وطنِ عزیز کی 15 ویں قومی اسمبلی نے ہر چند کہ اپنی معیّنہ مدّت مکمل کی، لیکن ماضی کی طرح وزیرِ اعظم اپنے منصب کی آئینی مدّت اِس مرتبہ بھی مکمل نہیں کرسکے اور ایوان نے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اُنہیں منصب سے محروم کردیا۔ بعدازاں، آئینی اور پارلیمانی طریقۂ کار کے مطابق ایوان میں قائدِ حزب اختلاف، شہباز شریف نے اسمبلی کی بقیہ مدّت کا تقریباً ڈیڑھ سال کا دورانیہ وزیرِ اعظم کی حیثیت سے مکمل کیا۔
15ویں قومی اسمبلی کی معیّنہ مدّت 12 اور 13 اگست کی درمیانی شب 12بجے مکمل ہونی تھی، تاہم نئے انتخابات60 کی بجائے90 دن میں کروانے کے لیے اسمبلی کو مدّت مکمل ہونے سے تین دن پہلے تحلیل کردیا گیا، لیکن بعد میں بعض پیچیدگیوں سے بچنے اور ایک حکمتِ عملی کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان نے8 فروری کو الیکشن کروانے کا اعلان کیا، جس پر طرح طرح کے خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا، تاہم سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد الیکشن شیڈول جاری کردیا گیا، جس کے بعد انتخابی عمل باقاعدہ شروع ہوگیا۔
یاد رہے، 15 ویں قومی اسمبلی کے ارکان نے 13 اگست 2018 ء کو حلف اُٹھایا تھا، جس کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہوئی اور 2018 ء سے 2022 ء تک عمران خان وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر براجمان رہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ1999 ء تک مُلک میں کوئی بھی قومی اسمبلی اپنی آئینی مدّت پوری نہیں کرسکی تھی، کبھی مارشل لاء اور کبھی58 -ٹو بی کے اختیارات کے ذریعے صدرِ مملکت اسمبلی توڑتے رہے، البتہ2002 ء سے2018 ء تک تین اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدّت مکمل تو ضروری کی، تاہم اِس دَوران وزرائے اعظم تبدیل ہوتے رہے۔
15ویں قومی اسمبلی کے دورانیے کو یوں تو کئی حوالوں سے یادگار قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن یہ یادیں خوش گوار اور تعمیری نہیں،البتہ منفرد اور چونکا دینے والی ضرور ہیں۔ مثلاً پارلیمانی تاریخ میں یہ واقعہ بھی پہلی بار پیش آیا کہ کسی وزیرِ اعظم (عمران خان) کو ایوان کی اکثریت نے عدم اعتماد کے ذریعے ایوان سے رخصت کیا۔اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ (نون) کی سربراہی میں قائم ہونے والی وزیرِ اعظم شہباز شریف کی حکومت اور راجا پرویز اشرف کی بحیثیت اسپیکر سربراہی میں ہونے والے قومی اسمبلی کے تقریباً 70 فی صد اجلاس کورم پورا ہوئے بغیر ہی چلتے رہے، جب کہ کئی اجلاس تو ارکان کی ایوان میں محدود تعداد کے باعث شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیئے گئے، یہاں تک کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس بھی کورم مکمل ہوئے بغیر ہوتے رہے، جو اِس اسمبلی کے قائم کردہ ریکارڈز میں شامل ہیں۔
نیز، قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں پیش آنے والے ناقابلِ فراموش واقعات میں، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان ہونے والی محاذ آرائی کو ایک انتہائی ناخوش گوار پارلیمانی روایت اور قواعد و ضوابط پر ایک سیاہ دھبّا بھی قرار دیا جائے، تو شاید کم ہوگا۔
اس کی تفصیل، پس منظر، عوامل اور محرّکات کی داستان تو خاصی طویل ہے، لیکن بہرحال، اختصار کے ساتھ ایک سرسری جائزہ پیش کیا جا سکتا ہے۔دراصل، پاکستان میں سیاست دانوں کی عدلیہ سے شکایات اور شکوے تو تاریخ کا حصّہ ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور پہلے منتخب وزیرِ اعظم، ذوالفقار علی بھٹّو کو تختۂ دار پر لٹکایا جانا، پھر سیّد یوسف رضا گیلانی سے لے کر میاں نواز شریف تک کی نااہلی اور سزائیں پاکستان کی عدالتی تاریخ کے ایسے فیصلے ہیں، جنہیں متنازع ترین قرار دیا گیا۔ بھٹّو کی پھانسی کو عدالتی قتل اور نواز شریف کی سزائوں کو سیاسی اور جانب دارانہ فیصلے سے تعبیر کیا گیا، لیکن عدلیہ اور ججوں کا احترام پھر بھی ملحوظ رکھا گیا۔
