کراچی(ٹی وی رپورٹ) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ میرا کوئی بینک اکاؤنٹ یا اثاثہ باہر نہیں ہے،میری شفافیت میں کوئی مسئلہ ہوتا تو میرا بیٹا عمران خان کو عدالت میں لے کر نہیں جاتا،اپنی آمدنی سے چیریٹی اور بچوں کو گفٹ دینے کا فیصلہ مجھے کرنا ہے، زراعت اور ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے بجٹ میں کافی اقدامات کیے ہیں، ایکسپورٹ دس بلین ڈالر تک بڑھ گئی تو انٹرنیشنل ڈونرز کی ضرورت ختم ہوجائے گی،ایڈوانس ٹیکس کا مطلب یہ نہیں کہ اگلے سال کے ٹیکس پہلے لے لیے جائیں، جائیداد کی قیمتوں کا تعین اب پاکستان بینکنگ کونسل کا پینل کرے گا، ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے اسٹیک ہولڈرحقیقی قیمتوں کے تعین کیلئے تیار ہوگئے ہیں،اکستانی شہریوں کو بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنے کا پابند بنانے کیلئے کام کررہے ہیں، آف شور کمپنیوں میں قانونی طریقے سے سرمایہ کاری کا جائزہ لینے کیلئے چند ہفتوں میں پیکیج تیار کرلیں گے۔ وہ جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں پاکستان میں خودسوزی کے بڑھتے واقعات پر ماہر نفسیات ڈاکٹر پروفیسر رضوان تاج سے بھی گفتگو کی گئی۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ایف بی آر کا ہدف پورا ہونااور زرمبادلہ کے ذخائر 23ارب ڈالر تک پہنچنا تاریخی امر ہے، تین سال میں ٹیکس ریونیو میں ساٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے، اگر کوشش کی جائے تو چیزیں مزید بہتر ہوسکتی ہیں، زراعت اور ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے بجٹ میں کافی اقدامات کیے ہیں، ایکسپورٹ کے پانچ بڑے سیکٹرز کو زیرو سیلز ٹیکس کردیا ہے، اگلے دو سال میں ایکسپورٹ دس بلین ڈالر تک بڑھ گئی تو انٹرنیشنل ڈونرز کی ضرورت ختم ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت 221ارب کے ریفنڈز ہیں ، اکتیس اگست تک تمام پرانے ریفنڈز کلیئر کردیں گے، ایڈوانس ٹیکس ہر سال لیے جاتے ہیں جو ہمارے سسٹم کا حصہ ہے، مالی سال کے اختتام پر ٹیکس ریکوری کرنا اچھی بات ہے، ایڈوانس ٹیکس کا مطلب یہ نہیں کہ اگلے سال کے ٹیکس پہلے لے لیے جائیں، اچھی خبر کو اچھی خبر رہنے دیا جائے تو اچھا ہے۔ ریئل اسٹیٹ کو دستاویزی بنانے کے اقدامات پر اسحاق ڈار نے کہا کہ جائیداد کی ڈی سی ویلیوایشن حقیقی بنیادوں پر نہیں ہوتی ہے، جائیداد کی مارکیٹ ویلیو اس سے بیس گنا زیادہ ہوتی ہے، جائیداد کی قیمتوں کا تعین اب پاکستان بینکنگ کونسل کا پینل کرے گا، فائنانس بل منظور ہونے کے بعد ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے اسٹیک ہولڈرحکومت کے ساتھ بیٹھ کر حقیقی قیمتوں کے تعین کیلئے تیار ہوگئے ہیں، اس سے حکومت کے ریونیوں میں خاصا اضافہ ہوگا، صوبے ڈی سی ویلیو ایشن کو مارکیٹ کے مطابق کردیتے تو پھر ہمیں فائنانس بل میں ترمیم نہیں کرنا پڑتی۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ آف شور کمپنیاں غیرقانونی نہیں ہوتی ہیں، آف شور کمپنی میں پیسہ قانونی ہونا