• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مادرِ وطن کیلئے لازوال قُربانیاں، مُلکی ترقی میں معاونت، کئی دفاعی منصوبوں کا آغاز

ڈی جی، آئی ایس پی آر، میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے اپنی 2023ء کی پہلی پریس کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف مسلّح افواج کی تیاریوں، قومی سلامتی کے خطرات سے نمٹنے کےعزائم، مُلک کے لیے سماجی و معاشی ترقّی کی اہمیت اور مُلک کے سیاسی حالات و واقعات سمیت قومی اہمیت کے تقریباً تمام اہم امور پر مسلّح افواج کا موقف مؤثر انداز سے پیش کیا تاکہ عوام کی حقائق تک رسائی ہو اور وہ افواہوں یا بے یقینی کے شکار نہ ہوں۔ اُنھوں نے واضح طور پر بتایا کہ افواجِ پاکستان کسی خاص سیاسی سوچ یا جماعت کی نمائندگی نہیں کرتیں۔ 

مُلک کو جن داخلی اور خارجی سیکیوریٹی چیلنجز کا سامنا ہے، اُن پر اہلِ وطن کو توجّہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔اُنہوں نے سوشل میڈیا پر جاری افواجِ پاکستان کے خلاف گھٹیا بیانیوں کی مذمّت کی اور محکم ارادہ ظاہر کیا کہ انھیں ہر صُورت روکا جائے گا۔سال کے آغاز میں چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل سیّد عاصم منیر نے منگلا کور ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا، جہاں سربراہ پاک فوج کو سینٹرل کمانڈ اور اسٹرٹیجک کور کی آپریشنل تیاریوں پر بریفنگ دی گئی۔ سربراہ پاک فوج نے جوانوں اور افسران کو مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے اور پیشہ ورانہ مہارت پر توجّہ مرکوز رکھنے کی ہدایت کی۔

2023ء کے آغاز ہی سے پاکستان کو دہشت گردانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔پولیس لائن، پشاور میں خود کُش حملے کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے کور ہیڈ کوارٹر اور لیڈی ریڈنگ اسپتال، پشاور کا دورہ کرکے زخمی پولیس جوانوں کی عیادت کی۔انہیں دہشت گردی کے عوامل اور محرّکات پر بریفننگ بھی دی گئی۔گزشتہ برس بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں نے سیکیوریٹی اہل کاروں اور حسّاس تنصیبات کو نشانہ بنایا، جس کے دوران درجنوں سیکیوریٹی اہل کاروں نے مُلک و قوم کے تحفّظ کی جنگ لڑتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ دہشت گردی کے اِن واقعات میں افغان سرزمین استعمال کیے جانے کے ناقابلِ تردید شواہد سامنے آئے، تاہم افغانستان کی طالبان حکومت، پاکستان کے احتجاج کے باوجود دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدمات کرنے سے قاصر رہی۔ 

اِس ضمن میں ڈی آئی خان کا واقعہ بھی نہایت اہم ہے، جہاں دو درجن جوان مُلک پر قربان ہوئے، جب کہ چترال میں بھی افغانستان سے دہشت گردانہ حملے کیے گئے، جنھیں ناکام بنا دیا گیا۔اِسی طرح میانوالی ائیر بیس پر حملہ آور دہشت گردوں کو بھی سیکیوریٹی اہل کاروں نے ہلاک کردیا، جن کی شناخت افغان شہریوں کے طور پر ہوئی۔ اِس پس منظر میں قومی سلامتی کمیٹی نے پاکستان میں مقیم غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا فیصلہ کیا گیا، جسے پاک فوج کی مکمل تائید حاصل تھی۔

دہشت گردانہ حملوں کے ضمن میں 9 مئی کے واقعات کو کبھی بھی بُھلایا نہیں جاسکے گا، جب تحریکِ انصاف کے کارکنان نے ایک عدالتی اور سیاسی ایشو پر احتجاج کرتے ہوئے پاک فوج کے ہیڈکوارٹر، کور کمانڈرہاؤس سمیت شہداء کی یادگاروں پر دھاوا بول کر انھیں شدید نقصان پہنچایا۔ اِس دوران پاک افواج نے بہت تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا تاکہ مُلک کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ناکام بنائی جاسکے۔