یہاں اِس حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا کہ یہ وہی سپریم کورٹ تھی، جس نے قومی اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچایا اور تحریکِ عدم اعتماد کی کام یابی کی صُورت میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ختم ہوئی، جب کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی اتحادی حکومت برسرِاقتدار آئی، لیکن قلیل ہی عرصے میں حالات اس نہج تک پہنچ گئے کہ قومی اسمبلی میں چیف جسٹس کے خلاف تقاریر شروع ہو گئیں اور اُنہیں ایوان میں طلب کیے جانے کے مطالبے ہونے لگے۔
اُس وقت کے چیف جسٹس عُمر عطا بندیال کی ویڈیو بھی سامنے آنا شروع ہوگئیں۔ ایک وڈیو میں مبیّنہ طور پر چیف جسٹس کی ساس، جب کہ دوسری ویڈیو میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی آواز تھی، جس میں پارٹی ٹکٹ دِلوانے کے لیے لین دین پر گفتگو ہو رہی تھی۔ عُمر عطا بندیال کے طرزِ عمل، بعض فیصلوں اور اقدامات سے یہ تاثر بتدریج شدّت پکڑتا گیا اور ان خدشات میں اضافہ ہوتا رہا کہ سپریم کورٹ، پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ بھی ماضی کے وزرائے اعظم والا سلوک کرنا چاہتی ہے۔
ایک موقعے پر قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف نے سپریم کورٹ کو خط تحریر کیا، جس میں اپنے تحفّظات کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے پارلیمانی کارروائی میں مداخلت پر شکوہ کیا گیا، جس پر جوابِ شکوہ کے طور پر سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ میں’’ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل‘‘ پر ایوان میں ہونے والی بحث کا ریکارڈ طلب کرلیا، تو دوسری طرف، چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی، نور عالم خان نے سپریم کورٹ کے ججز کی تن خواہوں اور مراعات کی تفصیلات کا دس سالہ ریکارڈ منگوا لیا اور یہ بھی کہا کہ اگر اکاؤنٹنگ افسر معیّنہ تاریخ پر یہ ریکارڈ خود لے کر کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہوئے، تو اُن کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے جاسکتے ہیں۔
پاکستان کے آئین میں سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ججز کے فرائض کی ادائی کے دَوران کنڈکٹ اور فیصلوں پر بحث یا کسی قسم کے تبصرے کی ممانعت ہے، جس پر ماضی میں پوری طرح عمل کیا گیا، لیکن اِس مرتبہ ارکانِ اسمبلی نے چیف جسٹس کی طلبی کے مطالبے سے لے کر اُن کے طرزِ عمل اور فیصلوں پر بہت کُھل کر جن الفاظ پر مبنی تقاریر کیں، ریمارکس دیئے یا الزامات لگائے، وہ ایوان کی تاریخ کا واقعتاً ایک ’’سیاہ باب‘‘ہے۔
جمہوریت کی بقاء اور جمہوری اداروں کی ترویج و استحکام کے لیے اپوزیشن کا ہونا کس قدر ناگزیر ہے، اِس بات کا اندازہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں کی کارروائی، بالخصوص اہم منصوبوں کی منظوری سمیت دیگر قانون سازیوں کے عمل کے دوران ہوا۔پاکستان تحریکِ انصاف کے ارکان نے اپنی قیادت کے حکم پر نہ چاہنے کے باوجود ایوان سے استعفے دیئے تھے، تاہم پی ٹی آئی کے 20ارکان ایسے بھی تھے، جنہوں نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا تھا اور اپنا ایک علیٰحدہ گروپ بنا کر ایوان میں ’’اپوزیشن‘‘ کا کردار ادا کرنے کا اعلان کیا۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے دو منحرف ارکان ،راجا ریاض اور نور عالم قائدِ حزبِ اختلاف کے امیدوار تھے، جب کہ جی ڈی اے کے غوث بخش مہر نے بھی الیکشن میں حصّہ لیا، تاہم اصل مقابلہ نور عالم اور راجا ریاض ہی کے درمیان تھا، جو راجا ریاض نے جیت لیا اور پھر یہ ہوا کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی جس نشست پر مولانا مفتی محمود، خان عبدالولی خان، محترمہ بے نظیر بھٹّو اور میاں نواز شریف جیسی شخصیات بیٹھتی تھیں، وہاں راجا ریاض براجمان ہوئے، جو پہلی مرتبہ اس ایوان کے رُکن بنے تھے۔