چاہئے، ریاست پاکستان کی اپنی انٹرپرائزز ہیں، پی آئی اے کی اپنی آف شور کمپنی ہے، پاناما لیکس ماضی کی لسٹ ہے جسے دیکھا جارہا ہے، پاکستانی شہریوں کو بیرون ملک اثاثے ڈیکلیئر کرنے کا پابند بنانے کیلئے کام کررہے ہیں، آف شور کمپنیوں میں قانونی طریقے سے سرمایہ کاری ہوئی ہے یا نہیں اس کے جائزے کیلئے چند ہفتوں میں مکمل پیکیج تیار کرلیں گے، بزنس کمیونٹی کا مطالبہ ہے کہ بیرون ملک اثاثوں کے حوالے سے استثنیٰ دیا جائے، یہ اچھی تجویز ہے مگر سیاستدان اور پبلک آفس ہولڈرز کیلئے استثنیٰ نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کا چوتھا ملک ہے جس کے ارکان پارلیمان کی ٹیکس ڈائریکٹری شائع ہوتی ہے، اگر کسی رکن پارلیمنٹ نے اپنے مکمل اثاثے ظاہر نہیں کیے تو اس کے اوپر سزا ہے، دنیا میں کراس بارڈر سرمایہ کاری ہوتی ہے اس کا ظاہر کیا جانا ضروری ہے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ میں اپنے آپ کو فرانزک آڈٹ کیلئے پیش کرچکا ہوں،کچھ سیاستدان میرے حوالے سے بہت کمزور بیانات دیتے ہیں، میری ڈیکلریشن اور شفافیت میں کوئی مسئلہ ہوتا تو میرا بیٹا عمران خان کو عدالت میں لے کر نہیں جاتا، میرا ہر پیسہ دستاویزی ہے، جنرل پرویز مشرف کے دور میں چھ سال نان ٹیکس ریذیڈنٹ تھا، بیرون ملک بطور فائنانشل ایڈوائزر میری تمام آمدنی ای سی پی میں ڈیکلیئرڈ ہے، اپنی آمدنی کے استعمال کا فیصلہ مجھے کرنا ہے کہ مجھے چیریٹی کتنی کرنی ہے اور بچوں کو گفٹ کیا کرنا ہے، میں نے بچوں کو جو گفٹ کیا وہ ان کا سرمایہ ہے، اس سے انہوں نے کبھی پاکستان میں کام نہیں کیا، ان کی بیلنس شیٹ مکمل اسکروٹنی کے ذریعے جاتی ہے، میرا کوئی بینک اکاؤنٹ یا اثاثہ باہر نہیں ہے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ خطے کی سیکیورٹی صورتحال کے حوالے سے ایشوز ہیں، اس حوالے سے سول اور ملٹری قیادت چند ہفتے قبل بیٹھی تھی جس میں روڈ میپ طے کیا گیا تھا، وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی پر نیشنل سیکیورٹی کونسل کی میٹنگ میں مشترکہ حکمت عملی بنائی جائے گی، معاشی چیلنجز سے بخوبی عہدہ برآء ہورہے ہیں، معیشت بہتر بنانے اور روزگار بڑھانے کے مواقع پیدا کرنے کیلئے کام کررہے ہیں، توانائی کے تمام منصوبوں پر مسلسل نظر ہے تاکہ 2018ء میں لوڈ شیڈ نگ کا مکمل خاتمہ کیا جاسکے۔پاکستان میں خودسوزی کے بڑھتے واقعات پر گفتگو کرتے ہوئے ماہر نفسیات ڈاکٹر پروفیسر رضوان تاج نے کہا کہ پاکستان میں خودسوزی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے، خودکشی کے جتنے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، خودکشی کے واقعات کوعموماً حادثہ قرار دیدیا جاتا ہے، بچوں میں خودکشی کے کیسوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، بچے امتحانات میں ناکامی، محبت میں ناکامی یا والدین سے جھگڑوں پر خودکشی کرلیتے ہیں، بچوں کی خودکشیوں میں اضافے کی وجہ والدین کا انہیں اعتماد نہ دینا ہے، خودکشی کرنے والے 95 فیصد لوگ ذہنی بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