بعدازاں، اِن حملوں میں ملوّث افراد پر مقدمات درج ہوئے اور انھیں گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کیا گیا، جب کہ ایک سو کے قریب شرپسندوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کیا گیا، جسے پہلے سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے غیر قانونی قرار دیا، تاہم ،بعد میں ایک اور بینچ نے تمام تر شواہد اور قانونی آرا سُننے کے بعد شرپسندوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی اجازت دے دی۔

سال کی پہلی سہ ماہی میں دو ہفتوں پر مشتمل مشترکہ مشق ’’اتاترک 2023-12ء‘‘ کا تربیلا میں اہتمام کیا گیا، جس میں تُرک اور پاکستانی اسپیشل گروپس کے دستوں نے حصّہ لیا۔اِسی طرح کی ایک دوسری مشق ’’الکسح IV‘‘ پاکستان اور سعودی عرب کے فوجی دستوں کے درمیان ملٹری کالج آف انجینئرنگ رسال پور میں منعقد ہوئی۔ اِس دو ہفتے کی مشق کے مقاصد روٹ مارچ، ایریا سرچ، وہیکل پرسنل سرچ اور ایریا کلیئرنس آپریشنز تھے۔ دھماکا خیز مواد سے نمٹنا اس چوتھی مشق کا خاص ہدف تھا، جسے قابلِ اطمینان حد تک حاصل کیا گیا۔بھارت کا نئی دہلی میں’’ آزاد بلوچستان تحریک‘‘ کے نام پر ایک آفس بنانا، پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا کُھلا ثبوت ہے۔ 

پاکستان کی سِول اور ملٹری لیڈر شپ دونوں آگاہ ہیں کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کے پیچھے بھارت کے کئی مقاصد ہیں۔ مثلاً مقبوضہ کشمیر سے توجّہ کم کی جائے تاکہ پاکستان کے وسائل اور توجّہ کا رُخ مغربی سرحد کی طرف رہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر پر سمجھوتے کے لیے مجبور کیا جائے اور اس مقصد کے لیے بلوچستان میں مشکلات کا سلسلہ جاری رکھا جائے، جب کہ ان کارروائیوں کا مقصد سی پیک کی پیش رفت کو ہر ممکن انداز میں روکنا بھی ہے، کیوں کہ ہمارا دشمن سی پیک کو اپنی علاقائی خود مختاری کے ساتھ، اپنی اقتصادی اور بحری طاقت کے لیے بھی خطرہ سمجھتا ہے۔ 

چینی شہریوں اور فوج کے اہل کاروں کو نشانہ بنانا بھی اسی سازش کی مزید چند کڑیاں ہیں۔عسکری قیادت کا موقف ہے کہ ہر پاکستانی یہ حقیقت سمجھے کہ طاقت وَر فوج کے بغیر ہمارا مستقبل افغانستان اور لیبیا جیسا ہو سکتا ہے۔ موجودہ بین الاقوامی حالات میں امریکا کا روس اور چین کے خلاف معاندانہ رویّہ، چین کے وَن بیلٹ روڈ منصوبے، خاص طور پر پاکستان میں سی پیک منصوبوں کی مخالفت سے ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم، ہماری مُلکی سطح پر یہ کوشش قابلِ ستائش ہے کہ پاکستان کو امریکا اور چین دونوں سے دوستانہ تعلقات رکھنے ہیں۔ 

اسی اہمیت کے پیشِ نظر جنرل عاصم منیر نے 2023ء کی پہلی سہ ماہی میں گوادر کا دورہ کیا، جہاں اُنہیں سی پیک سیکیوریٹی اور ماحول کو دہشت گردی سے پاک رکھنے کی آپریشنل تیاریوں پر بریفنگ دی گئی۔اُنھوں نے مقامی معزّزین، منتخب نمائندوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے بات چیت کی۔ آرمی چیف نے مُٹّھی بھر گم راہ عناصر کے پراپیگنڈے سے ہوشیار رہنے کی درخواست کی اور سماجی و اقتصادی ترقی پر خاص زور دیا۔ 

