مصنّف: علّامہ محمّد اقبال
ترتیب: پروفیسر صابر کلوروی
صفحات: 144، قیمت: 400 روپے
ناشر: مکتبۂ تعمیرِ انسانیت، اردو بازار، لاہور۔
یہ علّامہ اقبال کی ایک نامکمل تصنیف ہے۔ اُنھوں نے 1916ء میں یہ کتاب لکھنی شروع کی، مگر مختلف وجوہ کی بنا پر اسے مکمل نہ کرپائے، صرف دو ابواب ہی لکھ سکے، تاہم اگلے ابواب کے لیے اشارات لکھ لیے تھے، جب کہ بعض اشارات اُن کتب میں بھی درج تھے، جو اِس کتاب کی تدوین میں اُن کے زیرِ مطالعہ تھیں، ان میں سے کچھ اشارات انگریزی زبان میں بھی تھے۔ مرتّب نے ان تمام اشارات کو پانچ ابواب میں تقسیم کر کے اِس کتاب کا حصّہ بنادیا ہے۔پھر یہ کہ اُنھوں نے حواشی میں اِن اشارات کی وضاحت بھی کی ہے۔
علّامہ اقبال نے ایسے صوفیا کے اقوال بھی جمع کر رکھے تھے، جو اُن کے خیال میں اسلام کی تعلیمات سے متصادم ہیں اور شاید وہ انھیں اپنے مؤقف کے حق میں پیش بھی کرتے۔ اگر علّامہ اقبال کی مجموعی فکر کا جائزہ لیا جائے، تو جہاں وہ اہلِ دِل یا صوفیا کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں، وہیں نام نہاد یا جعلی صوفیوں کو آڑے ہاتھوں بھی لیتے ہیں۔وہ عجمی تصوّف کے شدید ناقد تھے، جو عوام کو قصّے کہانیوں میں اُلجھا کر تزکیۂ نفس جیسے اہم و مقصود فریضے سے دُور کردیتا ہے۔