سائنس اور ٹیکنالوجی کی ہوش رُبا ترقّی کے نتیجے میں آئے روز نِت نئی ایجادات اور علوم سامنے آ رہے ہیں اور ان سے کماحقہ شناسائی رکھنے والے افراد و اقوام ہی دُنیا سے قدم سے قدم ملا کر چل سکتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے مُلک میں تعلیم یافتہ افراد کی اکثریت بھی بیش تر جدید علوم اور ان کی اہمیت سے واقفیت نہیں رکھتی، جن میں کاروباری و مالیاتی امور سے متعلق علم، کمپیوٹیشنل فنانس بھی شامل ہے۔
واضح رہے کہ ہمارا پڑوسی مُلک، بھارت آئی ٹی کے ذریعے سالانہ اربوں ڈالرز کما رہا ہے، جب کہ ہم اپنے مُلک میں کروڑوں باصلاحیت نوجوانوں کے ہوتے ہوئے صرف چند ارب ڈالرز قرض کے حصول کے لیے نہ صرف آئی ایم ایف کی منّت سماجت بلکہ اس کی کڑی شرائط بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔
یاد رہے کہ مالی سال 2023ء میں صرف آئی ٹی اور بز نس مینجمنٹ کے شعبے میں بھارت کو 245ارب ڈالرز کی آمدنی ہوئی، جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان نے مالی سال23 -2022ءکی پہلی سہ ماہی کے دوران مختلف آئی ٹی سروسز کے ذریعے 633ملین کا زرِ مبادلہ حاصل کیا۔ ایسی صورتِ حال میں پاکستان میں کمپیوٹیشنل فنانس اور اس کی افادیت سے متعلق آگہی کو فروغ دینا اشد ضروری ہے۔
ریاضی کے ماڈلز کے اطلاق اور مالی مسائل کے حل کے لیے 20ویں صدی کے وسط میں کمپیوٹیشنل فنانس کا آغاز ہوا اور اس ضمن میں ماہرینِ اقتصادیات، ریاضی دانوں اور کمپیوٹر سائنٹسٹس کی جانب سے کئی قابلِ ذکر اقدامات کیے گئے۔ مثال کے طور پر ماہرِ اقتصادیات ہیری مارکو وٹز نے 1950ء کی دہائی میں سب سے پہلے جدید پورٹ فولیو تھیوری پیش کی۔ 1970ء کی دہائی میں فشر بلیک، مائرون شولز اور رابرٹ مرٹن نے آپشن پرائسنگ کے لیے ’’بلیک شولز میرٹن ماڈل‘‘ تیار کیا، جس نے مالیات کے شعبے میں استعمال ہونے والے مقداری طریقوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔
بعد ازاں، کمپیوٹنگ کی دُنیا میں پیش رفت، مالیاتی ڈیٹا کی وسیع پیمانے پر دست یابی اور 20ویں صدی کے آخر اور 21ویں صدی کی ابتدا میں جدید ترین ریاضیاتی ماڈلز اور الگورتھم کی ترقّی کے نتیجے میں کمپیوٹیشنل فنانس کی ایک الگ شعبے کے طور پر مقبولیت میں تیزی آئی۔ واضح رہے کہ کمپیوٹیشنل فنانس ایک ایسا شعبہ ہے، جو مالیاتی اعداد و شمار اور مسائل کے ضمن میں الگورتھم اور ریاضی کے ماڈلز تیار اور لاگو کرنے کے لیےمالیات، ریاضی، شماریات اور کمپیوٹر سائنس کو یک جا کرتا ہے۔
کمپیوٹیشنل فنانسنگ میں مالیاتی منڈیوں کے تجزیے، خطرات سے نمٹنے کے انتظامات، سرمایہ کاری کے فیصلے، مالیاتی آلات کی قیمتوں اور پیچیدہ مالیاتی مظاہر کو سمجھنے کے لیے مختلف طریقوں کا استعمال کیا جاتا ہے، جن میں عددی نقّالی، اصلاح، شماریاتی تجزیہ، مشین لرننگ، پورٹ فولیو مینجمنٹ اور خدشات کے جائزے سمیت دیگر طریقۂ کار شامل ہیں۔ ان طریقوں کی مدد سے ایسے ماڈلز تیار کیے جاتے ہیں، جو مارکیٹ کے اُتار چڑھائو اور رجحانات کی پیش گوئی کرتے ہوئے سرمایہ کاروں، تاجروں، مالیاتی تجزیہ کاروں اور اداروں کو فیصلہ سازی میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں، کمپیوٹیشنل فنانس ممکنہ خطرات اور منافعے کی ماڈلنگ کے ذریعے قیمتوں کے تعیّن میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ نیز، مالیات کے کمپیوٹیشنل طریقے مالیاتی اداروں کو دُرست ڈیٹا اور خدشات کا جائزہ فراہم کرکے ریگولیٹری تقاضوں کی تعمیل میں بھی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر کمپیوٹیشنل فنانس جدید مالیاتی نظام میں فیصلہ سازی بڑھانے، خطرات سے نمٹنے اور زیادہ مؤثر مالیاتی نظام کے لیے ٹیکنالوجی اور ریاضیاتی ماڈلز کے ذریعے ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
پاکستان میں کمپیوٹیشنل فنانس کے فروغ کے لیے سرکاری سطح پر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ اس ضمن میں جامعات کے نصاب میں کمپیوٹیشنل فنانس کی شمولیت اوّلین شرط ہے۔ یعنی مستقبل کے پروفیشنلز کو تربیت فراہم کرنے کے لیے کمپیوٹیشنل فنانس کے شعبے سے متعلق خصوصی کورسز یا ڈگری پروگرامز کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح مختلف تعلیمی و تحقیقی اداروں کو فنڈز فراہم کر کے انہیں کمپیوٹیشنل فنانس کے حوالے سے تحقیق کی جانب راغب کیا جائے۔
اس شعبے سے متعلق ایپلی کیشنز بنانے کے لیے مالیاتی اداروں، ٹیکنالوجی کمپنیز اور تعلیمی اداروں کے درمیان شراکت داری کو فروغ دیا جائے۔ کمپیوٹیشنل فنانس کا تجربہ حاصل کرنے کے لیے طلبہ کو انٹرن شپ دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔اس شعبے کی ترقّی کے ضمن میں کیے جانے والے اقدامات کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت گرانٹس، سبسڈیز یا ٹیکس مراعات کی شکل میں اپنا تعاون فراہم کرے۔ ایسے پیشہ ورانہ نیٹ ورکس اور ایسوسی ایشنز قائم کی جائیں، جو خود کو مذکورہ علم کی ترویج و ترقّی کے لیے وقف کر دیں۔ مذکورہ پلیٹ فارمز علم کے اشتراک، رہنمائی اور کیریئر میں ترقّی کے مواقع بھی فراہم کر سکتے ہیں۔
کمپیوٹیشنل فنانس پر توجّہ مرکوز کرنے والے اسٹارٹ اپس اور انکیوبیٹرز کے قیام کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ نئے نئے آئیڈیاز اور ٹیکنالوجیز کو پروان چڑھانے کے لیے وسائل اور مدد فراہم کی جائے۔ اسی طرح اس کی اہمیت اور اس شعبے میں کیریئر کے مواقع سے متعلق علم فراہم کرنے کے لیے جامعات، کالجز اور مالیاتی اداروں میں آگہی مُہم شروع کی جائے۔ فنانس انڈسٹری میں پہلے سے کام کرنے والے ہُنر مند افراد کی تربیتی پروگرامز اور سرٹیفکیٹس کے ذریعے حوصلہ افزائی کی جائے کہ اس کے نتیجے میں انہیں کمپیوٹیشنل طریقۂ کار اور متعلقہ ٹیکنالوجیز کو اپنانے میں مدد ملے گی۔
مذکورہ بالا تجاویز پر عمل درآمد سے مُلک میں کمپیوٹیشنل فنانس کی ترقّی اور اسے اپنانے، ٹیلنٹ کو پروان چڑھانے، اختراع کو فروغ دینے اور مُلک کے مالیاتی منظرنامے کی توسیع کے حوالے سے ایک سازگار ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ پاکستان میں کمپیوٹیشنل فنانس کے استعمال کو فروغ دے کر زیادہ سے زیادہ زرِمبادلہ حاصل کیا جائے اور قرضوں سے نجات پاکر مُلک کو ترقّی خوش حالی کی شاہ راہ پر گام زن کیا جائے۔ (مضمون نگار، این ای ڈی یونی ورسٹی، کراچی سے کمپیوٹیشنل فنانس میں گریجویٹ ہیں اور ایک مقامی بینک میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔)