• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی برادری اسرائیل کے سامنے بے بس، یوکرین جنگ کے شعلے دنیا کو جُھلساتے رہے

2023 ء سے متعلق خیال تھا کہ یہ معاشی بحالی کا سال ہوگا، لیکن ایسا نہ ہوسکا اور یہ سال بھی عوام کے لیے نت نئی مشکلات کا باعث رہا۔کورونا تو ایک عالمی وبا تھی، لیکن روس، یوکرین جنگ خود انسان کی انسان پر مسلّط کردہ مصیبت ہے۔ یوکرین جنگ کے سبب، جسے فروری2024 ء میں دو سال ہو جائیں گے، دنیا بَھر کے عوام منہگائی، خوراک کی کمی اور توانائی کے مسائل سے دوچار رہے۔ خیال تھا کہ اس کا کوئی حل نکل آئے گا، لیکن یہ طوالت ہی پکڑتی رہی۔ اکتوبر میں غزہ پھر میدانِ جنگ بنا اور انتہائی اندوہ ناک المیے نے جنم لیا۔ 

حماس کے کام یاب’’طوفان الاقصیٰ آپریشن‘‘ کے بعد اسرائیل کی فوجی کارروائیوں نے غزہ کو ایک مرتبہ پھر خون میں نہلا دیا۔سعودی عرب، ایران معاہدے سے متعلق زیادہ تر آراء یہ ہیں کہ اس سے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست نیا رُخ اختیار کرے گی، تاہم حماس، اسرائیل تصادم کے اس پر کیا اثرات ہوتے ہیں، یہ بھی اہم ہے۔تُرکی، ہالینڈ، تھائی لینڈ، ارجنٹائن، مالدیپ اور پولینڈ وغیرہ میں انتخابات ہوئے۔موسمیاتی تبدیلیاں اپنا غیظ وغضب ڈھاتی رہیں، لیکن اس سلسلے میں ہونے والی کانفرنسز میں طے شدہ اہداف تک پہنچنے پر اتفاق 2023ء میں بھی نہ ہوسکا۔

7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل کے خلاف طوفان الاقصیٰ آپریشن لانچ کیا، جس نے اسرائیل کی انٹیلی جینس اور سیکیوریٹی پر بہت سے سوالات اُٹھائے۔اسرائیل نے جوابی فوجی کارروائی کی، جو فوجی کارروائی سے زیادہ ظلم اور بربریت بن گئی۔رات دن طیاروں سے ہول ناک بم باری اور بستیوں پر ٹینکس سے چڑھائی نے غزہ کو کھنڈر بنا دیا۔ ہزاروں بے گناہ شہری شہید ہوئے، جن میں ایک بڑی تعداد بچّوں اور خواتین کی ہے۔دنیا کی تاریخ میں اس بربریت کی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔اسکول، اسپتال، رہائشی عمارتیں سب ڈھیر کردی گئیں۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کے اجلاس پہ اجلاس ہوتے رہے، لیکن اسرائیل کی جارحیت نہ روکی جاسکی۔ریاض میں ہونے والا او آئی سی اجلاس بھی بے نتیجہ رہا۔ بڑوں کی ملاقاتیں ہوئیں، لیکن کوئی حل نہ نکلا۔فلسطین کے دو ریاستی حل پر اقوامِ متحدہ کے تمام ممالک متفّق ہیں، تاہم اس پر کوئی واضح پیش رفت نظر نہیں آئی۔ یوکرین جنگ کو دو سال ہونے کو آئے ہیں، لیکن اختتام کے آثار دِکھائی نہیں دیتے۔ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں پچاس ہزار سے زاید افراد ہلاک ہوچُکے ہیں، جب کہ یوکرین کے دارالحکومت، کیو سمیت کئی شہر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہےہیں۔ 

