• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتجاج، مظاہرے، گرفتاریاں، سیاسی جوڑ توڑ، نگراں حکومت کی پُھرتیاں، نواز شریف کی واپسی

2023ء کا سال پورے مُلک کی طرح سب سے زیادہ آبادی کے حامل، صوبۂ پنجاب کے لیے بھی نہایت ہنگامہ خیز رہا۔ جنوری میں صوبائی اسمبلی کی تحلیل، عدالتِ عالیہ کے حُکم کے باوجود صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا عدم انعقاد، عمران خان کے خلاف ریکارڈ مقدّمات کا اندراج، سائفر اور توشہ خانہ کیس میں ان کی گرفتاری، رہائی اور پھر قید کی سزا، کمر توڑ منہگائی، بجلی کے ہوش رُبا بلز کے خلاف مظاہرے، سانحۂ 9مئی کے بعد سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں اور دیگر واقعات سیاسی منظر نامے پر چھائے رہے۔ 

اسی اثنا 45سالہ سیّد محسن رضا نقوی نے پنجاب کے نگراں وزیرِ اعلیٰ کا عُہدہ سنبھالا اور آغاز ہی میں ایک فعال وزیرِ اعلیٰ کا امیج بنانے میں کام یاب ہو گئے۔ تاہم، ان تمام حالات و واقعات کا نقطۂ عروج اگست 2023ء میں اُس وقت دیکھنے میں آیا ، جب ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد، ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو 3سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سُنائی، جس پر اُنہیں اٹک جیل بھیج دیا گیا۔ واضح رہے، وہ اٹک جیل جانے والے مُلک کے پہلے سابق وزیرِ اعظم ہیں، جب کہ میاں نواز شریف اس سے قبل اٹک قلعے میں مقیّد رہے۔ بعد ازاں، عمران خان کو اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا، لیکن اس سے قبل لاہور میں ایک ایسا واقعہ رونما ہو ا، جس نے پورے مُلک کا سیاسی منظر نامہ یک سَر بدل کر رکھ دیا۔

سانحۂ 9مئی

9مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقعے پر عدالت کے احاطے میں بائیو میٹرک کرواتے وقت عمران خان کو نیب نے گرفتار کر لیا۔ اس موقعے پر چیئرمین پی ٹی آئی سے ناروا سلوک کی سامنے آنے والی ویڈیوز نے پارٹی کے کارکنوں میں اشتعال پیدا کر دیا اور پھر لاہور میں کور کمانڈر ہائوس میں توڑ پھوڑ اور فوجی تنصیبات کو نذرِ آتش کرنے کے انتہائی افسوس ناک اور قابلِ مذمّت واقعات رُونما ہوئے۔ ان واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے سیکڑوں کارکنوں، بشمول خواتین کو گرفتار کر لیا گیا۔ 

گرفتار شدگان میں عام کارکنوں کے علاوہ پی ٹی آئی کے قائدین بھی شامل تھے، جن پر بعد ازاں آرمی ایکٹ کے تحت مقدّمات چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ سانحۂ 9مئی کے بعد پنجاب میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام اہم سیاسی رہنمائوں کی گرفتاری عمل میں آئی اور پھر ان کی جانب سے پریس کانفرنسز میں پارٹی چھوڑنے اور 9مئی کے واقعات سے اظہارِ لاتعلقی کے اعلان کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ 

علاوہ چوہدری پرویز الٰہی، شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر یاسمین راشد، محمود الرّشید اور چند دیگر رہنمائوں کے، پارٹی کی پوری ٹاپ قیادت نے پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ دیا۔ عمران خان کی گرفتاری اور پی ٹی آئی کے بکھرنے کے بعد لاہور میں واقع، زمان پارک میں، جہاں کبھی رات میں بھی دن کا سماں ہوتا تھا، ویرانیوں نے ڈیرے جما لیے۔ سانحۂ 9مئی کے بعد جہانگیر خان ترین کی زیرِ قیادت ایک نئی سیاسی جماعت، ’’استحکامِ پاکستان پارٹی‘‘ وجود میں آئی، جس میں پی ٹی آئی کے متعدد اہم رہنمائوں نے شمولیت اختیار کی۔ 

اسی دوران پنجاب کی جیلوں میں پی ٹی آئی ورکرز، بالخصوص خواتین کارکنان سے بد سلوکی کی کچھ جُھوٹی، سچّی داستانیں بھی منظرِ عام پر آئیں، جب کہ پورے عرصے میں عمران خان کے وکیل، لطیف کھوسہ اور چوہدری اعتزاز احسن نے اپنی تیز و تُند تقاریر سے سیاسی ماحول گرمائے رکھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کے باعث عام انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شُبہات کا اظہار کیا گیا۔ 

