• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

" جیو " کے پروگرام "خبر ناک" سے شہرت پانے والے اداکار علی میر کو دیکھ کر میں سوچتا تھا کہ آخر اسکے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ راتوں رات مقبولیت کے سنگھاسن پر براجمان ہو گیا۔ فن کار تو وہ مکمل ہیں، ان کے پاس آواز اور چہرے کی لچک ہے۔ وہ جب چاہے کسی کی بھی آواز اپنے منہ سے نکال سکتے ہیں اور جب چاہے کسی کا بھی چہرہ اپنے چہرے پر سجا سکتے ہیں۔ لیکن مکمل فن کار تو بہت سے ہیں۔ انھیں وہ شہرت اور عزت کیوں نہ مل سکی جو آزاد کشمیر سے آئے ہوئے اس جوان رعنا کو بہت تھوڑے عرصے میں مل گئی۔ اگلی سطروں میں آپ کو اس سوال کا جواب مل جائے گا۔ چند روز قبل میں اپنے دوست حسیب پاشا صاحب کے ساتھ علی میر صاحب سے ملاقات کے لیے’’جیو‘‘ کے دفتر گیا۔ ہمارا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹہ ان کے پاس بیٹھیں گے اور واپس آ جائیں گے لیکن ہماری یہ ملاقات ساڑھے تین گھنٹے پر محیط ہو گئی۔ ان سے بات چیت کرنے کے بعد پتا چلا کہ اللہ تعالیٰ ان پر مہربان کیوں ہے؟ بذلہ سنجی، شگفتہ مزاجی اور علم کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انھیں وضع داری، خاطر داری، محبت، مروت، سادگی، خدمت، احترام، انکسار، احتیاط، درد مندی اور سنجیدگی جیسے اوصاف سے بھی نوازا ہے۔ علی میر کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ ان کے اندر کہساروں کی خاموشی، جلال و جمال، بلندی اور خزینہ داری سب موجود ہے۔ انھوں نے نہایت بے تکلفی کے ساتھ پر تکلف چائے پلائی۔ جس طرح میں اپنے گھر میں چپل، شرٹ اور ٹرائوزر پہنے رہتا ہوں وہ بالکل اسی طرح ’’جیو‘‘ میں اپنے دفتر میں ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ گویا وہ ’’جیو‘‘ کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ میری خواہش پر تصویر بنائی جانے لگی تو بولے:’’سر! میں آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ لوں؟‘‘ہم رخصت ہونے لگے تو ’’جیو‘‘ کی تیسری منزل سے گرائونڈ فلور تک چھوڑنے آئے۔ ہم رخصت ہونے لگے تو تیسری منزل سے زمینی منزل تک چھوڑنے آئے۔

