• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی نظریے یا مطالبے کے حصول کیلئے ،چاہے اس کا تعلق علاقائی ، نسلی ، لسانی یا مذہبی ہو اگر تشدد کا سہارا لیا جائے ،چاہے اس میں سیاست کی جتنی بھی آمیزش کرلی جائے،اس سے دوری اختیار کرنا ہی ،معاملہ فہمی اور درست رویہ ہوتا ہے کیونکہ جب تشدد کا راستہ چن لیا جاتا ہے تو اس میں لامحالہ ریاستی اہلکاروں سے لیکرعام شہریوں کے خون سے زمین سرخ کردی جاتی ہے اور اگر ایسی کسی تحریک کو کسی بھی قسم کی مدد فراہم کی جائے ،چاہے وہ صرف تحریر و تقریر تک ہی محدود کیوں نہ ہو ،اسے ان بے گناہ افراد کے قتل کی ذمہ داری سے استثنا حاصل نہیں ہو سکتا ۔ آج ہم جس عہد میں جی رہے ہیں وہ سیاسی عمل کا زمانہ ہے اس میں اسکی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے کہ دنیا کو تشدد کے حق میں کسی بھی دلیل سے قائل کر لیا جائے ۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ایریکا چینووتھ نے اس حوالے سے بہت زبردست تحقیق کی ہے انہوں نے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئےچلنے والی پر تشدد تحریکوں اور عدم تشدد کا راستہ چننے والی سیاسی جماعتوں کا بہت گہرا مطالعہ کیا اور’’ وائے سول ریزسٹنس ورکس دی اسٹرٹیجک ، لاجک آف نان وائیلنٹ کانفلکٹ‘‘ کے عنوان سے اپنی تحقیق کو کتابی شکل دی ۔

