اگر سیاست کی بات کریں، تو صوبے میں 2023ء کی پہلی بڑی سیاسی خبر 12 جنوری کو سامنے آئی، جب گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی کوششوں سے ایم کیو ایم کے تینوں دھڑوں کے انضمام کا اعلان کیا گیا۔ اِس سلسلے میں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی، پاک سرزمین پارٹی کے رہنما مصطفیٰ کمال اور تنظیم بحالی کمیٹی کے قائد ڈاکٹر فاروق ستار نے بہادر آباد مرکز میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک ساتھ چلنے کا اعلان کیا۔ تین ہی روز بعد، یعنی15 جنوری کو کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کی صُورت ایک بڑا سیاسی ایونٹ ہونے جا رہا تھا، مگر ایم کیو ایم کے اِن تینوں دھڑوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔
بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کراچی سے پیپلز پارٹی پہلے، جماعتِ اسلامی دوسرے اور پاکستان تحریکِ انصاف تیسرے نمبر پر رہی، جب کہ حیدرآباد میں پیپلز پارٹی نے واضح برتری سے کام یابی حاصل کی۔ میئر کی نشست کے لیے پیپلز پارٹی کو جے یو آئی اور نون لیگ کی حمایت حاصل تھی، جس سے اُس کے ووٹس کی مجموعی تعداد 173ہوگئی، جب کہ جماعتِ اسلامی اور پی ٹی آئی اتحاد کے ساتھ192 ارکان تھے، لیکن15 جون کو پولنگ کے دوران اُس وقت ڈرامائی صُورتِ حال دیکھنے میں آئی، جب پی ٹی آئی کے30 ارکان الگ گروپ کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے انتخابی عمل سے الگ ہوگئے۔
یوں پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب173 ووٹ لے کر میئر منتخب ہوگئے، جب کہ جماعتِ اسلامی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمٰن160 ووٹ لے سکے۔ اِسی طرح ڈپٹی میئر کی نشست پر پیپلز پارٹی کے سلمان مُراد نے173 اور جماعتِ اسلامی کے سیف الدّین نے160 ووٹ حاصل کیے۔ پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی کا کہنا تھا کہ اُن کے حامی ارکان کو دھونس دھمکیوں کے ذریعے ووٹ دینے سے روکا گیا، جب کہ پیپلز پارٹی کے وزراء نے دعویٰ کیا کہ’’ اِن ارکان کا9 مئی واقعے کی وجہ سے ضمیر جاگا۔‘‘
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے دونوں امیدوار بلدیاتی انتخابات میں کسی نشست سے منتخب نہیں ہوئے تھے، بلکہ اُنھیں اِن عُہدوں پر فائز کروانے کے لیے پیپلز پارٹی نے بلدیاتی قانون میں ترمیم کی، جس کے تحت غیر منتخب شخص بھی اِن عُہدوں پر انتخاب لڑ سکتا ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے مذکورہ ترمیم کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع بھی کیا، مگر اُنھیں وہاں سے کوئی ریلیف نہیں مل سکا۔
9 مئی واقعے کے اثرات سندھ میں بھی سال کے آخر تک محسوس کیے جاتے رہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے خلاف کراچی کے کئی مقامات پر مظاہرے ہوئے، جس کے دَوران پی ٹی آئی کارکنان نے شاہ راہیں بند کرکے عوامی اور سرکاری املاک نذرِ آتش کیں، جس پر کئی تھانوں میں مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کرکے درجنوں افراد کو حراست میں لیا گیا۔ 9 مئی واقعے کے کچھ اثرات تو میئرکراچی کے انتخاب میں دیکھنے کو ملے، جب کہ صوبائی اسمبلی کی تحلیل سے قبل قائدِ حزبِ اختلاف کی تبدیلی کے پس منظر میں بھی یہی واقعہ کارفرما تھا۔
سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے رُکن اور قائدِ حزبِ اختلاف، حلیم عادل شیخ9 مئی واقعے کے بعد سے رُوپوش تھے۔ چوں کہ نگراں سیٹ اَپ کے لیے وزیرِ اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت ایک آئینی تقاضا ہے، اِس لیے بڑوں نے طے کیا کہ یہ عُہدہ پی ٹی آئی کے پاس نہیں رہنا چاہیے۔ یوں اسمبلی کی تحلیل سے چند روز قبل ایم کیو ایم کی رعنا انصار ،گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کی حمایت سے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بن گئیں۔ واضح رہے، ایم کیو ایم اُس وقت وفاق میں برسرِ اقتدار اتحاد میں پیپلز پارٹی کے ساتھ شامل تھی۔
سندھ اسمبلی اپنی آئینی مدّت کی تکمیل سے ایک روز قبل 11 اگست کو تحلیل کردی گئی، جس کے بعد وزیرِ اعلیٰ مُراد علی شاہ اور اپوزیشن لیڈر رعنا انصار کے درمیان مشاورت سے جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کو نگران وزیرِ اعلیٰ سندھ مقرّر کیا گیا۔ اِسی کے ساتھ صوبے میں عام انتخابات کی تیاریوں اور جوڑ توڑ کا آغاز ہوگیا۔ یکم دسمبر کو الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں نئی انتخابی حلقہ بندیوں کا نوٹی فکیشن جاری کیا گیا، جس کے تحت سندھ میں سانگھڑ سے قومی اسمبلی کی 3 میں سے 2 نشستیں رہ گئیں، جب کہ کراچی جنوبی میں قومی اسمبلی کی ایک نشست بڑھ کر 3 ہو گئیں۔
خیرپور کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں7 سے کم ہو کر 6، سانگھڑ کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 6 سے کم ہو کر 5، ٹھٹھہ کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں3 سے کم ہو کر 2ہو گئیں، جب کہ ملیر، کراچی ایسٹ اور کراچی سینٹرل میں صوبائی اسمبلی کی ایک، ایک نشست کا اضافہ ہوا۔حلقہ بندیوں اور اِس سے قبل مردم شماری کے نتائج پر مختلف اعتراضات بھی سامنے آئے۔ایم کیو ایم اور مسلم لیگ نون نے سندھ میں مل کر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا، تو جے یو آئی اور جی ڈی اے نے بھی پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابی اتحاد قائم کیا۔
2023ء اِس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس سال صوبے پر پیپلز پارٹی کے اقتدار کے مسلسل 15 برس مکمل ہوئے۔2022ء میں پیپلز بس سروس کے جس منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا، وہ 2023ء میں بھی نہ صرف یہ کہ جاری رہا، بلکہ اس میں مزید وسعت بھی آئی۔ صوبے کے تیسرے بڑے شہر، سکھر کے شہریوں کو یہ سفری سہولت دی گئی، تو کراچی میں بھی کئی نئے رُوٹس متعارف کروائے گئے۔ نیز، شہرِ قائد میں خواتین کے لیے پنک بس سروس کا بھی آغاز ہوا، جس سے ملازمت پیشہ خواتین کو خاصی سہولت میسّر آئی۔
تاہم، تمام تر اعلانات کے باوجود کراچی سرکلر ریلوے پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی، اِسی طرح ٹرانسپورٹ سے متعلق دیگر منصوبے بھی سُست روی کا شکار رہے۔صوبے کے لاکھوں سیلاب متاثرین دو برس گزرنے کے باوجود در بدر رہے۔ اِس ضمن میں گزشتہ برس سندھ حکومت نے’’ سندھ پیپلز ہاؤسنگ فار فلڈ ایفیکٹیز‘‘کے عنوان سے20 لاکھ سیلاب متاثرین کو گھروں کی فراہمی کے منصوبے کا اعلان کیا، جس کی میڈیا پر بھی خاصی تشہیر کی گئی، تاہم اس منصوبے پر اُس طرح کام نہیں ہوسکا،جیسے دعوے کیے جاتے رہے۔
