• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب سے پاکستان میں بہت سے چینل کھلے ہیں۔ بس اسی زمانے سے ان لوگوں کی بھی مانگ بڑھ گئی جو باہر سے سینما ٹوگرامی یا اسکرپٹ لکھنے یافوٹو گرافی میں ڈگری لیکر آئے تھے ۔ انکی سنی گئی مگر اتنا زیادہ بھی نہیں سنی گئی کہ ایک اور دھندا شروع ہوگیا اور وہ تھا اینکر پرسن بننے کا۔ تبھی چاہے شرمین چنائے ہوکہ جاوید جبار کی بیٹی اپنے آپ ہی فلم بناکر خود آسکر سے لیکر دوسرے ممالک میں فلم مقابلوں میںبھجواتی ہیں اور بقدر ہمت پھل بھی پاتی ہیں۔ ابھی دیکھیں نافرجاد بتی نے ’’ زندہ بھاگ‘‘ فلم بنائی اور عالم میں نام کمایا،نہیں پوچھا تو حکومت پاکستان نے۔البتہ ’وار‘ فلم میں چونکہ سرمایہ آپ سب کو معلوم ہے کہاں کالگا تھا۔ اس کی پبلسٹی بھی ہوئی اور حکومت نے تعریف بھی کی۔
ٹیلی وژن اب ایک انڈسٹری بن چکا ہے۔ جگہ جگہ پروڈکشن ہاؤس بن رہے ہیں۔ ہرایکٹر ڈائریکٹر بن رہا ہے۔جبکہ اسکرپٹ رائٹر بن رہا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ تمام یونیورسٹیوں نے اپنے نصاب میں ٹی وی کے تمام سیکشنوں کوبطور مضامین پڑھانے کے لئے شامل کیا ہے۔ بہت سے نوجوان غیر ممالک میں ڈگری لینے کے لئے جارہے ہیں۔ واپس آکر اپنے پروڈکشن ہاؤس بنارہے ہیں۔ٹیلی وژن کے چوبیس گھنٹے چلنے کا ایک نقصان تو یہ ہوا کہ اب ایک مہینے کے لئے کسی بھی ملک میں ایک گھر کرائے پر لے لیا جاتا ہے۔ ساتھ میں ایک باورچی بھی ہوتا ہے۔ ایک ماہ میں تیرہ قسطیں بناکر۔ یہ جا وہ جا، ہوجایا جاتا ہے۔ ڈرامے کے مصالحے میں یہ لازمی رکھا جاتا ہے کہ دوتین تھپڑ ہوں۔ دوایک عورت کودھکے دئیے جائیں۔ دوسری شادی کا قصہ ہوسکے تو اور بھی مصالحہ چوکھا ہوجاتا ہے۔آج کل سب سے مشہور ڈرامہ لکھنے والی کہتی ہیں کہ میں تو پندرہ دن میں ایک سیریل لکھ لیتی ہوں۔ جوپرانے اور سنجیدہ لکھنے والے تھے، وہ اس ریس سے الگ ہوگئے ہیں۔
ڈراموں سے متعلقہ دوسری شقیں بھی فروغ پارہی ہیں۔ فیشن انسٹیوٹ سے فارغ ہونے والے سب ہیںتو زیادہ تر لڑکے لڑکیاں اپنا اپنا ڈیزائن ہاؤس بنالیتے ہیں۔ انکی دیکھا دیکھی کمرشل ڈیزائنر بھی بلکہ اب تو فیکڑیاں بھی ڈیزائنروں کو ملازم رکھ کر نئے سے نئے ڈیزائن نکالتے اور فروخت کرتے ہیں۔ ان کو فروخت کرنے کے لئے ڈیزائن بک بنائی جاتی ہے۔ اس میں لڑکیاں لباس پہن کر کیسی لگ رہی ہیں۔ قیمتوں کے ساتھ یہ بھی دکھایا جاتا ہے۔ اب سوال ہے اتنی ساری لڑکیاں ہر فیشن ہاؤس کے لئے کہاں سے آتی ہیں۔ اس سوال پر بہت سی مائیں اپنی جوان اور پڑھی لکھی بیٹیوں کو لیکر میرے پاس آجاتی ہیں۔کسی لڑکی نے ایم بی اے کیا ہے مگر وہ اپنے پروفیشن میں نوکری تلاش کرنے کی بجائے ماڈل بننا چاہتی ہے کئی لڑکیاں تو ڈاکٹری کرنے کے بعد ماڈلنگ کی جانب دوڑی چلی جاتی ہیں۔ ماں باپ ہیں کہ پریشان کہ ان کو کون سمجھائے۔ مزید سمجھانے کے لئے مجھ سے گفتگو کرواتی ہیں۔ جب میں کہتی ہوں کہ ماڈلنگ کا پیشہ تو پانچ سات سال تک چل سکے گا۔ تم ڈاکٹری کرو۔ باہر جاکر اور پڑھو، کچھ اچھی بچیاں تومان جاتی ہیں۔ باقی تو کسی کی بات نہیں سنتیں۔ یہی حال ٹی۔وی پہ ایکٹنگ کرنے والے بچوں کا ہے۔ کچھ پروڈیوسر توفیشن ایبل کالجوں کے چکر لگاکر حسین بچیوں اور بچوں کواپنے ڈرامے میں کاسٹ کرنے کوڈھونڈ لیتے ہیں۔