کتاب میں پروفیسر ایریکا چینووتھ نے انیس سو سے لے کر دو ہزار چھ تک چلنے والی 323 تحریکوں کو ایک سو ساٹھ سوالات کو ترتیب دے کر ان کا مطالعہ کیا ، ان کو جانچا اور اپنا نظریہ صرف پیش ہی نہیں کیا بلکہ ثابت بھی کیا کہ تشدد آمیز سیاسی تحریکوں کے مقابلے میں عدم تشدد پر مبنی سیاسی تحریکیں کامیاب رہیں، ان تحریکوں کے کامیاب ہونے کی چار وجوہات کو بیان کرتے ہوئے وہ ایک اہم ترین وجہ یہ بیان کرتا ہے کہ ان تحریکوں نے اسکے باوجودکہ ان پر تشدد ہواجذبات کی رو میں بہہ کرخود تشدد کا راستہ اختیار نہ کیا بلکہ عدم تشدد پر ڈٹے رہے کیوں کہ وہ اچھی طرح سے جانتے تھے کہ اگر انہوں نے اپنا راستہ تبدیل کرتے ہوئے تشدد کا راستہ اختیار کرلیا تو ریاستی اداروں کیلئے یہ بہت آسان ہو گا کہ وہ انکو کچل ڈالے ۔ پروفیسر ایریکا چینووتھ نے جنوبی افریقہ کی جدو جہد آزادی کی کامیابی کے حصول کی بنیادی وجہ اس رویہ کو قرار دیا ہے جو سیاہ فاموں کی جانب سے سفید فام کاروباری افراد کے ساتھ اختیار کیا گیا تھا کہ ان کی مصنوعات کا سیاہ فاموں نے بائیکاٹ کر دیا تھا ،وہ سفید فاموں کے کارخانوں میں ملازمتیں کرتے رہے ، ان سے تنخواہيں وصول کرتے رہے مگر مصنوعات کو ہاتھ تک نہیں لگاتے تھے نتیجہ کے طور پر سفید فام کارخانے داروں کا زبردست معاشی نقصان ہوناشروع ہو گیا اور اس نقصان سے بچنے کیلئے سفید فام تاجروں اور کارخانے داروں کی با اثر تعداد نے سیاہ فاموں کے مطالبات کی حمایت کرنا شروع کردی اور پھر وہاں کی سفید فام حکومت کیلئے یہ دباؤ برداشت کرنا ممکن نہ رہا ۔ افریقن نیشنل كکانگریس کی یہ بہت عرق ریزی سے تیار کردہ حکمت عملی تھی جو مقصد کے حصول کیلئے تیر بہدف رہی ۔ جہاں کہیں بھی مطالبات کے حصول کیلئے عدم تشدد کا راستہ برقرار رکھا گیا وہاں پر ان ممالک کی نسبت جہاں پر تشدد آمیز سیاست رہی جمہوری تسلسل دس گنا زیادہ رہا اور جمہوریت چاہے لولی لنگڑی ہی کیوں نہ ہو اسکے ثمرات ضرور معاشرے کو ملتے ہیں ۔ اس ساری گفتگو کی وجہ یہ ہے کہ ابھی حال ہی میں بلوچستان سے مارچ کرتے ہوئے افراد اسلام آباد آئے مجھے کہتے ہوئے خوشی نہیں ہو رہی مگر حقیقت یہی ہے کہ ایک ڈرامہ کرنے کی کوشش کی گئی آخر بار بار ایسے اقدامات کرنے کے باوجود وہ مسائل حل تو کیا ہوتے کم بھی کیوں نہ ہو سکے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور میری رائےمیں یہ مسئلہ اس لئے بگڑتا جا رہا ہے کہ ان مطالبات کی آڑ میں تشدد کا طریقہ کار اختیار کر لیا گیا اور جہاں تشدد کا راستہ اختیار کرنیوالے مشکل میں پڑنے لگے تو انہوں نے عورتوں بچوں کو آگے کردیا تا کہ ہمدردیاں سمیٹی جا سکیں ۔ بلوچستان پر بات کرتے ہوئے یہ بات واضح رہے کہ میں اس وقت کسی مطالبہ کے حق بجانب یا غلط ہونے پر بحث نہیں کر رہا بلکہ مطالبات کے حصول کیلئے اختیار کئے گئے طریقہ کار کو زیر بحث لانا چاہتا ہوں ۔یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں تک کے بار بار قتل کو نظرانداز کردینا کسی بھی باشعور شخص کیلئے ممکن نہیں ۔ جو کچھ ابھی حال ہی میں اسلام آباد میں کیا گیا اسی طرح کا اقدام ماما قدیر کی سرکردگی میں بھی کیا گیا تھا مگر اسی ماما قدیر نے جب کلبھوشن یادیو کا معاملہ سامنے آیا تو اسکے حق میں اور اسکی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے میڈیا پر آکر ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیا اب کوئی الٹا بھی کھڑا ہو جائے تو بھی یہ ثابت نہیں کر سکتاکہ کلبھوشن یادیو کے معاملہ سے کسی بھی طرح بلوچستان کے معاشی یا سیاسی حقوق جڑے ہوئے تھے ۔ یہ دو ریاستوں کا باہمی معاملہ تھا مگر اس میں بھی کود گئے، اب اسکے بعد ایسی کسی تحریک کو صرف بلوچستان میں کسی ناانصافی کے تصور کے تحت تک محدود رکھنا ممکن نہیں رہتا ۔ بر سبیل تذکرہ بیان کرتا چلوں کہ اس سب کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں سیاسی تبدیلیوں کا امکان ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ نو منتخب حکومت سی پیک کو دوبارہ سے مزید متحرک کرےگی اور اس فعالیت کو روکنے کی غرض سے بلوچستان میں مذہبی و علاقائی دہشت گردی اور بے چینی کو فروغ دینے سے اس فعالیت کی راہ میںروڑے اٹکا ئے جائینگے اور یہ صرف الزام ہی نہیں یہ لوگ تو مودی کو راکھی باندھنے کی خواہش کا سوشل میڈیا پر کھل کر اظہار کرتے رہے ہیں جبکہ مودی بھی لال قلعہ سے تقریر کرتے ہوئے بلوچستان کو چھیڑتا رہا ہے ۔ ان تمام واقعات کو صرف کسی پولیس مقابلے تک محدود کردینا خلاف عقل ہوگا ۔

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

تازہ ترین