• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ تب کی بات ہے، جب پاکستان کی سیاسی، اقتصادی اور موسمی و ماحولیاتی صورتِ حال اس قدر دِگرگوں نہیں تھی۔ گرچہ راوی چین ہی چین نہیں لکھتا تھا، لیکن لوگ رات کو بے فکری کی نیند سوتے تھے۔ اُس دَور میں موسموں کے رنگ بھی دل فریب تھے۔ ہوائیں شفّاف، آسمان نیلا اور سفید، سیاہ اور سرمئی بادلوں کی چمک دمک دیدنی ہوا کرتی تھی۔ موسمِ گرما میں خُوب گرمی اور موسمِ سرما میں لہو جما دینے والی سردی پڑا کرتی تھی۔ 

تب دُھند موسمِ سرما کا ایک حسین رنگ ہوتی تھی، جو مہینوں میں کبھی کبھار ہی نمودار ہوتی اور بعض اوقات اتنی گہری ہوتی کہ بازو سیدھا کرنے پر اپنا ہاتھ بھی دکھائی نہ دیتا۔ تاہم، اس قدر گہری دُھند میں بھی سانس لینے میں کوئی دِقّت محسوس نہیں ہوتی تھی اور یہ ہماری عُمر کے بچّوں کے لیے ایک انوکھا تجربہ ہوتا۔ دُھند کے دوران ہم چھت پر چڑھ جاتے اور چاروں طرف جب کچھ نظر نہ آتا، تو خود کو خلا میں اُڑتا محسوس کرتے اور پھر خُوب شور مچاتے۔

لیکن …پھر ان سب موسموں کو کسی کی نظر لگ گئی اور ان کے دِل فریب رنگ ہم سے چِھن گئے۔ زندگی کی تیز رفتاری فضا، زمین اور پانیوں میں زہر گھولتی چلی گئی۔ آبادی تیزی سے بڑھنا شروع ہو گئی۔ آبادی میں اضافہ ہوا، تو نئی رہائشی کالونیاں وجود میں آئیں۔ نئی کالونیاں بنیں، تو فاصلے طویل ہوتے چلے گئے۔ 

تعلیمی اداروں اور دفاتر تک پہنچنا محال ہو گیا اور ان فاصلوں کو پاٹنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اور نِت نئے ذرایع آمد و رفت کی ضرورت آن پڑی۔ نتیجتاً، پبلک ٹرانسپورٹ کے علاوہ موٹر سائیکلز، کاریں اور دیگر گاڑیاں ہر خاندان کی ضرورت بنتی چلی گئیں۔ پھر ان سواریوں میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا اور گھر گھر دو سے تین کاریں آکھڑی ہوئیں، حالاں کہ یہی کار کسی زمانے میں امارت کی نشانی سمجھی جاتی اور محلّے کے کسی ایک آدھ گھر ہی میں دکھائی دیتی تھی۔ 

ان سب سواریوں کے سائیلنسرز سے نکلنے والا دُھواں ہواؤں میں زہر بن کر شامل ہونے لگا اور پھر فضا سے سانس کے ذریعے ان گاڑیوں کے مؤجد حضرتِ انسان ہی کے جسم میں داخل ہونے لگا۔ دھویں کی صُورت پھیپھڑوں میں اُترنے والے زہر نے نِت نئے امراض کو جنم دیا اور یوں اسپتالوں میں مریضوں کا رش بڑھتا گیا۔ 

اسی طرح فیکٹریز کی تیزی سے بڑھتی تعداد نے بھی فضا کو بے تحاشا آلودہ کر دیا۔گاڑیوں اور صنعتوں کی چمنیوں سے خارج ہونے والے اس دھوئیں نے دُھند کے ساتھ مل کر ’’اسموگ‘‘ کو جنم دیا اور پھر ہمارے ہاں ایک نئی اصطلاح’’ اے کیو آئی‘‘ (ایئر کوالٹی انڈیکس) سامنے آئی، جس سے مراد ہوا میں ذرّات کا فی یونٹ تناسب ہے۔ 

