• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدترین آئینی و معاشی بُحران، سیاسی ہل چل، دہشت گردی میں اضافہ

2023ء کے دوران خیبر پختون خوا کو بد ترین آئینی و معاشی بُحرانوں، دہشت گردی کے واقعات اور سیاسی ہل چل کا سامنا کرنا پڑا۔ چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف، عمران خان کی خواہش پر صوبائی اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل اور مُلک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاسی وابستگی کی بنا پر پوری نگراں کابینہ کو فارغ کر دیا گیا۔ نئی نگراں کابینہ کے انتخاب کے بعد نگراں وزیر اعلیٰ کے انتقال سے آئینی بُحران پیدا ہوا۔ 90روز میں انتخابات کے مطالبات اور دعووں کی گونج میں نگراں حکومت قائم رہی، مگر عام انتخابات نہ ہو سکے۔ 

وفاق کی جانب سے فنڈز اور واجبات کی عدم ادائی اور نگراں حکومت کی کم زور حکمتِ عملی کے باعث صوبہ شدید مالی مشکلات سے دوچار رہا۔ صوبے بھر میں ترقّی کا پہیہ جام، سرکاری امور ٹھپ اور نئی اسکیمز پر مکمل پابندی عاید رہی اور عوام کو صحت کارڈ کی صُورت میں دست یاب مُفت علاج معالجے کی سہولت سے بھی محروم کر دیا گیا۔ 

البتہ نگراں حکومت نے صوبے کے روزمرّہ امور چلانے کے لیے دو مرتبہ چار چار ماہ کے میزانیے کی منظوری دی۔ 9مئی کے فسادات اور پرتشدّد واقعات کے بعد مُلک بھر کی طرح خیبر پختون خوا میں بھی تحریکِ انصاف کے ستارے گردش میں رہے۔ 9مئی کو قومی املاک نذرِ آتش کرنے اور شہریوں کو اشتعال دلانے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ جاری رہی، جس کے نتیجے میں پورے صوبے میں تحریکِ انصاف کا شیرازہ بکھر گیا۔ 

پرویز خٹک نے سابق وزیرِ اعلیٰ، محمود خان سمیت پارٹی کے دیگر سابق صوبائی وزراء اور اراکینِ اسمبلی کے ساتھ مل کر ’’پاکستان تحریکِ انصاف پارلیمنٹیرینز‘‘ کے نام سے نئی پارٹی قائم کی۔ 2023ء میں صوبے میں دہشت گردی کے مہیب سائے مزید گہرے ہوئے، امن و امان کی صورتِ حال ابترہو گئی ۔ سیاسی اجتماعات پر خود کُش حملے ہوئے۔ نیز، مُلک کے دیگر شہروں کی طرح خیبرپختون خوا سے بھی لاکھوں غیر قانونی طور پر قیام پذیر غیر مُلکی باشندے رضا کارانہ طور پر اپنے آبائی وطن لوٹ گئے۔

صوبے کے سیاسی اُفق پر رُونما ہونے والے اہم واقعات کی بات کی جائے، تو 15جنوری کو چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف، عمران خان نے صوبائی کابینہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیرِاعلیٰ، محمود خان کو 17جنوری کو صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کرنے کا حُکم دیا۔ وزیرِاعلیٰ نے حُکم کی تعمیل کرتے ہوئے سمری گورنر کو ارسال کی، جنہوں نے 18جنوری کو سمری پر دست خط کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کر دی۔ 

اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگراں وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کے معاملے پر سابق وزیرِ اعلیٰ، محمود خان اورسابق اپوزیشن لیڈر، اکرم خان دُرّانی کے درمیان اختلافات سامنے آئے اور دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ نہ بیٹھنے کا اعلان کیا۔ بعدازاں، پرویز خٹک کی مداخلت کے نتیجے میں فریقین نہ صرف اسپیکر ہاؤس میں ایک دوسرے سے مشاورت پر آمادہ ہوئے، بلکہ نگراں وزیرِ اعلیٰ کے نام پر بھی اتفاق کرلیا۔ 