یوکرین نے گزشتہ برس بھی امریکا اور یورپی ممالک کی بھرپور حمایت سے مزاحمت جاری رکھی۔مغرب نے روس پر پابندیاں عاید کیں،تو جواباً صدر پیوٹن نے گیس، تیل اور خوراک کی فراہمی بند کردی۔اس کا اثر عالمی طور پر خوراک اور توانائی کی کمی کی صُورت ظاہر ہوا، جس نے 2023ء میں بھی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔منہگائی عروج پر رہی، تو افراطِ زر اور بے روزگاری نے امیر، غریب سب ممالک کو ہلا کر رکھ دیا، لیکن غریب ممالک تو گویا پِس ہی گئے۔

نیز، معاشی عدم استحکام نے سیاسی مشکلات کو بھی جنم دیا۔کورونا کے بعد معاشی بحالی کا جو عمل تیزی سے جاری تھا اور اُمید بندھ چلی تھی کہ دنیا دوبارہ معمول پر آجائے گی، وہ اُمیدیں یوکرین جنگ کی نذر ہوگئیں۔ گزشتہ برس سوڈان میں پُھوٹنے والی خانہ جنگی میں دس ہزار سے زاید افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔افریقا کے اِس اہم مسلم مُلک میں یہ خانہ جنگی اپریل میں شروع ہوئی، جب عبوری حکومت ڈیلیور نہ کرسکی۔پہلے منہگائی اور بیڈ گورنینس سے تنگ عوام نے مظاہرے کیے، پھر یہ ہنگامے دو فوجی جنرلز کے درمیان اقتدار کی جنگ میں تبدیل ہوگئے۔فوج کے سربراہ عبدالفاتح اور پیرا ملٹری فورس کے سربراہ محمّد حمدان کے حمایتی ایک دوسرے سے ٹکرا گئے۔بعدازاں، خانہ جنگی نے تقریباً پورے مُلک ہی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔سلامتی کاؤنسل، افریقی یونین اور او آئی سی اِس ضمن میں کچھ نہ کرسکیں۔

16 نومبر کو امریکا اور چین کے صدور کے درمیان ملاقات ہوئی، جسے دنیا بَھر میں بہت اہمیت دی گئی۔صدر شی جن پنگ، ایپک اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا گئے تھے۔ یہ11 مہینوں میں اُن کی صدر بائیڈن سے دوسری ملاقات تھی، جب کہ وہ چھے سال بعد امریکا گئے تھے۔دونوں عالمی رہنمائوں کے درمیان دوطرفہ فوجی رابطوں کی بحالی، فینٹائل ڈرگ اسمگلنگ کی روک تھام، باہمی تجارت اور آنے والے امریکی صدارتی الیکشنز میں چین کی مداخلت سے متعلق امریکی تحفّظات پر بات ہوئی۔جب کہ عالمی امن کو درپیش معاملات بھی مذاکرات کا حصّہ تھے۔ 

سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی سے مشرقِ وسطیٰ کی سیاسی صُورتِ حال یک سَر بدل گئی۔گزشتہ برس چین کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے، تو ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے ریاض میں ہونے والے او آئی سی اجلاس میں بھی شرکت کی۔ دونوں مسلم ممالک کے درمیان یہ ایک بڑا بریک تھرو تھا کہ دونوں کئی برسوں سے ایک دوسرے کے مقابل رہے، جس کی وجہ سے علاقے کے تنازعات پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے گئے اور کئی ممالک میں بدترین خون ریزی ہوئی۔شام، یمن اور لبنان کی تباہی اس کی واضح مثالیں ہیں۔

سعودی، ایران معاہدے کا ایک فوری فائدہ یہ ہوا کہ یمن میں جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ہوگیا۔یہ جنگ پانچ سال قبل اُس وقت شروع ہوئی تھی، جب حوثی باغیوں نے یمن کے منتخب صدر کا تحتہ اُلٹ کر اُنہیں مُلک چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔حوثی باغیوں کی پُشت پر ایران تھا، تو حکومت کو سعودی عرب کی حمایت حاصل تھی۔اقوامِ متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق اس خانہ جنگی میں پچاس ہزار شہری ہلاک ہوئے۔ 