سربراہ پاک فوج نے تعلیم، سولر سسٹم کی تنصیب، ماہی گیری، پانی، صحت، کھیل اور معاشیات سے متعلق کئی فلاحی منصوبوں کا اعلان بھی کیا۔مُلک کی سِول اور عسکری قیادت اِس بات سے بھی آگاہ ہے کہ پاکستان پر خفیہ اور ظاہری دشمنوں نے ہائبرڈ وار فیئر یعنی ایک کثیر الجہتی جنگ مسلّط کر رکھی ہے۔ اِس جنگ میں حملہ آور سامنے نہیں آتا، اِسے’’ ففتھ جنریشن وار‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس ہائبرڈ وار فیئر کے مقاصد میں مُلک کو غیر مستحکم، اقتصادی اور دفاعی طور پر کم زور کرنا ہے۔

سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک مربوط، قابلِ عمل منصوبے ’’گرین پاکستان پراجیکٹ اینی شیٹیو‘‘ کا آغاز کیا۔اِس ضمن میں10 جولائی 2023ء کو اسلام آباد میں ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں پاکستان کو درپیش اقتصادی اور سیکیوریٹی چیلنجز پر مباحثے کے بعد پاکستان کو خوش حال مُلک بنانے کے لیے’’ گرین پاکستان پراجیکٹ‘‘ کا افتتاح کیا گیا، جس کے تحت بنجر زمینیں سیراب کرنے کے لیے آب پاشی کے زیرِ تعمیر منصوبے ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کے ساتھ درجنوں نئے منصوبے بھی ہنگامی طور پر شروع کیے جائیں گے۔ 

بعد ازاں، آرمی چیف نے خانیوال ماڈل ایگری کلچر فارم کی تقریب میں بھی شرکت کی۔ اس فارم کے افتتاح کا مقصد زرعی شعبے کو تقویت اور قومی خوش حالی کو فروغ دینا ہے۔حکومت، حزبِ اختلاف اور اہلِ علم و دانش کی مدد سے تیار کی جانے والی ’’قومی سیکیوریٹی پالیسی‘‘ کی دستاویز بھی ایک اہم پیش رفت ہے، جس میں قومی اتفاقِ رائے کو ممکن بنایا گیا ہے۔ 

اس پالیسی کے چار بڑے نکات میں اوّل: علاقائی معیشت اور تعلقات کو فوقیت دی گئی ، جس کے تحت علاقائی ممالک سے تنازعات کا خاتمہ کرتے ہوئے بہتر تعلقات قائم کیے جائیں گے تاکہ ریاستی مفادات اور معیشت مضبوط سے مضبوط تر ہو۔ دوم: آئندہ کسی تنازعے یا جنگ کا حصّہ نہیں بنا جائے گا، بلکہ پاکستان کا کردار تنازعات کے خاتمے اور دو طرفہ تعاون سے جڑا ہو گا۔ سوم: داخلی حکومتی عمل داری کی بہتری کو فروغ دیا جائے گا۔ چہارم: مُلک میں داخلی اور خارجی سطح کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قومی اداروں کے استحکام پر توجّہ مرکوز رکھی جائے گی۔پہلی مرتبہ اِس حقیقت کا برملا اقرار کیا گیا کہ سِول، ملٹری تعلقات میں ہم آہنگی لازم ہے۔