کہا گیا کہ’’ سیلاب متاثرین کے لیے سندھ حکومت سے زیادہ گھر تو حدیقہ کیانی نے بنا دئیے ہیں۔‘‘گزشتہ برس سندھ کا’’ سسٹم‘‘ بھی میڈیا کی سُرخیوں میں رہا۔ دراصل یہ اصطلاح صوبے میں کرپشن کے منظّم نظام کی نشان دہی کرتی ہے، جس کے تحت مخصوص افراد ایک نیٹ ورک کے ذریعے مختلف اداروں اور شعبوں سے غیر قانونی طور پر مال اینٹھتے ہیں۔ اِس اصطلاح کا اِس قدر چرچا ہوا کہ ایک معروف صحافی نے آرمی چیف سے یہ بیان منسوب کیا کہ اُنھوں نے تاجروں اور صنعت کاروں کے ایک وفد کو ملاقات میں جہاں اسمگلنگ وغیرہ کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کی یقین دہانی کروائی، وہیں سندھ سے اِس سسٹم کی بیخ کنی کی بھی بات کی۔صوبے میں بڑھتی کرپشن ،غیر قانونی طور پر تعمیر ہونے والی بلند و بالا عمارتوں کی صُورت بھی جگہ جگہ نظر آتی ہے، جن کے خلاف گزشتہ برس عدالتوں میں مقدمات چلتے رہے۔
جج صاحبان نے متعلقہ اداروں کی سخت سرزنش کرتے ہوئے فوری کارروائی کے احکام صادر کیے، جن پر کم ہی عمل ہوا، تو اس حکم عدولی پر بھی نوٹس ہوتے رہے۔ اِس صُورتِ حال کا ایک تشویش ناک پہلو یہ بھی رہا کہ گزشتہ برس کئی عمارتوں میں آتش زدگی کے واقعات ہوئے، جن میں ایک درجن سے زاید افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تحقیقات سے پتا چلا کہ نقشوں کی منظوری اور دیگر تعمیراتی قوانین میں سنگین کوتاہی برتی گئی تھی۔ غیر قانونی امور کے ضمن میں صوبے میں مقیم افغان مہاجرین کا بھی ذکر ہوجائے۔
وفاقی حکومت کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے سندھ نے بھی غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کی وطن واپسی کے اقدامات کیے، جس کے دَوران کراچی کی افغان بستیوں سے بہت سے گھرانوں کی واپسی ہوئی، تاہم پولیس کے غیر مناسب رویّے اور رشوت ستانی کی کہانیاں بھی سُننے کو ملیں۔ باقی مُلک کی طرح سندھ میں بھی منہگائی عروج پر رہی، جس کے سبب شہریوں کے لیے ضروری راشن کی خریداری بھی کسی امتحان سے کم نہیں تھی۔ آٹے کی قیمتوں نے نئی بلندیاں چُھوئیں، تو حکومت نے شہریوں کو کم قیمت پر آٹے کی فراہمی شروع کی، مگر یہ منصوبہ بھی بدنظمی کا شکار رہا۔
پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو قابو میں نہ رکھ پائی، مگر نگراں حکومت کے آتے ہی آرمی چیف کے ایک دورے کے بعد جب دودھ 220 کی بجائے 200 میں روپے میں فروخت ہونے لگا، تو لوگ ایک دوسرے سے یہ سوال پوچھتے نظرآئے کہ ایک منتخب حکومت ایسا کیوں نہیں کرسکی؟ یہاں گورنر سندھ کامران ٹیسوری اور جماعتِ اسلامی کے اُن پروگرامز کی تحسین بھی ضروری ہے، جن کے تحت ہزاروں نوجوانوں کو آئی ٹی سمیت مختلف شعبوں میں کورسز کے مواقع اور کیرئیر کاؤنسلنگ فراہم کی گئی۔
صوبے میں امن و امان کی مجموعی صُورتِ حال اِس لحاظ سے تو بہتر رہی کہ سال بَھر میں دہشت گردی کے صرف ایک، دو واقعات ہوئے، تاہم جرائم کی دیگر شکلوں نے شہریوں کا جینا اجیرن کیے رکھا۔18 فروری کو شارع فیصل صدر سے متصل کراچی پولیس آفس( کے پی او) پر دہشت گردوں کے حملے میں رینجرز کا جوان اور دو پولیس اہل کاروں سمیت4 افراد شہید، جب کہ18 زخمی ہوئے۔جوابی کارروائی میں تین دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ستمبر کے آخری دنوں میں نواب شاہ کے قریب، سکرنڈ کے نواحی گاؤں، ماڑی جلبانی میں چار افراد کی ہلاکت بھی میڈیا، بالخصوص سوشل میڈیا پر چھائی رہی۔
ایس ایس پی نواب شاہ کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ’’قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک ملزم کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی، جس کے دوران دیہاتیوں نے پولیس اور رینجرز پر حملہ کر دیا، جس میں تین رینجرز اہل کار زخمی ہوئے اور پھر پولیس اور رینجرز کی جوابی فائرنگ میں تین افراد ہلاک اور پانچ شدید زخمی ہوئے۔‘‘ اِسی طرح کا مؤقف رینجرز کی جانب سے سامنے آیا۔جس میں یہ بھی بتایا گیا کہ ’’خفیہ ادارے کی جانب سے ہائی ویلیو ملزمان کی موجودگی کی اطلاع تھی اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ان ملزمان کے پاس دھماکا خیز مواد اور اسلحہ ہے۔‘‘
