• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لئے تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں ہر سیاسی جماعت کی جانب سے ووٹرز کو خوش کرنے کے لئے بڑھ چڑھ کر وعدے اور دعوے کئے جا رہے ہیں۔ تاہم کسی سیاسی جماعت کی قیادت نے ملک کو درپیش معاشی مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے کوئی ٹھوس تجاویز یا پالیسیاں پیش نہیں کی ہیں۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے افسوسناک ہے کہ گزشتہ چند سال کے دوران پاکستان کو جن معاشی مسائل کا سامنا رہا ہے ان کا تقاضا تو یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ کام کرتیں اور ملک کو درپیش معاشی بحران سے نکالنے کے لئے اپنی جامع پالیسی عوام کے سامنے پیش کرتیں۔ تاہم اس کی بجائے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے اور عوام کو خوش کرنے کے لئے ایسے وعدے کرنے میں مصروف ہیں جو اقتدار حاصل کرنے کے بعد پورے کرنا کسی بھی صورت ممکن نہیں ہو گا۔ یہ صورتِ حال ووٹرز کی سیاسی ناپختگی کی بھی نشاندہی کرتی ہے جو اپنے حقیقی معاشی مسائل کو حل کرکے اپنی حالت زار بہتر بنانے پر توجہ دینے کی بجائے اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت یا شخصیت کو اقتدار میں لانے کے لئے توانائیاں ضائع کرنے میں مصروف ہیں۔

یہ ہمارے اجتماعی سیاسی شعور کا المیہ ہے کہ جب ووٹ کےذریعے اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کا موقع ہوتا ہے تو اسے ہمیں لایعنی سیاسی بحث ومباحثے کی نظر کر دیتے ہیں اور پھر آنے والے عام انتخابات تک اپنے منتخب نمائندوں کو کوستے ہوئے حالات کے بد سے بدتر ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں۔ یہ وہ سیاسی عمل ہے جو ہر چند سال بعد دہرایا جاتا ہے۔

اس صورتحال میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ملک کو درپیش اہم معاشی مسائل کو سیاسی بحث کا حصہ بنایا جائے تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ اقتدار کے حصول کی خواہشمند سیاسی جماعتوں کے پاس معاشی بحران کا کوئی حل موجود ہے یا اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ یہی رونا روئیں گی کہ انہیں حالات کی سنگینی کا علم نہیں تھا۔ اس حوالے سے گزشتہ چند عشروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتےہے کہ پاکستان کو جو بڑے معاشی مسائل درپیش ہیں ان میں توانائی کا بحران سب سے زیادہ گھمبیر ہے۔ ایک طرف گھریلو اور صنعتی صارفین کو اپنی ضرورت کے مطابق درکار بجلی اور گیس میسر نہیں اور دوسری طرف ان کے بڑھتے ہوئے نرخ ایک اہم مسئلہ بن چکے ہیں۔ بجلی اور گیس کی مسلسل قلت ملک کی صنعتی اور اقتصادی ترقی میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ اس کا فوری حل یہی ہے کہ مہنگے داموں بجلی فراہم کرنے والے بجلی گھروں کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کرنے کے ساتھ ساتھ متبادل اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع میں سرمایہ کاری کی جائے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے وسیع مواقع موجود ہیں لیکن آج تک کسی حکومت نے ملک میں شمسی توانائی کے حصول کو فروغ دینے کی کوئی جامع پالیسی تیار نہیں کی ہے۔ ضروری ہے کہ ملک میں توانائی کے بنیادی ڈھانچے کے شعبے سے وابستہ اداروں کی استعداد کار اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے حکمت عملی تشکیل دی جائے۔ علاوہ ازیں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی حوصلہ افزائی کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔

ملک میں امیر اور غریب طبقے کے درمیان خلیج ہر گزرتے دن کے ساتھ وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔ سماجی تفریق سے جہاں ملک کی مجموعی معاشی ترقی متاثر ہوتی ہے وہیں یہ فرق سماجی بدامنی اور شدت پسندی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو طویل مدتی اقتصادی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو مختصر عرصے میں حل کرنا ممکن نہیں ہے لیکن اگر ہم اس کو بطور ایک مسئلہ نظر انداز کرتے رہیں گے تو اس کی شدت کم ہونےکی بجائے مزید بڑھتی رہے گی۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ عام انتخابات میں حصہ لینے والی بڑی سیاسی جماعتیں کھل کر اس حوالے سے اپنی پالیسی واضح کریں۔ اس سلسلے میں ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کےعلاوہ سماجی بہبود کے پروگرام متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ ایسی پالیسیاں متعارف کروانے کی ضرورت ہے جو جامع اقتصادی ترقی کو فروغ دیں۔ علاوہ ازیں آمدنی میں تفاوت کم کرنے کے لیے نوجوان نسل کے لئے روایتی تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل ٹریننگ بھی لازمی قرار دینی چاہیے۔

پاکستان کو درپیش معاشی بحران کی بڑی وجہ مالیاتی خسارہ اور قرضوں کا بوجھ ہے۔ شہریوں سے ٹیکس کے ذریعے حاصل کی جانے والی آمدنی کا بڑا حصہ عالمی مالیاتی اداروں سے لئے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتا ہے۔ اس طرح ہر حکومت قرضوں کے بوجھ میں اضافے کا الزام گزشتہ حکومتوں پر عائد کرکے عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرضوں کے حصول میں مصروف ہو جاتی ہے۔ قرض در قرض سے پیدا ہونے والے اس مالیاتی خسارے کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ملک میں سخت مالیاتی نظم و ضبط پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ علاوہ ازیں ٹیکس وصولی کے طریقہ کار کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل افراد اور اداروں کو مزید نچوڑنے کے لئے ٹیکسز کی شرح میں اضافے کی بجائے ٹیکس نیٹ میں توسیع پر توجہ دے سکیں۔ علاوہ ازیں حکومتی اداروں کے تحت ہونے والے غیر ضروری اخراجات کو کم کرنے اور بیرونی قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لیے پائیدار اقتصادی پالیسیوں کی تشکیل بھی اشد ضروری ہے۔

تازہ ترین