قومی سطح کی سیاست اور پارلیمانی تجربے سے قطعاً عاری راجا ریاض، مسلم لیگ نون کی اتحادی حکومت کے خلاف اپوزیشن لیڈر تھے،جنھیں عوام نے کئی بار میڈیا سے گفتگو میں یہ کہتے سُنا کہ’’ مَیں آئندہ مسلم لیگ (نون) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑوں گا۔‘‘ اُن کی سربراہی میں پاکستان تحریکِ انصاف کے باغی ارکان نے، جنہیں’’منحرف ارکان‘‘ کا نام دیا گیا تھا، اپوزیشن کے رسمی تقاضے تو پورے کیے، لیکن حکومت کے لیے کسی بھی مرحلے پر کوئی پریشانی یا دشوارکُن صُورتِ حال پیدا نہیں کی۔ اِتنی بے ضرر اور ’’ہومیوپیتھک اپوزیشن‘‘ شاید ہی اِس سے قبل کبھی دیکھنے میں آئی ہو۔ حکومت نے بھی ایوان سے اصل اپوزیشن (پی ٹی آئی ) کے مستعفی ہونے کے غیر سیاسی، غیر پارلیمانی اور غلط فیصلے کا پورا پورا فائدہ اُٹھایا۔
مرضی کی قانون سازی کی اور یوں سابق قائدِ ایوان کے غیر دانش مندانہ فیصلے کے منفی اثرات نے جمہوریت کی رہی سہی ساکھ بھی تباہ کر ڈالی۔ قانون سازی کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسمبلی کے آخری دنوں میں ارکانِ اسمبلی نے نجی یونی ورسٹیز کے قیام کے بِل منظور کروانے شروع کر دیئے اور ایک، ایک رُکن پانچ، پانچ بل منظور کروا رہا تھا، جس پر اپوزیشن کے مولانا اکبر چترالی نے ایک موقعے پر یہاں تک کہہ دیا کہ’’ جنابِ اسپیکر! ان ارکان کا یونی ورسٹیز اور تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے نجی یونی ورسٹیز کی منظوری کے لیے تعلیم کا کاروبار کرنے والوں سے بھاری رقوم پکڑی ہوئی ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ صرف ایک دن میں قومی اسمبلی سے 24 یونی ورسٹیز کے بل منظور کروائے گئے۔
2023 ء کا ایک منفرد واقعہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس، قاضی فائز عیسیٰ کا سینئر ترین جج کی حیثیت سے پارلیمنٹ سے خطاب بھی تھا۔اِس شرکت کی اہمیت یوں بھی تھی کہ تین ماہ قبل ہی باضابطہ طور پر اعلان کردیا گیا تھا کہ چیف جسٹس، عُمر عطا بندیال کی مدّت پوری ہونے پر قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ہوں گے۔ 1973ء کے متفّقہ آئین کی تشکیل اور منظوری کے پچاس سال مکمل ہونے پر جو پارلیمانی تقریبات منعقد کی گئیں، قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف نے خصوصی طور پر قاضی فائز عیسیٰ کو اُن سے خطاب کی دعوت دی تھی۔
قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خطاب میں بتایا کہ’’ جب اسپیکر صاحب نے مجھے تقریب میں شرکت کی دعوت دی، تو مَیں نے اُس وقت ہی اُن سے استفسار کیا تھا کہ اس موقعے پر ایوان میں سیاسی تقاریر تو نہیں ہوں گی، جس پر اُنہوں نے بتایا کہ ارکان آئین اور پارلیمان کے موضوع ہی پر بات کریں گے، لیکن مَیں سُن اور دیکھ رہا ہوں کہ یہاں سیاسی تقاریر ہو رہی ہیں۔‘‘
