• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسمیاتی تبدیلیاں جنہیں ہم اب تک فسانہ سمجھ کر نظرانداز کرتے رہے ،ایک بھیانک حقیقت کا روپ دھار کر ہمارے سامنے آکھڑی ہوئی ہیں۔ عالمی ماہرین تو چار دہائیوں سے چیخ چیخ کر بتارہے تھے کہ ہم سب ماحولیاتی تبدیلیوں کے گڑھے میں گرکر اجتماعی خودکشی کرنیوالے ہیں مگر ہم توایک عرصہ ہوا شوقِ کمال میں خوفِ زوال سے ہی بے نیاز ہوچکے۔ اور پھر ان بے دین،بزدل اور دنیاوی اسباب پر انحصار کرنیوالے سائنسدانوں کی باتوں پر کان دھرنے کا کیا فائدہ؟ گلیشیئر پگھل رہے ہیں توکیا ہوا،ہم تو سخت لونڈے ہیں،کسی بات پر نہ پگھلیں گے۔عالمی حدت میں اضافہ ہورہا ہے توکیا؟ہمارے ہاں بھی تو جذبات کی شدت بڑھ رہی ہے۔کسی دن معلوم ہوا کہ قطب شمالی اور قطب جنوبی پر برف کے پہاڑ پگھل رہے ہیں۔بحیرہ منجمد شمالی کے گرد روس اور کینیڈا کے شمال میں موجود آرکیٹک سرکل گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سالانہ 12.6فیصد کے حساب سے سکڑ رہا ہے ۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ برفانی علاقہ جو1980ء میں 14ملین کلومیٹرپر محیط تھا،اب صرف 4ملین کلومیٹر باقی رہ گیا ہے۔اس خطے میں پائی جارہی برفانی حیات جیسے کہ ریچھ اور سفید چیتے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہےہیں اور اگر معاملات اسی حساب سے چلتے رہے تو بہت جلد نیویارک اور شنگھائی جیسے شہر قصہ پارینہ ہوجائیں گے۔شمال سے جنوب تک ہر طرف عالمی حدت کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔براعظم انٹار کٹیکا جہاں لگ بھگ ساڑھے تین کلومیٹر تک برف کی دبیز تہہ کی صورت میں کرہ ارض کا 60فیصد میٹھا پانی محفوظ تھا ،یہاں بھی سب کچھ تہس نہس ہورہا ہے۔تخمینہ لگایا گیا ہے کہ یہاں سالانہ 100ملین ٹن برف پگھل رہی ہے۔ہم ان باتوں کو کبھی مغربی اقوام کی ایک اور سازش کہہ کر جھٹلادیتے تو کبھی یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتے رہے کہ ہنوز دلی دور است۔مگر اب یہ تباہ کاری ہماری دہلیز پر آن کھڑی ہوئی ہے ۔برسات شروع ہوئی تو پہاڑی اور میدانی علاقوں میں طغیانی کے باعث زندگی دشوار ہوگئی،موسم گرما آیا تو حدت اتنی بڑھ گئی کہ سانس لینا محال ہوگیااور اب موم سرما میں صورتحال یہ ہے کہ دسمبر اور جنوری گزر جانے کے باوجود نہ توپاکستان بھر میں کہیں بارشیں ہوئیں اور نہ برفباری۔شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ برفباری نہ ہونے سے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے؟سردیوں میں برفباری دیکھنے کیلئے کسی سیاحتی مقام کا رُخ کرنا ،یہ تو امیروں کے چونچلے ہیں ،برفباری نہیں ہوگی تو کونسی قیامت آجائے گی۔لیکن یہ اس قدر سنجیدہ معامعاملہ ہے کہ ہم نے توجہ نہ کی تو واقعی قیامت آجائے گی۔برفباری نہ ہونے سے سیاحت کے شعبہ کا متاثر ہونا تو محض ایک رُخ ہے۔اپریل اور مئی میں جب پہاڑوں پر موجود یہی برف پگھلتی ہے تو زندگی کا پہیہ رواں دواں ہوتا ہے۔چشموں اور ندی نالوں میں پانی بہتا ہے،کھیتی باڑی ہوتی ہے ،جنگلی حیات کی چہل پہل سے رونق لگ جاتی ہے ،یہی برفانی پانی پنجاب میں کامونکی کے کھیتوں تک پہنچ کر انہیں سیراب کرتا ہے تو دنیا کا بہترین چاول پیدا ہوتا ہے ۔