بات چیت: وحید زہیر، کوئٹہ
عکّاسی: رابرٹ جیمس
اردو، انگریزی اور براہوی زبان میں 70سے زائد کتب کے مصنّف، ڈاکٹر عبدالرحمٰن براہوی کا شمار مُلک کے اہم ماہرینِ تعلیم، قانون دانوں اور دانش وَروں میں ہوتا ہے۔ وہ بلوچستان کے پہلے پی ایچ ڈی ہیں، جب کہ ڈبل پی ایچ ڈی کرنے والوں میں بھی سرِفہرست ہیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ وہ براہوی زبان کے تحفّظ کے لیے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے ہیں، تو بے جانہ ہوگا۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اُن کی کتب میں’’براہوی زبان و ادب کی مختصر تاریخ‘‘،’’براہوی لوک کہانیاں‘‘،’’براہوی کھیل‘‘، ’’اردو براہوی لغت‘‘،’’براہوی اردو کا تقابلی مطالعہ‘‘،’’ بلوچستان میں دینی ادب‘‘،’’بلوچستان میں عربوں کی فتوحات‘‘، ’’بلوچستان میں دیوانی تنازعات‘‘،’’براہوی رسم‘‘،’’قدیم براہوی شعراء‘‘،’’قائدِ اعظم اور اہلِ بلوچستان کے درمیان خط و کتابت‘‘ اور’’ ایوب خان کی پالیسی، بلوچستان سے متعلق‘‘ نمایاں ہیں۔ ڈاکٹر عبدالرحمٰن براہوی اِن دنوں انتہائی کسم پرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اپنی خدمات کے ضمن میں حکومتی ناانصافیوں پر نالاں ہیں۔گزشتہ دنوں ایک نشست میں اُن کے ساتھ ہونے والی گفتگو جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔
س: اپنے خاندانی پس منظر، ابتدائی زندگی، تعلیم و تربیت سے متعلق کچھ بتائیں؟
ج: ہمارا تعلق کہیری قبیلے سے ہے۔ ہمارے بزرگ ایران سے یہاں آئے اور محمّد شہی قبیلے سے وابستہ ہوئے۔ ہم ہفت ولی کی اولاد میں سے ہیں۔ دادا، نعمت السیال کا مزار سنی شوران سے آگے بٹیاری میں ہے، جب کہ پر دادا، فقیر امام بخش کے نام سے معروف تھے۔میرے والد، مرزا خان نے محکمۂ پولیس میں ملازمت اختیار کی، جنھیں برٹش گورنمنٹ نے اعلیٰ کارکردگی پر کئی تغموں اور تعریفی اسناد سے نوازا۔ مَیں 15مئی 1940ء کو کوئٹہ کے علاقے، ہدہ میں پیدا ہوا۔
پرائمری کے بعد سنڈیمن ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ 1957ء میں میٹرک فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ پنجاب یونی ورسٹی سے گریجویشن کے بعد ایس ایم لاء کالج، کراچی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد معاشی طور پر تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑا۔ہم سردیوں میں مجبوراً سبّی جیسے گرم علاقے میں خانہ بدوشوں کی طرح چلے جاتے اور وہاں چٹائی کی جھونپڑی بنا کر رہتے۔ اس دوران والد کے ایک تھانے دار دوست نے اُنھیں یومیہ اُجرت پر سینما میں چوکیداری پر مامور کروایا۔میٹرک کے بعد میری پڑھائی کا سلسلہ رُک گیا تھا، کیوں کہ اُس وقت پرائیویٹ امتحان صرف اساتذہ اور لائبریرین ہی دے سکتے تھے۔
مَیں نے ٹیچر کے لیے ملازمت کی درخواست دی، تو مجھے کوئٹہ سے دُور اوستہ محمّد کے ایک گائوں میں تعینّات کردیا گیا، جہاں جانا میرے لیے ممکن نہ تھا، سو،وہ ملازمت جوائن نہ کر سکا۔1968 ء میں عام افراد کو بھی پرائیویٹ امتحان کی اجازت ملی، تو مَیں نے امتحانی فارم تو حاصل کرلیا، مگر تصویر بنوانے کے پیسے نہیں تھے۔ ایک دوست، ارباب رحمت کے ماموں فوٹو گرافر تھے، تو اُن کی سفارش پر مفت تصویر بن گئی۔ فیس بَھرنے میں بھی مشکلات پیش آئیں۔