نگراں وزیرِ اعلیٰ کے عُہدے کے لیے اکرم دُرّانی نے محمد اعظم خان کا نام پیش کیا تھا، جس پر پارٹی چیئرمین سے مختصر مشاورت کے بعد محمود خان بھی متّفق ہو گئے۔ نگراں صوبائی کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ آیا، تو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل جماعتوں نے ارب پتی شخصیات کو کابینہ میں شامل کیا اور ان میں سے اکثر شخصیات پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی جماعتوں کے بعض رہنماؤں کے لیے ’’اے ٹی ایم‘‘ کا کام کرتی رہیں۔ واضح رہے کہ 2013ء اور 2018ء کی نگراں صوبائی کابینہ میں غیر سیاسی شخصیات شامل کی گئی تھیں اور کابینہ کا حجم بھی کم رکھا گیا تھا، مگر اس مرتبہ نہ صرف کابینہ کا حجم زیادہ رکھا گیا بلکہ سیاسی شخصیات کو بھی شامل کیا گیا۔ 

یہی وجہ تھی کہ نئی کابینہ کے ارکان کے نام سامنے آتے ہی نگراں حکومت کے سیاسی حکومت ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ دوسری جانب حیرت انگیز طور پر صوبے کی تاریخ کی غیر معمولی حد تک بڑی نگراں کابینہ کی تبدیلی و توسیع کا عمل بھی مسلسل جاری رہا ،جس کے باعث غیر جانب دار حلقوں کی جانب سے نگراں حکومت پر کڑی تنقید کی گئی۔ اس موقعے پر نہ صرف نگراں وزراء کی سیاسی وفاداریاں پوری طرح عیاں ہو گئیں بلکہ خود سیاسی جماعتوں نے بھی اس کا برملا اعتراف کیا اور پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک نگراں صوبائی وزیر نے سیاسی جلسہ بھی منعقد کر دیا۔ 

طُرفہ تماشا یہ کہ کابینہ کی تشکیل کے وقت الیکشن کمیشن کو پتا ہی نہ چلا کہ سیاسی کابینہ بنائی گئی ہے، لیکن جب تحریکِ انصاف کے صوبائی صدر نے ایک خط لکھ کر الیکشن کمیشن کی توجّہ اس جانب مبذول کروائی، تو الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک مکتوب کے ذریعے نگراں وزیر اعلیٰ کو ایسے تمام وزرا کو برطرف کرنے کی ہدایت کی گئی، جو کسی بھی قسم کا سیاسی پس منظر رکھتے تھے۔ ایسے میں نگراں وزیرِ اعلیٰ، محمد اعظم خان نے سوچ بچار کے بعد باعزّت راستہ اختیار کرتے ہوئے نگراں کابینہ کے اجلاس کے اگلے ہی روز چائے کی دعوت پر تمام ارکان سے استعفے طلب کرتے ہوئے ان پر واضح کیا کہ جو رکن استعفیٰ نہیں دے گا، اُسے بر طرف کردیا جائے گا اور یوں متنازع ترین صوبائی کابینہ رُخصت ہو گئی۔ 

بعد ازاں، ٹیکنو کریٹس پر مشتمل نئی کابینہ تشکیل دی گئی۔ تاہم، 11نومبر کو نگراں وزیر اعلیٰ کے اچانک انتقال کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر نگراں کابینہ کی تحلیل کی وجہ سے شدید آئینی بُحران پیدا ہوا، کیوں کہ آئین نگراں وزیرِ اعلیٰ کے انتقال کی صورت میں نئے نگراں وزیرِ اعلیٰ کی تقرّری کے حوالے سے خاموش ہے۔ اس موقعے پر گورنر خیبر پختون خوا، غلام علی نے نئے نگراں وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کے لیے سابق وزیرِ اعلیٰ، محمود خان اور سابق اپوزیشن لیڈر، اکرم دُرّانی سے مشاورت کی، جنہوں نے ایک ہی نشست میں جسٹس (ر) ارشد حسین شاہ کے نام پر اتفاق کر لیا۔

خیبر پختون خوا میں عام انتخابات کی بات کی جائے، تو سال بَھر ہی اس ضمن میں رسّاکشی جاری رہی۔ گرچہ گورنر خیبر پختون خوا نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں 28مئی کو انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا تھا، تاہم دو روز بعد ہی گورنر نے ’’یوٹرن‘‘ لیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو 9صفحات پر مبنی ایک نئی رپورٹ ارسال کی، جس میں انتخابات مؤخر کر کے نگراں حکومت کو توسیع دینے کی سفارش کی گئی۔ گورنر نے اپنی رپورٹ میں صوبے کے بعض علاقوں میں طالبان کی ’’متوازی حکومت‘‘ کے قیام کا خوف ناک انکشاف کرتے ہوئے صوبے میں فوری انتخابات کے انعقاد کو ناممکن قرار دیا۔ 