تاہم، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 8فروری 2024ء کو عام انتخابات کروانے کے اعلان کے بعد کسی حد تک سیاسی بے یقینی کی کیفیت ختم ہو گئی اور سال کے آخر میں پنجاب میں تمام سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں اور لفظی گولہ باری میں تیزی آگئی۔ البتہ پی ٹی آئی کے کارکن غیر یقینی صورتِ حال ہی کے شکار نظر آئے۔

نواز شریف کی آمد

16اکتوبر کو جب سابق وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف چار سال بعد اپنے خصوصی طیّارے میں پہلے اسلام آباد اور پھر لاہور پہنچے، تو قومی سیاست میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ اسی روز شام کو مینارِ پاکستان پر مسلم لیگ (نون) نے ایک تاریخی جلسے کا انعقاد کیا، جب کہ بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے جلسے کی کام یابی و ناکامی کے ضمن میں ملا جُلا ردِ عمل سامنے آیا۔

تاہم، میاں نواز شریف کی پاکستان آمد مُلک بالخصوص پنجاب کی سیاست پر طاری جمود توڑنے کا سبب بنی اور انہوں نے مُلک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے باقاعدہ ملاقاتیں شروع کر دیں۔ مجموعی طور پر پنجاب، ہمیشہ کی طرح2023ء میں بھی پنجاب ہمیشہ کی طرح سیاسی معرکہ آرائیوں کا اکھاڑہ بنا رہا اور سال کے آخر تک نئی سیاسی صف بندیاں عروج پر پہنچ گئیں۔

مُلکی تاریخ میں پہلی بار لاہور میں مصنوعی بارش برسائی گئی

گزشتہ کئی برسوں کی طرح 2023ء میں بھی لاہور نے دُنیا کے آلودہ ترین شہر ہونے کا ’’اعزاز‘‘ برقرار رکھا۔ تاہم، گزشتہ برس اس ضمن میں ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ اسموگ کے خاتمے کے لیے لاہور میں پہلی مرتبہ مصنوعی بارش برسائی گئی۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ’’اسموگ‘‘ اہلِ لاہور کے لیے پانچویں موسم کی صُورت اختیار کر چُکی ہے اور اس موسم میں ماحولیاتی آلودگی کے باعث شہری بالخصوص بچّے نزلہ، زکام، بخار اور امراضِ چشم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ 

لاہور میں اسموگ کی شدّت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 4نومبر کو شہر کا ایئر کوالٹی انڈیکس 303تھا اور بعض گنجان آباد علاقوں میں یہ 400تک بھی ریکارڈ کیا گیا، جب کہ صاف ہوا کے لیے اس کا 50ہونا ضروری ہے۔ گرچہ حکومت اسموگ کا اہم سبب مشرقی پنجاب میں فصلوں کی باقیات جلانے کو قرار دیتی ہے، لیکن اسے حکومت کی اپنی نااہلی بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ 10برس سے ہر سال ہی یہ مسئلہ شہریوں کے لیے وبالِ جان بنا ہوتا ہے۔

چار ماہ کا بجٹ

نگران صوبائی کابینہ نے اکتوبر کے آخر میں رواں مالی سال کے آیندہ 4ماہ (نومبر 2023ء سے فروری 2024ء) کے لیے 2076ارب روپے کے بجٹ کی منظوری دی، جس میں مجموعی طور پر 351ارب روپے کے ترقّیاتی منصوبے بھی شامل ہیں۔ ناقدین نے اس پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نگراں حکومت نے مسلم لیگ (نون) کے سابق ارکانِ اسمبلی کے لیے بھاری فنڈز مختص کیے ہیں اور صرف لاہور میں قومی اسمبلی کی سطح پر 186، جب کہ صوبائی حلقوں کے لیے 279ترقّیاتی اسکیمز منظور کی گئی ہیں۔ 

نیز، سابق وزیرِاعظم، میاں شہباز شریف کے حلقے، این اے 132کے لیے54اسکیمز کی منظوری دی گئی۔ نگراں حکومت انتظامی طور پر خاصی فعال نظر آئی ۔ نگراں وزیرِاعلیٰ، محسن نقوی نے صوبے کے مختلف سرکاری اسپتالوں کے پے در پے چھاپہ مار دورے کیے اور زیرِ تعمیر منصوبوں کا راتوں کو معاینہ کر کے انہیں جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ چناں چہ نومبر میں یہ توقّع ظاہر کی گئی کہ لاہور کے چار زیرِ تعمیر فلائی اوورز اور انڈر پاسز سال ختم ہونے سے پہلے ہی مکمل ہو جائیں گے، جن سے شہر میں اہم ٹریفک پوائنٹس پرلاکھوں گاڑیوں کابوجھ کم ہوجائے گا۔ 