تاہم، متاثرین کا بیان اس کے اُلٹ تھا۔ اِس واقعے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا۔ صوبائی نگران وزیرِ داخلہ، حارث نواز نے آئی جی سندھ کے ساتھ متاثرہ گاؤں پہنچ کر لواحقین سے تعزيّت کی اور 80، 80 لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا۔ صوبے کے کئی اضلاع حسبِ معمول ڈاکوؤں کے نرغے میں رہے۔ بالائی سندھ میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ ہوا، جس میں کچّے کے یہی ڈاکو ملوّث تھے، جنھیں مبیّنہ طور پر علاقے کے بااثر افراد کی حمایت حاصل رہی۔
یہ ڈاکو سوشل میڈیا پر ویڈیوز جاری کرتے رہے، جن میں پولیس افسران اور دیگر افراد کو نام لے کر سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے ساتھ مغویوں پر بدترین تشدّد کرتے ہوئے بھی دِکھایا گیا تاکہ اُن کے ورثا سے زیادہ سے زیادہ تاوان حاصل کیا جاسکے۔ بعض ویڈیوز میں تو اُنھیں جلوس کی شکل میں بازاروں پر ہلّہ بولتے اور شہریوں کو اغوا کرتے دیکھا گیا۔ان کے خلاف کارروائی کے لیے اعلیٰ سطح پر اجلاسوں کی رپورٹس آتی رہیں اور کچھ کارروائیاں ہوئیں بھی، لیکن ڈاکوؤں کی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔کراچی کے شہری گزشتہ برس بھی گلی محلوں، یہاں تک کہ اپنے گھروں کی دہلیزوں اور دُکانوں میں لُٹتے رہے۔
اسٹریٹ کرمنلز نے شہر پر اپنی گرفت مضبوط رکھی، جب، جہاں اور جِسے چاہا، موبائل فونز یا رقوم سے محروم کردیا۔اِس لُوٹ مار میں ایک نیا ٹرینڈ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ مسلّح افراد نے گروہوں کی صُورت ہوٹلز یا شادی ہالز میں بیٹھے افراد کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا۔ پولیس عوام کے تحفّظ میں تو پہلے ہی ناکام تھی، گزشتہ برس اس نے اپنے لیے سُبکی کا سامان یوں بھی پیدا کیا کہ کراچی سے بذریعہ سڑک ملتان جانے والے کرکٹر، صہیب مقصود اور عامر یامین کو شہید بے نظیر آباد( نواب شاہ) کے قریب پولیس اہل کاروں نے روک کر آٹھ ہزارروپے رشوت طلب کی اور نہ دینے پر تھانے لے جانے کی تڑی لگائی۔ صہیب مقصود نے سماجی رابطے کی سائٹ پر لکھا’’ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ سندھ میں نہیں، پنجاب میں رہتے ہیں، سندھ پولیس اِتنی کرپٹ ہے کہ ہر50 کلومیٹر کے بعد آپ کو روک کر پیسے مانگتی ہے۔‘‘
سندھ میں ادبی سرگرمیوں کا سال بَھر’’ موسمِ بہار‘‘ رہا کہ اِس حوالے سے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔آرٹس کاؤنسل آف پاکستان، کراچی میں16 ویں عالمی اردو کانفرنس نے خُوب رنگ جمایا، تو اِسی ادارے کے تحت سکھر میں بھی شان دار کانفرنس ہوئی۔ دسمبر میں کراچی کے ایکسپو سینٹر میں 18 ویں کتاب میلے میں گویا پورا شہر ہی اُمڈ آیا اور باذوق قارئین نے کتابوں کی خریداری کا اپنا ہی ریکارڈ توڑ ڈالا۔
علاوہ ازیں، شہر کے مختلف ادبی اداروں، تنظیموں کی جانب سے بھی بڑے پیمانے پر لٹریچر فیسٹیولز، کتاب میلے، کانفرنسز، سیمنارز اور مشاعروں کا انعقاد کیا گیا۔ دوسری طرف صوبے میں بسنے والی مختلف اقوام نے اپنے ثقافتی ایّام پورے جوش و خروش سے منائے، جن سے ایک طرف اپنی تہذیب سے لگاؤ اور اس کی حفاظت کے جذبات کی عکّاسی ہوئی، وہیں ایک دوسرے کی ثقافتی تقاریب میں شرکت سے سندھ کا ’’ صوفی مزاج‘‘ بھی نمایاں ہوکر سامنے آیا، جو برداشت، کشادہ دِلی اور تحمّل پر مبنی ہے۔