گزشتہ سات عشروں سے پاکستان کے زیادہ تر رہنما وں نے یہ فرض کررکھا ہے کہ زیادہ تر مسلمان ممالک پاکستان کے قدرتی اتحادی ہیں۔ یہ تصور عالمی تعلقات کی منطق کی نفی کرتا ہے جو عام طور پر مشترکہ مذہبی وابستگی کی بجائے قومی مفاد کی بنیاد پر استوار کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہمسائے اور برادر ملک، ایران کے ساتھ گولہ باری کا تبادلہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کس طرح حقیقی یا فرضی قومی مفاد مشترکہ عقیدے یا نظریے پر بالادستی رکھتے ہیں۔
پاکستان اور1979کے اسلامی انقلاب کے بعد کا ایران اسلامی یکجہتی کی بات کرتے ہیں، لیکن دونوں کو سنگلاخ سیاسی حقائق کا سامنا ہے جودراصل مذہبی خطوط سے ماورا ہوتے ہیں۔ ایران کی مذہبی حکومت پر کئی برسوں سے لبنان کی حزب اللہ اور یمن کی حوثی دستوں کے ذریعے شرق وسطی میں پریشانی پیدا کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ایران یہ دلیل دیتے ہوئے اپنی سیاست کا جواز پیش کرتا ہے کہ اسکی دیگر اسلامی ریاستوں کے ساتھ کشمکش کی وجہ ان حکومتوں کی مغربی مفادات کی اطاعت کی پالیسی ہے۔ لیکن اگر ایران کو اسی کے بیانیے کے معیار پر پرکھیں تو اس کی تین دوست ممالک، شام، عراق اور پاکستان پر حملوں کی کوئی منطق دکھائی نہیں دیتی، سوائے یہ کہ اسکی وجہ ایران کی داخلی سیاست ہو۔ ایران کے قانون ساز اداروں کے انتخابات یکم مارچ کو ہونا ہیں، اور ہر طرف کیے گئے حملوں کا مقصد ایرانی حکومت کی طاقت کو ان انتخابات میں تحفظ دینا مقصود ہوسکتا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں حملے کے روز ڈاوس میں ایک بیان میں کہا کہ ایران نے ان مسلم ممالک پر حملہ نہیں کیا، بلکہ اس کا ہدف وہ گروہ ہیں جو اسکے نزدیک مسلم دشمن طاقتوں سے روابط رکھتے ہیں۔ لیکن بہت سے دیگر بیانات کی طرح دشمنان اسلام کے طرح کے بہت سے دیگر بیانات کی طرح نہیں لگتا کہ ایران کے اہداف کا کسی طور پر بھی تعلق کسی بیرونی طاقت سے ہے۔
ایران، جو اسرائیل اور امریکہ مخالف جذبات کا نام نہاد چمپئن ہے،نے سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیلی شہریوں پر دہشتگرد حملوں سے خاطر خواہ سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں غزہ میں شروع ہونیوالی جنگ میں فلسطینیوں کا بے پناہ جانی نقصان ہوا ہے ۔ لیکن اسکا شام اور عراق پر پندرہ جنوری، سوموار کو ، اور سولہ جنوری کو پاکستان پرمیزائل حملے کرنے کا فیصلہ بہت خطرناک تھا ۔ اس نے ان ممالک کی خودمختاری کو پامال کیا جو ایران کے ساتھ مخاصمت نہیں رکھتے ۔ پاکستان کے جوابی حملے نے تہران میں حکومت کو حیران کردیا۔ ایرانی سفارت کارکو یہ کہنا پڑا کہ تہران اپنے ایٹمی صلاحیت کے حامل مسلم ہمسائے کو دشمن بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ۔ پاکستان کا جوابی اقدام ایران کی صلاحیتوں کے فقدان کی غمازی کرتا ہے۔ اس سے تہران کی حکمت عملی بھی بے نقاب ہوتی ہے کہ وہ وسیع تر مشرق وسطیٰ میں افراتفری کا فائدہ اٹھا کر خطے کی غالب طاقت بننا چاہتا ہے ۔
ایران کے حملوں کی کوئی مذہبی یا نظریاتی وجہ نہیں تھی بلکہ اسکے لیڈر ملک میں طاقتور دکھائی دینا چاہتے تھے۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ وہ داعش کو نشانہ بنا رہا ہے، جو شام اور طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان کے کچھ حصوں سے کام کرتی ہے، اور اسرائیل کی موساد انٹیلی جنس سروس، جس پر ایران نے تین جنوری کو ایرانی شہر کرمان میں ہونیوالے دہشتگردانہ حملے کا الزام لگایا تھا۔اس حملے کو اسلامی انقلاب کے بعد سے ایرانی سرزمین پر ہونیوالا بدترین حملہ قرار دیا گیا ہے۔
حملوں کا نشانہ بننے والے تین ممالک میں سے کوئی بھی ...شام، عراق اور پاکستان۔ نہ تو داعش کی تائید کرتا ہے اور نہ ہی موساد سے کوئی ہمدردی رکھتا ہے۔ پاکستان کے اندر ایران کے ڈرون اور میزائل حملے کا مقصد مبینہ طور پر ایران کے صوبہ بلوچستان سیستان میں سرگرم دہشتگرد گروپ جیش العدل کو نشانہ بنانا تھا۔ یہ مقصد پاکستان کے ساتھ انٹیلی جنس کا تبادلہ کرکے اور پاکستانی حکام کو گروپ کیخلاف کارروائی کرنے کیلئے کہہ کر آسانی سے حاصل کیا جا سکتا تھا۔
دو دن بعد پاکستان نے فضائی حملوں میں ایران میں موجود علیحدگی پسند گروپوں کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ۔ 1980-88 کی ایران عراق جنگ کے بعد کسی بیرونی ملک کی طرف سے ایران کے اندر یہ پہلا فضائی حملہ تھا۔ اگر ایران کا مقصد کرمان میں ہونیوالے دہشتگردانہ حملے کا بدلہ لینا ہوتا تو پاکستان پر میزائل داغنا کوئی دانش مندا قدام نہیں تھا۔ اسکے نتیجے میں برادر اسلامی ملک کو جوابی کارروائی پر مجبور ہونا پڑا۔
ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد سے پاکستان نے پوری کوشش کی کہ ایران کے ساتھ اختلافات کو تنازع میں تبدیل نہ ہونے دے۔ کئی دہائیوں سے دونوں ممالک نے اپنے بلوچ صوبوں میں شورشوں کا سامنا کیا اور عام طور پر اپنی 900 کلومیٹر طویل سرحد پر وقفے وقفے سے تعاون کرنے میں کامیاب رہے۔ تعاون کی فضا میںگاہے گاہے ایران اور پاکستان نے ایک دوسرے پر حملوں میں ملوث باغیوں کو پناہ دینے کا الزام بھی عائد کیا ۔ لیکن ایران پاکستان سرحد پر کوئی حالیہ اشتعال انگیزی نہیں ہوئی اور ایران نے اس بات کی کوئی قابل اعتبار وضاحت پیش نہیں کی کہ اس نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں کیوں شامل کیا جہاں وہ اپنی طاقت دکھانا چاہتا ہے ۔
ایرانی اقدام نے پاکستان کو اس پوزیشن پر لا کھڑا کیاجہاں اسے جواب دینا پڑا۔ ایک پڑوسی کی طرف سے پاکستانی حدود میں میزائل حملے کی اجازت دینا پاکستان کے دوسرے پڑوسیوں، بھارت اور افغانستان کیلئے ایک بری مثال قائم کرتا، جنکے ساتھ پاکستان کے تعلقات اس وقت خوشگوار نہیں ۔ پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی کا فیصلہ بھی اس لیے کیا گیا ہوگا کہ اسے ایران اور بھارت کے درمیان ملی بھگت کا شبہ ہے ۔ میزائل حملوں کے تبادلے کے بعد دونوں فریق اپنے 'برادرانہ تعلقات کے بارے میں بات کرنے کی راہ اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ غالباً وہ معمول کے تعلقات کی طرف لوٹ جائیں گے۔ لیکن یہ واقعہ اور اس کا سیاق و سباق ان لوگوں کیلئے چشم کشا ہے جو اب بھی ’’امت‘‘ کے بارے میں غیر حقیقت پسندانہ بیانات دیتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خارجہ تعلقات کو حقیقی سیاست کی بجائے مذہبی جذبات کی روشنی میں استوار کرنا چاہیے۔