یاد رہے، نگراں حکومت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ تمام منصوبے مقرّرہ مدّت سے پہلے مکمل ہوں گے اور غالباً اسی وجہ سے محسن نقوی کو ایک فعال نگراں وزیر اعلیٰ قرار دیا گیا۔ گرچہ اس دوران انہوں نے دو مرتبہ چین کا دورہ بھی کیا لیکن اُن کی زیادہ توجّہ اپنے آبائی شہر، لاہور ہی پر مرکوز رہی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے دیگر اضلاع ان کی بھرپور توجّہ حاصل نہ کر سکے۔ نگراں صوبائی حکومت نے نومبر کے آغاز میں صوبے میں کاشت کاروں کے لیے 9ماڈل ’’زرعی سینٹرز‘‘ بنانے کا بھی اعلان کیا۔

لاہور فیسٹیول

لاہور کے بارے میں کسی زمانے میں یہ مقولہ مشہور تھا کہ ’’سات دن اور آٹھ میلے‘‘، کیوں کہ یہاں ہمہ وقت کوئی نہ کوئی تہوار جاری رہتا تھا۔ تاہم، اب حالات بدل چُکے ہیں اور گوناگوں مسائل کے باعث کسی کو سَر اُٹھانے تک کی فرصت نہیں، مگر نگراں حکومت نے کمر توڑ منہگائی، بجلی کے ہوش رُبا بلز، بدترین اسموگ، بے روزگاری، فلسطینیوں پر ہول ناک مظالم کی بازگشت اور بڑھتی ہوئی غُربت کے باوجود ’’راوی سب چین لکھتا ہے‘‘ کے مصداق 12اکتوبر سے 22نومبر تک ایک گرینڈ فیسٹیول کا اہتمام کیا، جس میں لوک اور پاپ گلوکاروں نے اپنی آوازوں کا جادو جگایا۔ اس دوران کئی ڈرامے اور اسٹیج شوز بھی پیش کیے گئے۔ بہرکیف، گردو غُبار میں لپٹے شہر کے باسیوں نے نامساعد حالات کے باوجود مذکورہ فیسٹیول کی خُوب پذیرائی کی۔

اسکولز کے اساتذہ کی ہڑتال

اکتوبر میں پنجاب بَھر کے سرکاری اسکولز اُس وقت چند روز کے لیے بند ہو گئے کہ جب 47700سرکاری اسکولز کے 3لاکھ سے زائد اساتذہ سڑکوں پر آگئے۔ یہ اساتذہ پنجاب میں سرکاری اسکولز کو این جی اوز کے حوالے کرنے کے منصوبے کے خلاف احتجاج کُناں تھے ۔ اس سلسلے میں لاہور میں سیکریٹریٹ کے سامنے ان کا دھرنا بھی کئی روز تک جاری رہا۔ سرکاری اسکولز کے اساتذہ کا دعویٰ تھا کہ ابتدا میں نگراں حکومت 10ہزار اسکولز کو این جی اوز کے حوالے کرنے جارہی ہے، جس سے ان کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ 

تاہم، صوبائی وزیرِ اطلاعات، عامر میر نے اس دعوے کو پروپیگنڈا قرار دیا۔ بعد ازاں، اساتذہ نے اپنی پینشن میں کمی کی تجاویز کے خلاف احتجاج کیا۔ گرچہ نگراں حکومت نے سرکاری اسکولز کو این جی اوز کے حوالے کرنے کے اساتذہ کے دعوے کو بے بنیاد قرار دیا ہے، لیکن ’’دال میں کچھ کالا ضرور ہے‘‘ کہ پنجاب بَھر کے اساتذہ سڑکوں پر آگئے اور اسکول کئی روز تک بند رہے، جس سے سبب ناقابلِ تلافی تعلیمی نقصان اُٹھانا پڑا۔ 

گرچہ حکومت اور اساتذہ کے درمیان ایک معاہدہ طے پا جا نے سے معاملہ وقتی طور پر دَب گیا، لیکن یہ دَبی ہوئی چنگاری کسی بھی وقت دوبارہ بھڑک سکتی ہے، کیوں کہ ایک رپورٹ کے مطابق نگراں وزیرِ اعلیٰ، محسن نقوی نے صوبے کے ایک ہزار سرکاری اسکولز کو ایک غیر سرکاری ادارے کے سُپرد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