گزشتہ برس کی ایک اہم خبر دہلی میں ہونے والی جی۔20 کانفرنس کے موقعے پر ایک نئی عالمی تجارتی راہ داری کا اعلان بھی تھی۔اسے بھارت، مشرقِ وسطیٰ، یورپ کوریڈور کا نام دیا گیا یعنی ’’آئی ایم ای‘‘۔یہ سی پیک طرز کی عالمی تجارتی راہ داری ہے، جس کا مقصد جنوب مشرقی ایشیا سے مشرقِ وسطیٰ، پھر یورپ اور آخر میں امریکا کو باہم ملانا ہے۔ اس کے ذریعے ممبئی، دُبئی اور یونان کی بندرگاہوں سے مال کی نقل و حمل ہوگی۔نیز، اس منصوبے میں شاہ راہوں کی تعمیر بھی شامل ہے۔بہت سے ماہرین کے مطابق یہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا جواب ہے۔

گزشتہ برس تُرکی میں ہونے والے انتخابات میں صدر اردوان ایک مرتبہ پھر صدر منتخب ہوئے۔گویا اُنھوں نے بیلٹ بکس کے ذریعے ثابت کردیا کہ وہ عوام کی بہترین چوائس ہیں اور عوام اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اردوان ہی وہ رہنما ہیں، جو تُرکی کو مشکل معاشی حالات سے نکال سکتے ہیں۔تُرکی میں انتخابات ایک ایسے وقت ہوئے، جب فروری میں آنے والے ہول ناک زلزلے میں60 ہزار کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوئے اور ہر طرف تباہی پھیلی ہوئی تھی۔منہگائی اور بے روزگاری کے ساتھ لیرا کی گراوٹ نے حکومت کی ساکھ الگ داؤ پر لگا رکھی تھی۔

اِسی لیے اکثر تجزیہ کار صدراردوان کے لیے انتخابات کو ایک مشکل امتحان قرار دے رہے تھے اور ایسا ہی ہوا۔ کانٹے دار کا مقابلہ دیکھنے کو ملا، جس میں صدر اردوان کو دوسرے مرحلے میں کام یابی حاصل ہوئی۔اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ جب وہ تین مرتبہ وزیرِ اعظم رہے، تو ان کی پالیسی میں مُلکی ترقّی اور معیشت کی بحالی اہم ترین رہیں، اُنہوں نے بڑے بڑے شہری منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچائے، جنہوں نے تُرکی کو ترقّی کا رول ماڈل بنا دیا۔اُدھر، صدر شی جن پنگ تیسری مرتبہ چین کے صدر منتخب ہوئے۔ 

اِس طرح وہ مائوذے تنگ اور جدید چینی معیشت کے معمار، ڈینگ ذیائو پنگ جیسے عظیم چینی رہنمائوں کی صف میں شامل ہوگئے۔صدر شی جن پنگ کو کمیونسٹ پارٹی کے دو ہزار سے زاید ارکان نے منتخب کیا، جو مُلک کے ہر علاقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اب وہ مزید پانچ سال چین کی قیادت کریں گے۔ صدر شی جن پنگ نے نہ صرف چین کی تیز رفتار ترقّی کا تسلسل برقرار رکھا، بلکہ اس میں اپنے ویژن سے زبردست وسعت اور انفرادیت شامل کی، جسے’’بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے‘‘ کی شکل میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔اِس منصوبے نے دنیا کے ہر خطّے میں اپنے اثرات دِکھائے۔