والدہ اپوا میں کام کیا کرتی تھیں، جہاں مسز مارکر اُن کی انچارج تھیں۔ اُنہوں نے کالج ہیڈ کے نام سفارشی خط لکھا کہ’’ گُل بی بی کے بیٹے کو داخلہ دیاجائے،اُس کے اخراجات ہم برداشت کریں گے۔‘‘ والدہ نے وہ خط میرے حوالے کیا، مگر میری غیرت نے گوارا نہ کیا کہ اِس طرح داخلہ لوں۔ وہ خط مَیں نے اپنے پاس محفوظ کرلیا۔اِسی دوران محکمۂ زراعت میں کلرک بھرتی ہوگیا۔ میرے کولیگ، حافظ رفیق نے دفتر کے بعد ایک نام وَر وکیل، عزیز اللہ میمن کے دفتر میں بطور ٹائپسٹ کام کا مشورہ دیا۔
یوں 90روپے ماہانہ پر وہاں کام شروع کردیا۔اِس طرح قانون کے شعبے میں دل چسپی پیدا ہوئی۔ مَیں جو لیٹر ٹائپ کرتا، اُس کی ایک کاربن کاپی اپنے لیے بھی بنا لیتا، جسے گھر جا کر بار بار پڑھتا۔ بعدازاں، قانون کی ڈگری کے بعد مَیں نے وکالت شروع کی، تو میرے بہت سے مقدمات ہائی کورٹ میں بھی لگتے تھے، جہاں چیف جسٹس اجمل میاں نے میرے کام سے متاثر ہوکر مجھے جج بنانے کی آفر کی۔
چوں کہ اُن دنوں ججز کی تن خواہیں انتہائی قلیل تھیں، تو مَیں نے انکار کردیا، جس پر اُنہوں نے مجھے طعنہ دیا کہ’’ کیا آپ اپنے لوگوں کی خدمت کرنا نہیں چاہتے؟‘‘ یہ بات میرے دل کو لگ گئی اور مَیں نے بطور جج کام کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ میرا 14 سال تک صوبے کے مختلف اضلاع میں تبادلہ ہوتا رہا، تو اِس نا انصافی پر مَیں چیف جسٹس امیر الملک مینگل کے دَور تک دہائی دیتا رہا، مگر میری فریاد لاحاصل ہی رہی،جب کہ مجھ سے جونیئر ہمیشہ کوئٹہ میں رہے۔شاید میرا سچ بولنا سب کو ناگوار گزرتا تھا۔ آخری برسوں میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے طور پر طویل خدمات کے بعد مجھے بلوچستان ہائی کورٹ کا جج بنایا گیا۔
س: ہمارے ہاں عمومی طور پر مقدمات کی طوالت کے اسباب کیا ہوتے ہیں؟
ج: عدالتوں کا سیاست میں ملوّث ہونا اور ججز کی جانب داری انصاف کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں دراصل بااختیار افراد بگڑے بچّے ثابت ہورہے ہیں۔
س: بلوچستان کا قبائلی کلچر بھی حصولِ انصاف میں ایک بڑی رکاوٹ ہے؟
ج: یہ بات درست نہیں۔مَیں نے اپنے قبائلی سردار، محمّد زمان محمّد شہی کو فیصلے کرتے دیکھا ہے۔ جرگوں میں ملزم سب کے سامنے اقرارِ جرم اور گواہان بلا خوف وخطر گواہی دیتے ہیں، اِسی لیے’’جرگہ سسٹم‘‘ اب بھی کام یاب ہے۔ عدالتوں میں پولیس سے لے کر بعض وکلاء اور ججز تک کو متاثرین سے کوئی خاص ہم دردی نہیں ہوتی۔
وقت گزاری اور غیر ضروری بحثوں سے متاثرین کو تھکا دیا جاتا ہے۔نیز، گواہان کی زندگیاں بھی محفوظ نہیں ہوتیں۔ جب جج صاحبان کی ساسیں اور دیگر رشتے دار عدالتی معاملات میں مداخلت کریں، تو آپ خود اندازہ لگائیں، کس قسم کے نتائج برآمد ہوں گے۔ اب قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے بعد بہت سی توقّعات وابستہ ہوئی ہیں، بشرطیکہ اُنھیں کام کرنے دیا جائے۔
س: ادب کی طرف کیسے آئے؟
ج: جب مَیں میٹرک میں تھا، تو میرے مضامین مختلف ادبی رسائل و جرائد اور اخبارات میں چَھپتے تھے، یوں کہہ سکتے ہیں کہ لکھنے پڑھنے کا شغل طالبِ علمی کے دَور ہی سے رہا ہے۔
س: راہوی زبان کے فروغ اور تحفّظ کا خیال کیسے آیا؟
ج: نیپ کی حکومت تھی اور میر گل خان نصیر وزیرِ تعلیم تھے۔ اُنہوں نے ایک موقعے پر بلوچستان میں سرکاری سطح پر تحریر و تقریر کے ضمن میں محض بلوچی اور پشتو زبانوں کا ذکر کیا، جس سے براہوی زبان بولنے والوں اور ہم ادیبوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔ مَیں نے دوستوں کے ساتھ مل کر تحریک چلائی اور ایک چیلنج سمجھ کر براہوی کے تحقیقی و تخلیقی ادب کے کاموں میں تیزی لائے۔ ریڈیو سے ہفتے میں ایک روز براہوی کے صرف تین گانے نشر ہوتے تھے، یعنی براہوی زبان کا حصّہ صرف دس منٹ ہوا کرتا تھا۔
