• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے آسمان کی طرح ان دنوں سیاست کی دنیا بھی دھندلاہٹ کا شکار ہے۔ہاتھ کو ہاتھ سجھائی دیتا ہے نہ کوئی صورت نظر آتی ہے۔انتخابات کے انعقاد کا بگل بج چکا ہے لیکن لوگوں کو ابھی تک یقین ہی نہیں آ رہا کہ یہ بیل منڈے چڑھے گی یا نہیں؟گو مگو کی کیفیت نے دلوں کو جکڑ رکھا ہے۔سبب اس کا یہ ہے کہ آج سے دو دہائیاں پہلے سرکار کے پاس پی۔ٹی۔وی اور ریڈیو کی شکل میں دو سرکاری لائوڈ سپیکر ہوتے تھے۔ان لائوڈ سپیکروں سے جو اعلان ہوتا تھا ، لوگ ان پر چار و ناچار ایمان لے آتے تھے۔کوئی دوسری رائے کم ہی سننے میں آتی ہے۔آج صورت حال کچھ نہیں بہت زیادہ مختلف ہے۔آج سرکاری لائوڈ اسپیکروں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی طاقت ور آواز بھی موجود ہے۔یوں سمجھیے کہ آج جتنے موبائل فون ہیں ، اتنی ہی مختلف آراء سامنے آ جاتی ہیں۔ہر آدمی اپنے دل کی بات انگلیوں کی چند حرکات سے لکھ ڈالتا ہے اور دوسروں کی رائے کو متاثر کرتا ہے۔آج سوشل میڈیا کی آواز اتنی طاقت ور ہے کہ سرکاری لائوڈ سپیکروں سے ہونے والے اعلانات کی آوازیں دب کر رہ جاتی ہیں۔وہ نادیدہ ہاتھ جو کل تک اپنی مرضی کے انتخابی نتائج آسانی سے حاصل کر لیا کرتے تھے آج ان کے لیے بہت مشکل پیدا ہو چکی ہے۔سوشل میڈیا پر لوگ اپنی خواہشات اور توقعات کے مطابق رائے دیتے ہیں۔لطف کی بات یہ کہ انھیں اپنی خواہشات اور توقعات پر یقین کرنے والے لوگ بھی مل جاتے ہیں۔ہزاروں لوگ ان کے ہم نوا ہو جاتے ہیں۔

مقابلہ کوئی بھی ہو ایک فریق کو جیتنا ہوتا ہے اور ایک کو ہارنا ہوتا ہے۔لیکن آج سوشل میڈیا دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ سیاسی میدان میں اتری ہوئی ساری سیاسی جماعتیں جیت جائیں گی یا ساری سیاسی جماعتیں ہار جائیں گی۔لوگ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کو جتا رہے ہیں اور ناپسندیدہ جماعتوں کو کھوہ کھاتے ڈال رہے ہیں۔کسی زمانے میں الیکشن سے پہلے چلنے والی ہوائیں بتلا دیا کرتی تھیں کہ اب مسند اقتدار کسے ملے گی۔آج سوشل میڈیا کی ہوا سب ہی کو اپنے زور میں بہائے لیے چلی جارہی ہے۔

آج صبح میں نے اپنا موبائل دیکھا تو پتا چلا کہ ملک بھر کے سرکاری ملازمین پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔سب یہی کہتے نظر آئے کہ ووٹ صرف بلاول بھٹو کے تیر کو دیا جائے گا۔سبب اس کا یہ بتایا گیا کہ بلاول نے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں پانچ برس کے اندر اندر دوگنا کرنے کا اعلان کیا ہے۔یوتھ کارڈ اور ہاری کارڈ کے اعلان نے نوجوانوں اور کسانوں کو بھی تیر کی محبت میں مبتلا کر دیا ہے۔اللہ کرے کہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا جیت جائے لیکن پچھلے چند برسوں میں کراچی اور اندرون سندھ میں ہونے والی ’’ترقی‘‘دیکھ کر دل میں عجیب عجیب وسوسے پیدا ہوتے ہیں۔

کچھ وقت کے توقف کے بعد میں نے دوبارہ سوشل میڈیا کے سمندر میں چھلانگ لگائی تو پاکستان مسلم لیگ کی کام یابی و نصرت کا گوہر ہاتھ لگا۔جس طرح میاں محمد نواز شریف کے چاہنے والے ان کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں حتی کہ ان کے مخالفین بھی یہی کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ اس بار بھی میاں صاحب ہی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر متمکن ہوں گے۔عدالتیں ان کے حق میں مقدمات کے فیصلے سنا رہی ہیں۔دوسری پارٹیوں کے الیکٹیبلز جوق در جوق ان کی پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔اب ان کا سوشل میڈیا ونگ بھی سرگرم نظر آتا ہے۔نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے کی کام یاب کوششیں ہو رہی ہیں۔ویسے بھی تاریخ سے یہی سبق ملا ہے کہ جس پارٹی سے حکومت چھینی گئی ہو اگلی بار تلافی کے لیے اسی کو اقتدار سونپا جاتا ہے۔میاں نوازشریف صاحب سے بہتر تاریخ کے اس سبق کو کون جان سکتا ہے؟ان کی چال ڈھال اور بول چال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگلی بار پھر وہی برسر اقتدار آنے والے ہیں۔

چائے کا ایک کپ نوش کرنے کے بعد تیسری بار اپنا موبائل اٹھایا تو سوشل میڈیا نے خبر دی کہ مظلومیت کی چادر اوڑھنے والی جماعت پی ٹی آئی کامیابی سے ہم کنار ہوا چاہتی ہے۔اس پارٹی کے بیش تر عہدے دار، ووٹر اور سپورٹر عملی طور پر چاہے منقار زیر پر ہیں لیکن سوشل میڈیا پر انھوں نے اپنی پارٹی کی ’’باکس آفس‘‘ کام یابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سب جیت رہے ہیں تو ہار کون رہا ہے؟ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ ہار اس بار بھی جمہور اور جمہوریت ہی کی ہوگی۔بڑے بڑے صنعت کار ، مافیاز، جاگیردار، وڈیرے، قبضہ گروپ اور ذخیرہ اندوز ایک بار پھر جمہوریت کے چڑیا گھر میں پہنچ جائیں گے اور بے چاری چڑیا کے نام پر سارا بجٹ چٹ کر جائیں گے۔کیونکہ ہم اتنی خرابی کے باوجود اب تک اپنے نظام کو درست نہیں کر سکے۔نظام تب درست ہو گا جب ایک عام اور غریب آدمی انتخابات میں حصہ لینے کے قابل ہو گا۔عام آدمی کو اس بار بھی یہ لوگ ایک سیڑھی کی طرح استعمال کریں گے اور پانچ برس کے لیے اس سیڑھی کو کسی توشہ خانے میں رکھ کر بھول جائیں گے۔

تازہ ترین