سیاسی فریقین کی جانب سے اداروں کی کردار کُشی یا اُنھیں سیاسی معاملات میں اُلجھانا قومی مفاد میں نہیں۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مضبوط تعلقات کی بنیاد پر داخلی، علاقائی اور عالمی سطح پر درپیش چیلنجز کا بہتر طور پر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں معیشت کی مکمل بحالی کے لیے عالمی اداروں پر حد سے بڑھتے انحصار کو بتدریج کم کرنا ہے۔اِسی ضمن میں آرمی چیف کے مختلف ممالک کے دورے بھی نہایت اہمیت کے حامل رہے، جن کے نتائج مُلک میں بھاری غیر مُلکی سرمایہ کاری کی صُورت سامنے آئے۔ 

جنرل عاصم منیر نے چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت کئی ممالک کے دورے کیے، جب کہ اُنھوں نے سال کے آخر میں امریکا کا بھی کام یاب دورہ کیا، جس کے دوران اُن کی اعلیٰ امریکی حکّام کے علاوہ ممتاز پاکستانیوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔اِن دوروں کا مقصد جہاں مُلک کے دفاعی اور سلامتی مفاد کا تحفّظ تھا، وہیں اُن کا مُلکی اقتصادی ترقّی پر بھی فوکس رہا۔برادر مُلک تُرکی میں گزشتہ برس بدترین زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی، تو مصیبت کی اس گھڑی میں پاک فوج کے دستے سب سے پہلے وہاں پہنچے اور اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے ریسکیو اور خدمت کی شان دارمثالیں قائم کیں، جن کا تُرکی میں اعلیٰ ترین سطح پر اعتراف کیا گیا۔

30 اگست کو چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل سیّد عاصم منیر نے جہلم کے قریب ٹلہ فیلڈ فائرنگ رینج کا دورہ کیا، جہاں اُنہوں نے لائیو فائر، جدید VT-4 ٹینکوں کی مشقیں، لانگ رینج SH-15، آرٹلری گنز کی شوٹ اور اسکوٹ صلاحیتوں اور جدید آلات کی نمائش کا معائنہ کیا۔ انہوں نے اسٹرائیک کور کے دستوں کی جانب سے جدید ترین ہتھیاروں پر اعلیٰ درجے کی پیشہ ورانہ مہارت اور جذبے کو سراہا۔17ستمبر سے یکم اکبوتر تک ملٹی نیشنل اسپیشل فورسز کی مشق Eternal Brotherhood IIکی افتتاحی تقریب، بروتھا میں منعقد ہوئی۔ 

دو ہفتوں پر مشتمل اِن مشقوں میں پاکستان، قازقستان، قطر، تُرکی اور ازبکستان کے دستوں نے حصّہ لیا تاکہ دہشت گردی کے خلاف ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اُٹھایا جاسکے۔ پاکستان نے اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں بہترین دفاعی سسٹم، ابابیل کا کام یاب تجربہ کیا۔ ابابیل میزائل زمین سے زمین پر مار کرنے والا بلیسٹک میزائل ہے، جو2200کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے۔ کچھ دنوں بعد غوری ویپن سسٹم کا بھی کام یاب آزمائشی تجربہ کیا گیا۔ اِن دونوں میزائل تجربات کا مقصد خطّے میں اسٹریٹجک استحکام بڑھانا ہے۔

24 اکتوبر کو آرمی چیف جنرل سیّد عاصم منیر نے جنرل ہیڈ کوارٹر میں پاکستان میں تعیّنات فلسطینی سفیر احمد جوّاد ربیع سے ملاقات کی۔ اُنہوں نے جنگ میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں پر ظالمانہ تشدّد اور ہلاکتوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ شہری آبادی، تعلیمی اداروں، امدادی کارکنوں اور اسپتالوں پر مسلسل حملوں اور غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کو انسانیت کے خلاف سنگین جرم قرار دیا۔ آرمی چیف نے جنگ کے فوری خاتمے، غزہ کے لیے انسانی ہم دردی کی راہ داری کھولنے، شہریوں کے تحفّظ اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی پاس داری پر زور دیا۔