دوسری جانب کنزیومر ازم میں اضافے کے سبب گھروں سے استعمال شدہ پانی اور فضلہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں خارج ہونے لگا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، لاہور کی تقریباً 200آبادیاں ایسی ہیں، جن کا فضلہ شہر کی رگِ جاں سمجھی جانے والی نہر کو زہریلا بنا رہا ہے۔

واضح رہے کہ ہمارے ماحول میں پیدا ہونے والے اس بگاڑ کا ایک سبب کرپشن بھی ہے اور ان دونوں کے درمیان تعلق کو ثابت کرنے کے لیے ہمیں اس ساری صورتِ حال کو وسیع تناظر میں دیکھنا ہو گا۔ یاد رہے کہ کرپشن صرف مالی بدعنوانی ہی تک محدود نہیں ، بلکہ مفاد پرستی، اقربا پروری، سہل کوشی اور عیش پسندی جیسے دیگر منفی رویّے بھی کرپشن ہی کا حصّہ ہیں۔ 

اگر موجودہ صورتِ حال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ ہمارے حُکم رانوں نے زندگی کی تمام تر سہولتیں کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاور سمیت دیگر بڑے شہروں تک محدود کر دی ہیں اور دیگر شہروں کے باشندوں کو تعلیم، صحت اور روزگار سمیت دیگر بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا۔ لاہور کو پیرس بنانے کے لیے یہاں تمام وسائل صَرف کر دیے گئے، جب کہ صوبے کے چھوٹے شہروں کے مکین ٹوٹی پُھوٹی سڑکوں پر دھکّے کھاتے رہے۔

وسائل کے غیر مساوی استعمال کے نتیجے میں مُلک کے دیگر بڑے شہروں کی طرح لاہور میں بھی بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی، جس نے شہر کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا، جب کہ دوسری جانب انفرادی سطح پر تقریباً سبھی افراد خود غرضی کا شکار نظر آتے ہیں۔ 

مثال کے طور پر نِت نئی کالونیاں تعمیر کرنے والے لالچی سوداگر ٹریٹمنٹ پلانٹس پر خرچ ہونے والے چند ٹکوں کو بچانے کے لیے آلودہ پانی کا زہر پوری مخلوق کو بانٹنے پر صدقِ دل سے آمادہ ہیں، جب کہ ان کے ان زہریلے منصوبوں کو روکنے پر مامور قانون کے رکھوالوں نے محض چند سکوں کے عوض اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ 

اسی طرح سڑک پر چلنے والے موٹر سائیکلز اور رِکشوں سمیت دیگر گاڑیوں سے سیاہ دھواں خارج ہونے کے باوجود مالکان ان کی مینٹی نینس نہیں کرواتے۔ پیٹرول بیچنے والا ناقص اور غیر معیاری ایندھن فراہم کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ بڑے پیمانے پر تعمیراتی کاموں میں مصروف بلڈرز رقم بچانے کے لیے اسکریننگ کا استعمال نہیں کرتے اور انہیں چیک کرنے والے چند روپے لے کر انہیں ایسا کرنے کی کُھلی چُھوٹ دیتے ہیں۔

ایسے میں زمین دار اور کسان کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ دوسروں کے برعکس ایمان داری کا پہاڑ سَر پر اٹھائے۔ سو، بڑی سہولت سے فصلیں جلا کر فارغ ہو جاتا ہے اور وہاں بھی محکمۂ زراعت کے اہلکار تھوڑی بہت ’’خدمت‘‘ کے عوض اس کی مجبوری کو قبول کر کے بری الذمّہ ہو جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ قوموں کی تقدیر اُس وقت تک تبدیل نہیں ہو سکتی کہ جب تک افراد کے رویّے تبدیل نہ ہوں۔ اس ضمن میں قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’یقین جانو کہ اﷲ کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ لے آئے۔‘‘(سورۃ الرعد)