پاکستان بھی اس منصوبے کا ایک اہم شراکت دار ہے۔صدر شی جن پنگ نے چین کو بین الاقومی سیاست کے اسٹیج پر مرکزی مقام دِلوانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔یہی وجہ ہے کہ چین آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے، تو دوسری طرف، اب کسی بھی عالمی معاملے پر چین کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں رہا۔برکس بینک اور شنگھائی فورم جیسے عالمی فورمز چین کی سرپرستی میں مغربی اداروں کے متبادل کے طور پر کام یابی سے کام کررہے ہیں۔ ہالینڈ میں گریٹ ولڈرز کی فریڈم پارٹی کی کام یابی نے نہ صرف یورپ بلکہ دنیا کے سیاسی منظر نامے میں ہل چل مچا دی۔ 

ولڈرز تارکینِ وطن، بالخصوص مسلمانوں سے متعلق اپنی انتہا پسندانہ سوچ کی وجہ سے بدنام ہیں۔ انہوں نے اِسی سوچ کی بنیاد پر انتخابات میں حصّہ لیا اور کام یاب رہے۔ گو کہ اُن کی پارٹی واضح اکثریت تو حاصل نہ کر سکی، تاہم150 کے ایوان میں39 نشستیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی۔ ولڈرز کا شمار یورپ اور مغربی دنیا کے اہم قوم پرست رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ اُن کی جیت سے تارکینِ وطن کی تشویش میں اضافہ ہوا۔یاد رہے، یورپی ممالک میں جاکر آباد ہونے کے مواقع بہت گھٹتے جارہے ہیں، بلکہ خواہش مند افراد کو واضح اور کُھلے الفاظ میں پیغام دیا جارہا ہے کہ اُن کی آمد ناپسندیدہ ہے۔

گزشتہ برس اِس ضمن میں کئی ممالک نے نئے اور سخت قوانین متعارف کروائے، جن سے تارکینِ وطن کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوا۔ جنوب مشرقی ایشیا میں ایک اہم انتخابی معرکہ تھائی لینڈ میں ہوا، جس میں فیو تھائی اور موفارورڈ پارٹیز نمایاں رہیں۔چوں کہ کسی کو واضح اکثریت نہیں مل سکی تھی، اِس لیے رہنما کافی جوڑ توڑ کے بعد ایک اتحادی حکومت تشکیل دینے میں کام یابی حاصل کرسکے۔ تھائی لینڈ گزشتہ پندرہ سال سے سیاسی اذیّت میں مبتلا ہے۔ اِس صدی کے شروع میں وہ ایک کام یاب معیشت کا حامل مُلک تھا، لیکن پھر تھاکسن شنواترہ کو، جن کا شمار جنوب مشرقی ایشیا کے اُن ویژنری سیاست دانوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے خطّے کو دنیا کا سب سے ترقّی یافتہ علاقہ بنایا، فوج نے اقتدار سے محروم کردیا۔

شاید تھائی فوج کو یہ سب پسند نہ تھا بلکہ اسے منتخب نمائندوں اور پارلیمان سے ایک طرح کی چڑ سی تھی۔تھاکسن شنواترہ کے خلاف کرپشن کا بیانیہ بنایا گیا اور اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے اُنھیں اقتدار سے ہٹا دیا گیا، جس کے بعد سے مُلک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔تھائی لینڈ کی معیشت گرتی چلی گئی اور وہ جنوب مشرقی ایشیا میں سب سے پیچھے رہ گیا۔بہرکیف، تھائی عوام کو توقّع ہے کہ نئی قیادت اُن کے معاشی مسائل حل کرنے میں کام یاب رہے گی۔ 

چارلس سوئم اب برطانیہ اور دولتِ مشترکہ میں شامل ممالک کے نئے بادشاہ ہیں۔ ملکہ الزبتھ دوئم کے انتقال کے بعد اُن کی ایک شان دار تقریب میں تاج پوشی ہوئی، جسے دنیا بھر کے کروڑوں افراد نے ٹی وی اسکرینز پر دیکھا، جب کہ عالمی رہنماؤں کی ایک بہت بڑی تعداد نے بھی اس تقریب میں شرکت کی۔ برطانیہ کو دنیا میں’’ جمہوریت کی ماں‘‘ کہا جاتا ہے، تاہم وہاں بادشاہت کا تسلسل بھی صدیوں سے جاری ہے۔البتہ یہ ضرور ہے کہ بادشاہ کی حیثیت صرف علامتی ہے۔