4فروری 2023 کو وزیرِ دفاع، خواجہ محمّد آصف نے ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کے دورے کے دوران سربراہ پاک فضائیہ، ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو سے ملاقات کرکے سیلاب متاثرین کی بحالی میں پاک فضائیہ کے غیر معمولی کردار کی تعریف کی۔سربراہ پاک فضائیہ نے وزیرِ دفاع کو نیشنل ایرواسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک (NASTP) پراجیکٹ سے متعلق آگاہ کیا۔

فروری کے وسط میں پاک فضائیہ کے دستے نے فضائی مشق ’’اسپیئرز آف وکٹری 2023ء‘‘ میں حصّہ لیا، جو ائیر وار سینٹر، دھران (شاہ عبد المعیز ائیر بیس) سعودی عرب میں منعقد ہوئی۔ میزبان مُلک سعودی عرب سمیت بحرین، یونان، اردن، پاکستان، قطر، برطانیہ اور امریکا کی فضائی افواج نے اِس مشق میں شرکت کی۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں’’ پاک چین شاہین۔10‘‘ مشترکہ فضائی مشقوں کا چین کے شمال مغربی شہروں، جیوکوان اور نیچوان میں آغاز ہوا۔

پیپلز لبریشن آرمی ائیر فورس اور پاک فضائیہ کی یہ مشترکہ مشقیں تزویراتی شراکت داروں، مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے والے اتحادی ممالک کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے اور آپریشنل تیاریوں میں بڑی معاون ثابت ہوں گی۔ ستمبر کے پہلے دو ہفتوں تک جاری رہنے والی بین الاقوامی فضائی مشق ’’برائٹ اسٹار 2023ء‘‘مصر کے محمّد مجیب ملٹری بیس پر منعقد ہوئی، جس میں پاک فضائیہ کےJF-17 طیاروں نے حصّہ لیا۔ اِس مشق کو عالمی سطح پر منعقد ہونے والی سب سے بڑی مشق سمجھا جاتا ہے۔

پاک بحریہ کا ذکر کیا جائے، تو آٹھویں ملٹی نیشنل میری ٹائم ایکسر سائز ’’AMAN-2023‘‘ کا آغاز 10فروری سے نیوی ڈاکیارڈ، کراچی میں ہوا، جس میں50 سے زائد ممالک کے بحری جہازوں، طیاروں، اسپیشل آپریشن فورسز اور مبصّرین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اُس وقت کے چیف آف نیول اسٹاف، ایڈمرل امجد خان نیازی نے اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ اِس طرح کے مواقع ہمیں علاقائی امن اور مشترکہ خوش حالی کے اہداف کے مزید قریب لائیں گے۔‘‘ ایڈمرل محمّد امجد خان نیازی نے فروری کے پہلے ہفتے میں ساحلی علاقوں کے اگلے موچوں کا دورہ کیا۔ نیول چیف نے دورے کے دوران25 بستروں پر مشتمل اسپتال کا بھی افتتاح بھی کیا۔ 

اس جدید اسپتال کا مقصد جوانوں کے ساتھ مقامی آبادی کو معیاری طبّی سہولتوں کی فراہمی ہے۔ پاکستان کے نیلے پانیوں کے دفاع کے ضمن میں یہ خبر بھی باعثِ اطمینان ہے کہ وزارتِ دفاعی پیداوار، پاکستان نیوی اور کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس کی کاوشوں سے اب پاکستان میں جہاز سازی ممکن بنا دی گئی ہے۔ اس حوالے سے مقامی طور پر ڈیزائن کردہ گن بوٹ کی تیاری کا آغاز کراچی شپ یارڈ میں کیا گیا۔

ستمبر کے دوسرے ہفتے میں نیوی چیف ایڈمرل محمد امجد خان نیازی نے بلوچستان کے ساحلی علاقے اورماڑہ میں کیڈٹ کالج کا افتتاح کیا۔ یہ کالج ساحلی پٹّی اور بلوچستان کے نوجوانوں کو معیاری تعلیمی سہولتوں کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔20 دسمبر کو اردون کے بادشاہ عبداللہ دوم نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا کو میڈل’’ آرڈر آف دی اسٹار آف اردن‘‘ سے نوازا۔