• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میں اپنا ووٹ کس کو دوں؟‘‘ دلاور فگار مرحوم کا یہ مشہور مصرع ہماری قومی زندگی سے جڑے نہایت اہم سوال کی صورت میں ایک بار پھر ملک کے تقریباً 13کروڑ رائے دہندگان کے سامنے ہے ۔یہ کوئی معمولی سوال نہیں ۔ اس کا غلط جواب ہمیں مزید تباہی سے دوچار کرسکتا جبکہ درست جواب بہتر مستقبل کی راہیں کھول سکتا ہے۔ انتخابی مہم میں سیاسی جماعتیں عموماً بڑے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں۔ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہادینے کے وعدے کیے جاتے ہیں جن کا ناقابل عمل ہونا اگرچہ پہلے دن ہی سے واضح ہوتا ہے لیکن ان کی دل فریبی سادہ دل لوگوں کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیتی ہے۔ عوام کی اس فریب خوردگی کا نتیجہ سیاستدانوں کے روپ میں سرگرم جعل سازوں کے ایوان اقتدار تک پہنچ جانے کی شکل میں نکلتا ہے مگر ان کی کارکردگی نہایت مایوس کن بلکہ تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ پاکستانی قوم اس تجربے سے بارہا گزر چکی ہے اور دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا یہ ملک اب مزید ایسے کسی تجربے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسلئے ہمیں ووٹ دینے کی اصل بنیاد سہانے مستقبل کے دکھائے جانے والے خوابوںکے بجائے سیاسی جماعتوں کی ماضی کی کارکردگی کو بنانا ہوگا کیونکہ آئندہ کے وعدے اسی کے قابل اعتبار ہوسکتے ہیں جس نے پہلے انہیں پورا کیا ہو،جھوٹے وعدوں کے سبزباغ دکھا کر قوم کو دھوکا نہ دیا ہو۔ماضی کی اطمینان بخش کارکردگی کے ریکارڈ کے ساتھ آج کے چیلنجوں کا قابل عمل حل اور قومی ترقی کا قابل فہم پروگرام پیش کرنے والی قیادت ہی سے یہ توقع وابستہ کی جاسکتی ہے کہ قادر مطلق اللہ رب العالمین کی تائید و نصرت سے وہ قوم کی بھنور میں پھنسی کشتی کو ساحل مراد تک پہنچائے گی۔ جنرل مشرف کے آمرانہ دور کے خاتمے کے بعد 2008ءسے 2021ءتک اقتدار میں رہنے والی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف شامل ہیں اور آنے والے الیکشن میں بھی وفاق میں حکومت سازی کے میدان میں اصل مقابلہ ان ہی کے درمیان ہوتا نظر آتا ہے۔ لہٰذا درست نتیجے تک پہنچنے کیلئے رائے دہندگان کو اپنے فیصلے کی بنیاد ان تینوں بڑی جماعتوں کی اپنی حکومتوں کی کارکردگی کو بنانا ہوگا۔ پی ڈی ایم کی سوا سالہ13 جماعتی حکومت کسی پارٹی کی کارکردگی کا فیصلہ کن پیمانہ نہیں بن سکتی ۔ تقابلی جائزے کایہ کام چند بنیادی اِشاریوں کی مدد سے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ اس معاملے میں کسوٹی اس سوال کو بنایا جا سکتا ہے کہ اقتدار سنبھالتے وقت ان جماعتوں کو معیشت، اشیائے صرف کی قیمتوں، ، بجلی گیس کی پیداوار، امن و امان، کرپشن، قومی یکجہتی اور خارجہ تعلقات وغیرہ کے حوالے سے ملک کس حال میں ملا اور اقتدار کے خاتمے پر انہوں نے اسے کس حال میں چھوڑا؟ ان جماعتوں کو اپنے انتخابی منشوروں کے ساتھ ان سوالوں کا جواب خود بھی قوم کوفراہم کرنا چاہیے اور لوگوں کو بھی دیکھنا چاہیے کہ ترقیاتی منصوبوں، بجلی کی پیداوار، لوڈ شیڈنگ، سرمایہ کاری ، نئی صنعتوں کے قیام، اسٹاک ایکسچینج، روپے کی قدر ، زرمبادلہ کے ذخائر، توازن تجارت، برآمدات و درآمدات اور خارجہ تعلقات کی کیفیت کس دور حکومت میں کیا رہی؟ کوشش کی جائے تو کم ازکم معیشت کے حوالے ایسا ایک تقابلی چارٹ تھوڑی سی تحقیق سے مرتب کیا جاسکتا ہے کہ 2008ء، 2013ء،2018 ءاور 2021 ءمیں یعنی پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے اقتدار سنبھالتے اور اقتدار چھوڑتے وقت بنیادی معاشی اشاریے کیا تھے۔ ان میں جی ڈی پی، شرح ترقی، زرمبادلہ کے ذخائر، ڈالر اور روپے کی قدر، توازن تجارت،اسٹاک ایکسچینج، اسٹیٹ بینک کی شرح سود، بجلی کی پیداوار اور مہنگائی کی شرح وغیرہ کو شامل کیا جانا چاہئے۔امن وامان کی صورت حال کا تعین ہر دور حکومت کے پہلے اور آخری سال میں دہشت گردی کے واقعات کی تعداد اور ان میں ہونے والی جانی نقصان کے اعداد و شمار سے کیا جاسکتا ہے۔ اس کسوٹی پر جو جماعت سب سے بہتر نظر آئے یقینا وہی ہمارے ووٹ کی اصل حقدار ہوگی ۔

تازہ ترین