامنےآسکتے ہیں۔ نیز، پلاسٹک اور گاڑیوں کے کثرتِ استعمال اور پانی کے زیاں کی حوصلہ شکنی، توانائی کے متبادل ذرائع جیسا کہ شمسی توانائی کے استعمال اور صفائی سُتھرائی سے بھی آلودگی کو کم کیا جاسکتا ہے۔ عالمی یومِ ماحولیات ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے ماحول کی بہتری کے لیے بھرپورجدوجہد کریں اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھیں۔

یہ ہم سب کی مشترکہ ذمّےداری ہے کہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور صحت مند ماحول چھوڑ کر جائیں۔ اگر آج ہم اس زمین کو بچانے میں اپنا کردار ادا نہیں کریں گے، تو ہمارے بعد آنے والی نسلیں ہمیں اپنا مجرم ٹھہرائیں گی۔ سو، ہمیں چاہیے کہ اپنے تئیں جس قدر کوشش کرسکتے ہیں، لازماً کریں۔

اگر کوئی شخص پودا نہیں لگا سکتا، تو کم ازکم دوسروں کو ماحول کے تحفّظ سے متعلق آگہی فراہم کرے کہ یہ چھوٹی چھوٹی کاوشیں ہی بڑی تبدیلی کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ زمین ہمارا مشترکہ گھر ہے اور اِس کے فطری نظام کی برقراری، زرخیزی اور خُوب صُورتی، ہمارا اجتماعی فریضہ ہے اور یہ فریضہ کسی ایک طبقے، ادارے یا حکومت تک محدود نہیں، یہ ہرشخص کی دینی، اخلاقی اور سماجی ذمّے داری ہے کہ وہ اپنے حصّےکا چراغ جلائے، تاکہ آنےوالی نسلیں ایک محفوظ زمین پر پُرسکون زندگی بسر کرسکیں۔