یہ بات کس قدر عجیب ہے کہ دنیا کے تمام ممالک ایک مسئلے کے حل پر متفّق تو ہیں، لیکن عملی اقدامات سے گریزاں ہیں۔ یہ حقیقت دُبئی میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس میں ایک مرتبہ پھر سامنے آئی۔دبئی میں یکم سے12 دسمبر تک کوپ ۔28منعقد ہوئی، جس میں دوسو ممالک کے رہنماؤں، ماہرینِ موسمیات اور عالمی اداروں نے شرکت کی۔گزشتہ برس موسمیاتی تبدیلیوں نے بہت ستم ڈھائے۔ایک تشویش ناک بات یہ بھی تھی کہ دنیا کے اکثر ممالک میں درجۂ حرارت تاریخ کی بلند ترین سطح پر ریکارڈ کیا گیا، جب کہ سال کے آخر میں موسمِ سرما کا آغاز ہوا، تو اُس کی شدّت میں بھی اضافہ نوٹ کیا گیا۔

اِن دنوں دنیا کے بیش تر ممالک میں موسمِ سرما ہے اور یہ سردیاں کیا رنگ دِکھائیں گی، دنیا یہ بھی جلد ہی دیکھ لے گی۔یہ خوف ناک خبریں بھی عالمی میڈیا میں آتی رہیں کہ منجمد علاقوں میں بڑے بڑے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں(کئی گلیشیئرز تو وسعت میں کئی ممالک کے برابر ہیں)۔گزشتہ برس دنیا کو کئی سمندری طوفانوں کا بھی سامنا رہا، جب کہ ماہرین اِن کی شدّت میں اضافے کی بھی پیش گوئیاں کرتے رہے۔جب عالمی رہنما موسمیاتی آفت سے نبرد آزما ہونے کے لیے اکھٹے ہوتے ہیں، تو تشویش بَھری تقاریر تو بہت سُننے کو ملتی ہیں، لیکن ٹھوس حل کی طرف اقدامات بہت سُست رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

ماہرین حیران و پریشان ہیں کہ اِن حالات میں پیرس کانفرنس میں دنیا کا درجۂ حرارت کنٹرول کرنے کے طے کردہ اہداف اگلے چھے برسوں میں کیسے حاصل کیے جائیں گے۔نیز، غریب ممالک کو وہ فنڈز بھی دست یاب نہیں، جن کا کانفرنس میں وعدہ کیا گیا تھا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں آرٹی فیشل انٹیلی جینس اور خلائی تسخیر کی دوڑ غالب رہی۔آرٹی فیشل انٹیلی جینس کے ضمن میں ایک اہم اور چونکا دینے والا یہ سوال سامنے آیا کہ کیا اگلے برسوں میں روبوٹ، انسان کی جگہ لے لیں گے۔

اِسی سلسلے میں دنیا کی بڑی آرٹی فیشل انٹیلی جینس کمپنیز کے سربراہان کا وائٹ ہاؤس میں ایک غیر معمولی اجلاس ہوا، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ آرٹی فیشل انٹیلی جینس کی حدود سے متعلق واضح اور ٹھوس قوانین بنائے جائیں، وگرنہ وہ دن دُور نہیں، جب ہر شعبے میں روبوٹس، انسانوں کے لیے چیلنج بن جائیں گے۔دوسری طرف، اسپیس ریس بھی تیزی سے جاری ہے اور اس میدان میں بھارت نے ایک بڑی کام یابی اُس وقت حاصل کی، جب چاند کے جنوبی حصّے پر پہلی مرتبہ اُس کے خلائی جہاز نے لینڈنگ کی۔ امریکا اور چین کی کوشش ہے کہ اگلے دو، تین برسوں میں انسان کو ایک مرتبہ پھر چاند پر اُتارا جائے۔