ریڈیو پروڈیوسر، ظفر مرزا نے بھی لٹریچر کی کمی کا سوال اُٹھایا۔ مَیں نے اندرونِ مُلک اور بیرونِ مُلک کتب خانوں کو خطوط لکھے۔ براہوی زبان کے قدیم نسخے جمع کیے۔ پاکستان کی کسی بھی لائبریری سے میرے خطوط کا جواب نہیں آیا، البتہ انڈیا آفس لائبریری اور لندن برٹش میوزیم سے البرٹ گار نے مجھے انگریزی کی وہ کتابیں بھجوائیں، جن میں براہوی زبان کے حوالے سے مواد شامل تھا۔
اِس ضمن میں میرا 18 صفحات پر مبنی پہلا آرٹیکل’’ ماہِ نو‘‘ میں 1966ء میں چَھپا، تو لوگ حیران ہوئے کہ براہوی زبان میں بھی اِتنا لٹریچر موجود ہے۔ 1979ء میں، مَیں لندن برٹش میوزیم گیا۔ البرٹ گارسے ملاقات ہوئی، مَیں نے اُنہیں اُن کے خطوط دِکھائے، تو وہ میرے جنون اور کام سے بے حد متاثر ہوئے۔ اُنہوں نے مجھے مزید کام کی سہولتیں بھی فراہم کیں۔
س: آپ بلوچستان یونی ورسٹی سے بھی وابستہ رہے؟
ج: جی، جی۔ ہماری براہوی زبان کی تحریک سے کئی فائدے حاصل ہوئے۔ ریڈیو میں براہوی کا دورانیہ بڑھ گیا۔ اخبارات و رسائل نکلنے شروع ہوئے۔ یونی ورسٹی کے پاکستان اسٹڈیز میں شعبۂ براہوی قائم ہوا۔ مَیں اردو میں ایم اے کرچکا تھا۔ لیکچرار کی اسامی کے لیے درخواست جمع کروائی۔نام وَر ماہرِ تعلیم، پروفیسر کرار حسین وائس چانسلر تھے۔
اُنہوں نے مجھے اردو کی بجائے براہوی کا لیکچرار منتخب کیا۔ ادیب، عالم اور فاضل کی کلاسز کا آغاز ہوا۔نصاب کے لیے مَیں اور ریڈیو پاکستان، کوئٹہ کے پروڈیوسر، غلام حیدر حسرت ہوٹلوں میں سر جوڑ کر بیٹھے اور نصاب مرتّب کیا۔
س: سُنا ہے کہ آپ کے پاس تاریخی کتب اور آثارِ قدیمہ کا خزانہ ہے؟
ج: میری تمام تاریخی اشیاء اور کتابیں مٹّی اور دیمک کی نذر ہو رہی ہیں۔میرے پاس185 پرانے قلمی نسخے ہیں۔ شاہ جہاں اور بامیان والے سکے، روس کے1917 ء کے نوٹ وغیرہ ہیں۔میری بیٹی شکیلہ رحمان، جو خود بھی قلم کار ہیں، انٹرنیٹ پر دیکھ کر کہتی ہیں’’ بابا! ان اشیاء کی عالمی مارکیٹ میں کروڑوں روپے قیمت بنتی ہے۔‘‘ مَیں خاموشی سے اُن کی باتیں سنتا ہوں۔مَیں نے دیانت داری کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔
ایک سرکاری ملازم، جو تن خواہ پر زندگی گزارتا ہے، اُسے ایسی اشیاء کی حفاظت کے لیے سرکاری سطح پر تعاون کی ضرورت ہوتی ہے، مگر بدقسمتی سے ہم صرف سیاست، سیاست کھیل رہے ہیں ۔ مثبت اور تعمیری کاموں میں حکم رانوں کی کوئی دلچسپی نہیں۔ بلوچستان میں قدیم سنڈیمن لائبریری کو نہ صرف ختم کیا گیا، بلکہ اس کی نایاب کتابیں بوریوں میں بَھر کر پھینک دی گئیں۔
س: اِس سلسلے میں کسی سے بات ہوئی؟
ج: کس سے بات کروں۔ ہمارا صوبائی ثقافت کا محکمہ پانچ، چھے برسوں سے کتابوں پر ایوارڈ دینے سے قاصر ہے، حالاں کہ ایوارڈ کی مد میں پیسے سیڈمنی کے طور پر جمع ہیں۔موجودہ وزیرِ اعلیٰ علی مردان ڈومکی کے علاقے لہڑی سے تعلق رکھنے والے سلطان محمّد کا 970ہجری میں فارسی میں ترجمہ کیا ہوا قرآنِ مجید کا قلمی نسخہ بھی میرے پاس ہے۔ مَیں نے خود بھی قرآنِ مجید کے چھے پاروں کا ترجمہ مکمل کرلیا ہے، مگر مالی حالات اور خرابیٔ صحت کی وجہ سے بہت سے کام مکمل ہونے کے منتظر ہیں۔ان مسائل اور مشکلات کا تذکرہ مختلف فورمز پر کرتا رہتا ہوں، مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔
س: یونیسیکو کی ایک رپورٹ کے مطابق براہوی زبان معدوم ہونے جارہی ہے؟
ج: 1925ء میں مارجس رائے نے لکھا تھا کہ یہ زبان آئندہ ایک سو سال میں معدوم ہوجائے گی۔ اِس بات کو ایک سو سال ہونے کو ہیں اور اِس وقت براہوی زبان پر پاکستان کے علاوہ اٹلی، جاپان، روس، بھارت اور دیگر ممالک میں بے شمار کام ہو رہا ہے۔ یہاں بہت سے اسکالرز اس کے مختلف پہلوؤں پر پی ایچ ڈی کرچکے ہیں۔
یہ یونی ورسٹی سمیت کئی تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل ہے۔ علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، قائدِ اعظم اور نمل یونی ورسٹی میں اِس کے شعبے قائم ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی پر اس کی نشریات کا دورانیہ مختص ہے۔اس زبان میں ہزاروں کتابیں چَھپ چُکی ہیں۔مطلب یہ ہوا کہ براہوی معدوم نہیں، مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔
س: اس کی قدامت سے متعلق آپ کیا کہتے ہیں ؟
ج: خروشتی زبان میں کجولہ کدفیز کے راجا کے سکّے ملے ہیں، جن پر براہوی زبان کے الفاظ کندہ ہیں۔ڈنمارک کے ڈاکٹر آسکو پرپولا نے موہن جو دڑو پر تحقیق کی ہے اور جو الفاظ ڈی سائفر کیے ہیں، وہ بھی براہوی کے ہیں۔ موہن جو دڑو بذاتِ خود ایک براہوی لفظ ہے، جسے ہم’’مون انا دھڑو‘‘ کہتے ہیں۔ بلوچستان میں تحقیق کے لیے بہت زیادہ وسائل اور حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے، معدنیات کے خزانوں کے علاوہ آثارِ قدیمہ کی دریافت ،میوزیم کے قیام اور سیّاحوں کی دل چسپی مدّنظر رکھ کر حکومت کو منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔
س: کہا جاتا ہے کہ موجودہ تاریخ دان قوم کو علمی معاملات میں اُلجھا رہے ہیں؟
ج: یہ درست ہے، کیوں کہ تاریخ نویسی سمیت تمام شعبوں میں غیر متعلقہ افراد کو شامل کرکے نفرت، تعصّب اور گم راہی پیدا کی جارہی ہے، جس کی وجہ سے ہم تنزلّی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کی بڑی مثال سیاست میں غیر سنجیدگی اور نظریاتی علوم سے فرار ہے۔ بقا کے ضامن اداروں کا حلیہ بگاڑ کر ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہماری کرنسی، پاسپورٹ اور تجارت کو پالیسی سازوں کی غیر سنجیدگی سے بڑا دھچکا لگا ہے۔
قابل اور مخلص لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔قیامِ پاکستان کے بعد سے سچ کو جھوٹ میں بدلنے پر توانائیاں خرچ ہوتی رہی ہیں۔خود ساختہ تاریخ بیان کرکے مُلک چلانے کی کوششوں سے ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور اس کی وجہ سے مغالطے ہی مغالطے جنم لے رہے ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اب جدید علوم میں حقائق کو پوشیدہ رکھنے کی گنجائش ہی نہیں۔
س: آپ کو آج کل کیا رہ رہ کے یاد آتا ہے؟
ج: اپنے دَور کی سادگی ، غربت میں محبّت، انسانیت، دل جوئی کا جذبہ، بے غرضی، سب کی دُکھ درد میں شمولیت، باضمیر انسانوں پر مبنی معاشرہ، میرے دوست ڈاکٹر عبدالنبی( مرحوم) اور عبدالرئوف بلوچ کی آنہ لائبریری اور بڑے بھائی میر ہزار خان کا صبح سے شام تک راہ چلتے کسی نُکڑ یا کھیل کے میدان میں طلبہ کو پڑھانا یاد آتا ہے۔ جب کوئی پرانا دوست مل جائے، تو گھنٹوں اپنے بیتے دنوں، واقعات اور خُوب صُورت شخصیات کو دیر تک یاد کرتے ہیں۔