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ’’خیبر پختون خوا میں تحریکِ طالبان اور القاعدہ سمیت12 دہشت گرد تنظیمیں بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور سکیورٹی اہل کاروں پر حملوں میں ملوّث ہیں۔ قبائلی اضلاع میں امن و امان کی صورتِ حال انتہائی نازک ہے، جہاں سرحد پار سے دہشت گرد آکر آباد ہوگئے ہیں اور ان سے قبائلی عوام کو دیگر اضلاع کی نسبت 100فی صد زیادہ خطرہ ہے، جس کی وجہ سے سیاسی قائدین اور پولنگ عملے کے لیے آزادانہ نقل و حرکت ممکن نہیں۔ 

دوسری جانب انتخابات کے لیے 58ہزار اضافی سکیورٹی اہل کار بھی دستیاب نہیں، جب کہ مردم شماری جاری، حلقہ بندی کا مرحلہ درپیش اور مُلک معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔ چوں کہ عمران خان سمیت کئی سیاسی قائدین قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بہ یک وقت کروانے کا مطالبہ کررہے ہیں،اس لیے الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے سے قبل تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان مسائل کو حل کرے۔‘‘

گورنر خیبر پختون خواکی الیکشن کمیشن کو ارسال کردہ رپورٹ سے قطع نظر، 2023ء میں صوبے بَھر میں امن و امان کی حالت خاصی دِگرگوں رہی ۔ ٹارگٹ کلنگ اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کے بعد سیاسی اجتماعات پر بھی خود کُش حملے ہوئے۔ ضلع خیبر میں تین دن میں تین خود کُش حملوں کے بعد ضلع باجوڑ کی تحصیل، خار میں جمعیت علمائے اسلام کے اجتماع کو نشانہ بنایا گیا، جس میں جے یو آئی کے مقامی قائدین سمیت 60سے زاید افراد شہید اور 150شدید زخمی ہوئے۔ 

باجوڑ خود کُش دھماکا اس اعتبار سے خطرناک صورتِ حال کا عکّاس تھا کہ دہشت گردوں نے پہلی مرتبہ کسی ایسی مذہبی سیاسی جماعت کے اجتماع کو ہدف بنایا ، جو ماضی میں صوبے میں برسرِ اقتدار رہی ۔ سانحہ 9مئی کے بعد تحریکِ انصاف صوبہ خیبرپختون خوا میں بھی عتاب کا شکار رہی۔ قومی املاک نذرِ آتش کرنے پر بڑی تعداد میں پارٹی رہنماؤں ، کارکنوں کو گرفتار کیا گیااور اسی دوران پارٹی کے اُس وقت کے صوبائی صدر، پرویز خٹک نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے پارٹی کی صدارت چھوڑنے کا اعلان کیا اور 17جولائی کو ’’پاکستان تحریکِ انصاف پارلیمنٹرینز‘‘ کے نام سے ایک نئی پارٹی کے قیام کا اعلان کردیا۔ نیز، اس موقعے پر سابق وزیرِ اعلیٰ، محمود خان اور متعدد سابق صوبائی وزراء سمیت 57سابق منتخب ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی بھی عمران خان سے راہیں جُدا کر کے پرویز خٹک کے ہم سفر بن گئے۔

2023ء میں کے پی کے بد ترین انتظامی و مالی مشکلات سے بھی دوچار رہا۔ واضح رہے کہ خیبر پختون خوا وہ بدقسمت صوبہ ہے، جسے ہر دَور میں مرکز کی جانب سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، جب کہ صوبے کے مخصوص حالات بھی یہاں کے مکینوں کے لیے مستقل آزمایش بنے ہوئے ہیں۔ افغان جہاد سے لے کر دہشت گردی کی لہر تک سے خیبر پختون خوا ہی سب سے زیادہ متاثر ہوا ، جب کہ 2023ء میں تو صوبے میں حکومتی سرگرمیاں عملاً معطل ہو کر رہ گئیں۔ سیلاب اور پھر تحریکِ انصاف کی جانب سے صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے اعلانات کے بعد انتظامی امور تقریباً ٹھپ ہو گئے۔