بکھرتے، ٹوٹتے گھر

پاکستان کے سب سے بڑے صُوبے میں طلاقوں کی بڑھتی شرح اس بات کی عکّاسی کرتی ہے کہ ہمارا عائلی ڈھانچا کس تیزی سے روبۂ زوال ہے۔ 2023ء میں پنجاب کی فیملی کورٹس میں درج مقدّمات کی تعداد ریکارڈ 11ہزار سے تجاوز کر گئی، جب کہ صوبائی دارالحکومت، لاہور میں خاندانی معاملات طے کرنے والی سول فیملی کورٹس کی 30میں سے 22عدالتوں میں صرف طلاق، خُلع اور نان نفقے سے متعلق ہزاروں مقدّمات زیرِ سماعت ہیں۔ 

2023ء کے ابتدائی 10ماہ کے دوران خُلع کی 970ڈگریاں جاری کی گئیں اور یہ تعداد 2022ء سے بھی زیادہ ہے۔ اس ضمن میں عائلی قوانین کے ماہر وکلا کا کہنا ہے کہ اَن پڑھ اور نیم خواندہ خواتین کے مقابلے میں تعلیم یافتہ خواتین کی طرف سے دائر کردہ طلاق اور خُلع کے کیسز کی شرح زیادہ ہے۔

جرائم میں اضافہ

گرچہ پنجاب میں جرائم کی بیخ کنی کی صورتِ حال کبھی تسلّی بخش نہیں رہی، لیکن پولیس کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 2023ء کے ابتدائی 6ماہ میںجرائم کی شرح میں 2022ءکی نسبت 34فی صد اضافہ ہوا۔ 2022ء میں 7لاکھ 56ہزار مقدّمات درج کیے گئے تھے، جب کہ 2023ء کے ابتدائی 6ماہ میں مختلف جرائم کے 83ہزار مقدّمات درج ہوئے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2023ء کے ابتدائی 6 ماہ میں قتل کے واقعات میں 11فی صد، اغوا برائے تاوان کے کیسز میں 62فی صد اور رہزنی کے واقعات میں 83فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

سرکاری محکموں میں ای فائلنگ

2023ء کے آخر میں پنجاب کے سرکاری محکموں میں چیئرمین پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کی ہدایت پر گورنمنٹ ڈیجیٹل وِنگ کے زیرِ اہتمام ای فائلنگ اینڈ آٹو میشن سسٹم کو مکمل طور پر نافذ کردیا گیا۔ پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار سیکریٹریٹ مینوئل کو ای فائل کا حصّہ بنا کر اپ ڈیٹ کیا گیا اور تمام سرکاری محکموں کو پابند کیاگیا کہ وہ اپنی تمام خط و کتابت اب ای فائل کے ذریعے ہی کریں گے۔ 

یعنی پنجاب حکومت کے تمام اہم فیصلے اب کاغذات کی بہ جائے ڈیجیٹل فائل پر سرکولیٹ ہوں گے۔ اس ضمن میں ڈائریکٹر جنرل گورنمنٹ ڈیجیٹل سروسز وِنگ کا کہنا ہے کہ روایتی فائل سسٹم کے خاتمے سے حکومتِ پنجاب کو نہ صرف اربوں روپے کی بچت ہوگی، بلکہ گورنینس اور سروس ڈیلیوری بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔

6 افراد کی ہلاکت کا واقعہ

سال کے آخر میں پنجاب بَھر میں نو عُمر ڈرائیورز کے خلاف مُہم کے تحت درجنوں کارڈرائیورز اور موٹر سائیکل چلانے والوں کو حراست میں لیا گیا۔ اس اقدام کا سبب لاہور کے علاقے، ڈی ایچ اے میں پیش آنے والا ایک دل خراش واقعہ تھا، جس میں افنان شفقت نامی لڑکے نے انتہائی تیز رفتاری سےگاڑی چلاتے ہوئے ایک کار کو ٹکر مار دی، جس کے نتیجے میں اس کار میں سوار ایک ہی خاندان کے 6افراد جاں بحق ہو گئے اور افنان کو گرفتار کرلیا گیا۔ 

اس الم ناک واقعے کے بعد نگراں وزیراعلیٰ، محسن نقوی نے متاثرہ خاندان سے تعزیّت کی اور انہیں انصاف کی فراہمی کا یقین دلایا۔ حادثے کے مرتکب لڑکے کے خلاف مقدّمہ درج کر لیا گیا اور اس کی فوری سماعت شروع ہو گئی۔ تاہم، واقعے کے بعد کئی روز تک سوشل میڈیا پر یہ بحث جاری رہی کہ یہ حادثہ نادانستہ طور پر پیش آیا یا جان بوجھ کر گاڑی ٹکرائی گئی۔ مبیّنہ طور پر حادثے سے قبل متاثرہ خاندان اور ملزم کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تھی۔ بہرحال، لاہور پولیس نے انڈرایج ڈرائیورز کے خلاف مُہم کے دوران شہر میں 190چیک پوسٹس قائم کر دیں۔