اُن کا کہنا تھا ’’گوکہ مَیں ان تقاریر سے اتفاق نہیں کرتا، لیکن یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس ایوان میں موجود جو ارکانِ پارلیمان تقاریر کر رہے ہیں، کل اگر اُن کے کیسز سامنے آئے، تو فیصلے اُن کے خلاف بھی آسکتے ہیں۔ پھر یہ نہ کہیں کہ جناب ہم نے تو آپ کو خصوصی طور پر مدعو کیا تھا اور آپ ہمارے ہی خلاف فیصلے دے رہے ہیں۔‘‘ اس پر پورا ایوان زعفران زار ہوگیا اور خود قاضی فائز عیسیٰ بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ’’ مَیں نے تقریب میں شرکت اِس لیے کی کہ اِس اہم موقعے پر عدلیہ کے ایک شخص کی عزّت افزائی کی گئی ہے اور مجھے سیاست دانوں کے درمیان بٹھایا گیا، لیکن نشست کا انتخاب مَیں نے خود نہیں کیا تھا۔‘‘ محترم قاضی صاحب نے یہ باتیں کیوں کیں، اس کا بھی ایک پس منظر ہے۔ پارلیمانی روایات میں یہ پہلا موقع تھا کہ عدلیہ کے کسی سینئر ترین جج کو ایوان میں اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی، جو کچھ ہی ماہ بعد منصفِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے والے تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نشست کا انتخاب اِس طرح کیا گیا تھا کہ اُن کے دائیں طرف پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری اور بائیں طرف مسلم لیگ (نون) کے اسحاق ڈار اور دوسری جماعتوں کے قائدین موجود تھے، جس سے ایک ’’سیاسی تاثر‘‘ پیدا ہونا فطری سی بات تھی اور اِسی لیے اُنھوں نے اپنے منصبی تقاضوں کی حسّاسیت کے پیشِ نظر اپنی تقریر میں وضاحتی باتیں شامل کیں۔ اس موقعے پر اُنہوں نے آئین کی کتاب بلند کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’ہم اِس کے ساتھ ہیں‘‘۔
’’ گم شُدہ اور لاپتا بلز‘‘
عہدِ حاضر کے حالات اور سیاست میں گم شُدہ اور لاپتا افراد کی اصطلاح تو پرانی اور عام ہے، بلکہ اب تو ایسی خبریں چوں کہ تقریباً معمولات میں شامل ہوچُکی ہیں، اِس لیے لوگ اِن خبروں پر چونکتے یا حیران بھی نہیں ہوتے، لیکن اب یہ اصطلاح پارلیمنٹ ہائوس میں پیش اور منظور کیے جانے والے بلز سے متعلق بھی استعمال ہو رہی ہے۔ اس کا آغاز پاکستان تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں وفاقی وزیرِ قانون و انسانی حقوق، ڈاکٹر شیریں مزاری کے بل سے ہوا تھا، جنہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بتایا کہ اُنہوں نے میڈیا قوانین اور بچّوں کی شادی سے متعلق دو بل پارلیمنٹ میں پیش کیے تھے، لیکن وہ پُراسرار طور پر لاپتا ہوگئے۔
اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ تلاش، معلومات اور وزارتی رسوخ استعمال کرنے کے باوجود اُنہیں ان بلز سے متعلق کوئی معلومات نہیں دی گئیں۔پاکستان مسلم لیگ (نون) کے سینیٹر، پروفیسر عرفان صدیقی نے بھی ایوان اور میڈیا پر یہ انکشاف کیا کہ اُن کا ایک بل، جو سینیٹ نے پاس کر دیا تھا، غائب ہوگیا ہے۔ اُن کی جانب سے توجّہ دِلانے پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ اور چیئرمین سینیٹ نے بھی اس کا نوٹس لیا تھا، لیکن نتیجہ صفر رہا۔ اِسی طرح سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر، شہزاد وسیم کا کہنا تھا کہ اُن کا بھی ایک بل سینیٹ سے پاس تو ہوگیا تھا، لیکن قواعد وضوابط کے مطابق وہ صدرِ مملکت کے پاس پہنچنے کی بجائے جانے کہاں پہنچ گیا۔
پیپلز پارٹی سے وابستگی رکھنے والے سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور تاج حیدر کے دستخظوں سے سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کروائے جانے والے’’فوری توجّہ دلائو نوٹس‘‘ کا بل، جسے سینیٹ نے منظور کیا تھا،27 جولائی 2023ء کو وزیرِ اعظم اور صدر کی منظوری کے لیے بھیجا گیا، مگر وہ بھی اپنی منزل تک نہیں پہنچا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایوانِ بالا کے ارکان کی جانب سے بھیجے گئے یہ تمام بلز اجتماعی امور، عوامی مفادات اور مشکلات سے متعلق ہیں، لیکن ان کی گم شُدگی اور لاپتا ہونے کے حوالے سے مسلسل غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