یہیں ایک اور شعبہ ہے فوٹو گرافی کا۔ باقاعدہ پروفیشنل فوٹو گرافر اپنا اپنا اڈہ لگائے بیٹھے ہیں۔لڑکیاں اور لڑکے کہ جنہیں ماڈل بننے کی خواہش ہو وہ یہاںآکر فوٹو گرافر کی ہدایت کے مطابق میک اپ اور بالوں کا ڈیزائن بنانے کے بعد انکے پورٹریٹ بناتے ہیں بے شمار نوجوان لڑکے لڑکیاں آتے ہیں اور پھر اپنی تصویریں ڈریس، ڈیزائنر اورٹیلی وژن پروڈکشن ہاؤسز میں دکھاتے ہیں۔ اشتہارات کا شعبہ بھی بہت اہم ہوگیا ہے۔ سارے بچے اشتہاروں کے مطابق چیزیں خریدنے کی ماں باپ سے ضد کرتے ہیں۔ کارٹون اشتہار بھی بہت مقبول ہورہے ہیں اور بہت سے نوجوان کارٹون بنانے کے ہنر کو سیکھ کر، اپنے لئے نوکریوں کابندوبست کررہے ہیں۔ یہیں ایک اور ہنر بہت تقویت حاصل کررہا ہے، وہ ہے آرٹیکل رائٹر کا، ہر اشتہاری کمپنی کوایسے نوجوانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
اتنی تفصیلات جاننے کے بعد،آپ ایک سوال مجھ سے کریں گے کہ یہ سارے شعبے میں نے نوجوانوں کے لئے مختص کردیئے ہیں، ارے ابھی تو کئی اور نسخے رہ گئے ہیں۔ کسی کتاب کی دوکان پر جائیے توسب سے مقبول ڈیسک ہوتا ہے ، جہاں فیس بک پہ استعمال ہونے والے فقرے اور شعر لکھے ہوتے ہیں۔اسکے علاوہ ان شعروں کی کتابیں بھی ہوتی ہیں،جن میںعشقیہ شعر لکھے ہوتے ہیں یہیں مجھے یاد آرہے ہیں اپنی نوجوانی کے زمانے کہ اس وقت اے۔آر خاتون قسم کی خواتین کے ناول بہت مقبول ہوتے تھے ۔ یہ ناول گلی کی نکڑ پر چار آنے لائبریری پہ ملا کرتے تھے۔ یہاں سے نوجوان لڑکے لڑکیاں ناول پڑھنے کے لئے کم اور عشقیہ فقروں پہ نشان لگانے کے لئے لیتے تھے جب لڑکی کتاب بھیجتی تولڑکا اسی وقت وہی ناول لیکر نشان زدہ فقروں کے جواب میں مردوں کے فقروں پہ نشان لگادیتا تھا۔ کچھ عرصے بعد، وہ ناول نشانوں سے بھراہوتا تھا۔
بس آجکل فیس بک اور ٹوئیڑ پہ فقروں اور ایک دوسرے سے گفتگو کا یہی عالم ہے۔ بے چارے فراز کے شعروں کو توڑمروڑ کراپنا مطلب نکالنے کے لئے لکھا جاتا ہے ۔ یہ مصروفیت نوجوانوں کی ہے مگر یہاں ہماری عمر کے لوگ بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ پہلے زمانے میں شطرنج اور ڈائس ایک انجانے شخص کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ بیچ بیچ میں سوال اٹھتے ہیں کہ are you singleایسی لہجے کے دیگر سوال وجواب میں رات کے دوبجے تک بزرگ اور نوجوان مصروف رہتے ہیں مجھے بزرگوں کی مصروفیت پہ کوئی اعتراض نہیںالبتہ نوجوانوں کواس عمر میں عشق کرنے کے علاوہ، کتابوں کی طرف دھیان دینا چاہئے ۔ میں نے آج کے مطابق جتنے شعبے گنوائے ہیں۔ان میں بھی مہارت حاصل کرلیں تو یہ سارا سرمایہ پیلی ٹیکسیوں کی طرح ضائع نہ جائیگا۔ ان ساری باتوں کے باوجود، ہماری بیٹیوں اور بیٹوں کے سر سے ماڈل بننے کاجنون کیسے کم ہوگا!!
تازہ ترین