اس ملاقات کے دو یا تین دن کے بعد علی میر صاحب نے مجھے فون کیا۔ کہنے لگے:’’کیا آپ میرے ساتھ جنت الفردوس میں چلیں گے؟ سوال غیر متوقع اور غیر فطری تھا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون دوزخ میں؟ میری حیرت کو بھانپ کر علی میر بولے:’’میرے کچھ درد مند دوستوں نے ’جنت الفردوس‘ کے نام سے ایک ٹرسٹ بنا رکھا ہے۔ اس کا مرکزی دفتر لاہور کی رائے ونڈ روڈ کے ایک دیہاتی علاقے میں بنایا گیا ہے جہاں لوگ ابھی صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ اس مرکزی دفتر میں یتیم اور بے سہارا بچیوں کیلئے ایک نہایت خوب صورت اور تمام ضروری سہولتوں سے آراستہ ایک قیام خانہ بنایا گیا ہے۔ ان بچیوں کو مہنگے اسکولوں اور کالجوں میں داخل کرایا گیا ہے۔ ہر روز انہیں ٹرسٹ کی گاڑی اسکول کالج لے کر جاتی اور دوپہر کو واپس لاتی ہے۔ اس قیام خانے میں بچیوں کو قرآن پاک پڑھایا جاتا ہے۔ نئے زمانے کے مطابق جینا اور زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا سکھایا جاتا ہے۔ یہاں ان کیلئے بہت سے تفریحی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں تاکہ ان کی روحانی اور تخلیقی شخصیت کی بھی تکمیل ہو سکے۔ فی الوقت اس قیام خانے میں کل 80 بچیاں مقیم ہیں اور ٹرسٹ کے چلانے والوں کیلئے جنت الفردوس کا راستہ بنا رہی ہیں۔‘‘ پھر انھوں نے مجھے بتایا کہ ہم نے ان بچیوں کے لیے آپ کے دوست حسیب پاشا المعروف ہامون جادوگر اور ان کی پوری ٹیم کو مدعو کر رکھا ہے۔ ہم سفر اچھا ہو تو مشکل سے مشکل سفر آسان ہو جاتا ہے۔ چنانچہ میں نے حسیب پاشا کے ساتھ جنت الفردوس میں جانے کا فیصلہ کیا۔ پاشا صاحب کے ساتھ وہاں پہنچا تو اداکار نور الحسن اور گلوکار ابرار الحق بھی آ گئے۔ یہ دونوں فن کار بھی میری اور حسیب پاشا کی طرح درد کے مارے ہوئے ہیں۔ کسی نے اپنا درد سنا دیا تو اپنا سب کچھ اس پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ چنانچہ یہ بھی ہم دونوں کی طرح ’’جنت الفردوس‘‘ میں مقیم یتیم بچیوں کے سروں پر دست شفقت رکھنے آگئے تھے۔ ہامون جادوگر نے اپنے منتروں سے اور ان کے ساتھ آئے ہوئے نوآموز اداکاروں نے اپنی بے ساختہ اداکاری سے جہاں یتیم بچیوں کے چہروں کو مسکراہٹوں کا تحفہ دیا وہاں دوسرے حاضرین محفل کو بھی لوٹ پوٹ کر دیا۔ پاشا صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ تفریح کے ساتھ ساتھ نہایت عمدہ اور قیمتی پیغام بھی دیتے جاتے ہیں۔ باتوں باتوں میں تمام چھوٹے بڑوں کو بڑے بڑے سبق دیتے جاتے ہیں۔ اسکولوں کالجوں کے اساتذہ جو اخلاقی باتیں اپنے طلبہ و طالبات کو دو چار سال میں رفتہ رفتہ سکھاتے ہیں، وہ باتیں پاشا صاحب ایک گھنٹے کے پروگرام میں بچوں کے دلوں میں اتار دیتے ہیں۔ اپنا شو کرنے کے بعد پاشا صاحب نے برملا اعتراف کیا کہ انھیں یہ شو کرنے کا لطف بس دو بار آیا۔ ایک بار بالا کوٹ کے زلزلے سے متاثرہ بچوں کے سامنے اور دوسری بار آج ’’جنت الفردوس‘‘ کی ذہین بچیوں کے سامنے۔ مولانا حالی نے کہا تھا: یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں۔ ’’جنت الفردوس‘‘ جیسا ادارہ چلانے والے لوگوں کو شہرت کا شوق ہے نہ دولت کمانے کا۔ وہ تو بس چپ چاپ خدمت کا کام کیے جا رہے ہیں۔ انھوں نے چند بچیوں کیلئے اس دنیا کو جنت بنانے کا راستہ چنکر دراصل اپنے لیے جنت کمالی ہے۔ اس پروگرام میں علی میر کا انہماک اور وارفتگی دیکھ کر مجھے پتا چل گیا کہ اس کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے جو اسے شہرت اور عزت کے سنگھاسن پر بٹھائے ہوئے ہے۔ وہ اس ادارے کی بچیوں کیلئے اپنا قیمتی وقت نکالتا ہے۔ دامے، درمے، قدمے اور سخنے ان کے ادارے کے ساتھ رہتا ہے۔ یہی خوبی میں نے منو بھائی میں بھی دیکھی تھی۔ غریبوں کے بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھنے کیلئے وہ کہیں بھی پہنچ جایا کرتے تھے۔

تازہ ترین