جب برفباری نہیں ہوگی تو یہ سب کچھ برباد ہوجائے گا۔زیرمین پانی کی سطح ویسے ہی کم ہورہی ہے ،بارشیں نہیں ہوں گی تو راولپنڈی اور اسلام آباد جیسے شہروں میں بھی کراچی کی طرح پانی دستیاب نہیں ہوگا۔ماہرین کے مطابق ان موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب قدرتی توازن میں پیدا کیا گیا بگاڑ ہے۔El Nino Effectکے باعث ہمارے ہاں بارشیں اور برفباری نہیں ہورہی ۔دراصل جب سمندری پانی کے درجہ حرارت میں تبدیلی آتی ہے اس سے ہوا میں نمی کا تناسب کم یا زیادہو جاتا ہے۔اس بار El Nino Effect کے سبب سمندری ہوائیں نمی کا وہ تناسب ساتھ لیکر نہیں آئیں جو بارشیں برسانے کا سبب بنتا ہے ۔یہ مشکل باتیں شاید ہر ایک کو سمجھ نہ آئیں تو آپ محض اتنا جان لیجئے کہ ہمارے ہاں گھروں میںچھپکلیاں حشرات الارض کھاتی ہیں جس سے ایک توازن قائم رہتا ہے ،اگر آپ چھپکلیوں کو چن چن کر ماردیں گے تو کیا ہوگا؟اسی طرح بلیاں چوہے کھاتی ہیں اگر ان کی تعداد کم ہوجائے گی تو کیا ہوگا؟اسی طرح اس دھرتی کے نظام میں بھی ایک توازن ہے جسے ہم مصنوعی طریقے سے تباہ کر رہے ہیں۔درخت کاٹ کر قابل کاشت اراضی پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بنا ئی جارہی ہیں،پہاڑ کاٹ کر سڑکیں اور گھر بنائے جارہے ہیں ،ٹریفک میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے ،آلودگی بڑھتی جارہی ہے جس سے قدرتی توازن کا نظام درہم برہم ہوتا جارہا ہے۔جب میں نے یہ باتیں اپنی بیٹی کو سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے نہایت معصومیت سے پوچھا’’بابا! تو ہم کیا کریں؟رہنے کیلئے گھر بھی تو ضروری ہیں؟آمد ورفت کیلئے گاڑیوں کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔‘‘میں نے جواب دیا۔بیٹا! رہائشی منصوبے ناقابل استعمال اراضی پر بنائے جائیں،اپارٹمنٹس کے ذریعے بے گھری کا مسئلہ حل کیا جائے،جتنے درخت اپنی ضرورت کے تحت کاٹے جاتے ہیں انکی جگہ کئی گنا زیادہ درخت لگا کر اس توازن کا برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے۔ٹریفک کا مسئلہ حل کرنے کیلئے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر کیا جائے۔لیکن آپ یہ دیکھئے کہ انتخابی مہم چل رہی ہے اور کسی سیاسی جماعت نے اس قدر حساس اور سنجیدہ معاملے کو اپنے منشور کا حصہ نہیں بنایا۔جس طرح عمران خان نے ایک کروڑ ملازمتیں اور 50لاکھ گھربنا کر دینے جیسے جھوٹے وعدےکئے تھے،اسی طرح بلاول بھٹو زرداری فرماتے ہیں ،ہم اقتدار میں آکر سب کو بجلی کے 200یونٹ مفت دیں گے ،جب اینکرسوال کرتا ہے کہ موجودہ معاشی حالات میں یہ کیسے ممکن ہے تو بلاول بھٹو زرداری فرماتے ہیں ’تو کیا اب ہم خواب بھی نہ دیکھیں ‘۔حالانکہ انہیں کہنا چاہئے تھا کہ کیا ہم خواب بھی نہ بیچیں ۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاستدان غیر حقیقی وعدے کرکے ووٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ خواب دیکھتے نہیں ،خواب دکھاتے ہیں ،خوابوں کی سوداگری کرتے ہیں۔امریکی مزاح نگار مارک ٹوئن نے شاید اسیلئے کہا تھا کہ سیاستدان پوری دنیا میں ایک جیسے ہوتے ہیں،یہ وہاں بھی پل بنانے کا وعدہ کرلیتے ہیں جہاں کوئی دریا ہی نہیں ہوتا۔

تازہ ترین