گرچہ مرکز میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت قائم ہو چُکی تھی، لیکن صوبے سے عدم تعاون کا رویّہ برقرار رہا۔ جب تحریکِ انصاف کی حکومت رُخصت ہو رہی تھی، صوبہ بدترین مالی بُحران کا شکار تھا، ترقّیاتی منصوبوں پر کام رُک چُکا تھا اور حکومت کے پاس سرکاری ملازمین کی تَن خواہوں تک کے لیے پیسے نہیں تھے۔ بعد ازاں، رہی سہی کسر نگراں حکومت نے پوری کر دی۔ نگراں دَور میں صوبے کے لیے کوئی اچّھی خبر سامنے نہیں آئی، متعدد مرتبہ صحت کارڈ کے ذریعے مُفت علاج معالجے کی سہولت ختم کی گئی۔ 

بعد ازاں، عوامی دبائو پر صحت کارڈ کی سہولت محدود کرتے ہوئے صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے منسلک افراد ہی کو مفت علاج معالجے کا اہل قرار دیا گیا۔ فی الوقت بھی صوبے میں سیاسی و معاشی استحکام کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ صرف پَن بجلی کے خالص منافعے کی مد میں مرکز نے خیبرپختون خوا کے1500ارب روپے کے واجبات روک رکھے ہیں اور اگر دیگر مدات کا جائزہ لیا جائے، تو مرکز کے ذمّے صوبے کے دو سے ڈھائی سو ارب روپے کے واجبات ہیں، جن کی ادائی کے دُور دُور تک کوئی امکانات ہیں اور نہ ہی نگراں صوبائی حکومت میں اتنا دَم خم ہے کہ وہ نگراں وفاقی حکومت سے کچھ حاصل کر سکے۔

حکومت پاکستان کی جانب سے مُلک بھر میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر مُلکی شہریوں کو مُلک بدر کرنے کے اعلان کے بعد خیبر پختون خوا سے بھی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی اپنے آبائی وطن واپسی ہوئی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، صوبہ خیبرپختون خوا میں سکونت پذیر افغان مہاجرین کی مجموعی تعداد 9لاکھ 56ہزار 720ہے، جن میں سے 6 لاکھ 48 ہزار 39افغان مہاجرین رجسٹریشن کارڈز کے حامل ہیں، چناں چہ ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد بالخصوص افغان مہاجرین کی واپسی میں کافی تیزی آئی اور اب تک 2لاکھ سے زاید افغان مہاجرین رضاکارانہ طور پر اپنے مُلک واپس جا چُکے ہیں۔

یہاں یہ اَمر قابلِ ذکر ہے کہ جب افغان شہری مہاجرین کی صُورت پاکستان میں داخل ہوئے تھے،تو اُنہیں ہر قسم کی سہولتیں فراہم کی گئیں، لہٰذا بعض عناصر کی جانب سے ان کی واپسی کے عمل کو متنازع بناناسخت افسوس ناک ہے۔ افغان عمایدین کو اس طرح کے عناصر سے لاتعلقی کا اعلان کرنا چاہیے۔ نیز، افغان باشندوں کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اب ان کے مُلک میں امن و استحکام ہے۔ اُن کے آبائی علاقے آباد کاری کے قابل ہو چُکے ہیں۔ نیز، افغانستان میں رقبے کے اعتبار سے آبادی کا تناسب خاصاکم ہے، تو ایسے میں پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ واپس جا کر اپنے مُلک کی تعمیر و ترقّی میں کردار ادا کریں۔

2023ء میں خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کے 563واقعات رپورٹ ہوئے، جب کہ 243واقعات میں پولیس کو نشانہ بنایا گیا۔ ان واقعات میں جواں مردی سے مقابلہ کرتے ہوئے مجموعی طور پر 175پولیس اہل کاروں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ دہشت گردی کے سب سے زیادہ132واقعات ڈیرہ اسماعیل خان میں رُونما ہوئے۔ ضلع خیبر میں دہشت گردی کے 103، جب کہ پشاور میں 89واقعات پیش آئے۔ 

2023ء کا سب سے خوف ناک خود کُش بم دھماکا پولیس لائنز، پشاور میں ہوا، جس میں ڈی ایس پیز اور انسپکٹرز سمیت 84سے زاید پولیس اہل کار شہید اور 150سے زاید زخمی ہوئے۔ اسی طرح شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے 86اور جنوبی وزیرستان میں 50واقعات رپورٹ ہوئے، جب کہ صوبے بَھر سے 837دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا، جن میں پشاور سے245، خیبر سے 57، کوہاٹ سے 58اور چارسدّہ سے 39دہشت گردوں کو حراست میں لیا گیا۔