• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کے خراب معاشی حالات، توانائی کے بحران اور سیاسی غیر یقینی صورتحال کے باوجود پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اپنی بقا کیلئےپوری توانائی سے کوششیں جاری رکھے ہوئےہے۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر لگنے والے میلے اور نمائشیں ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کیلئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ انکے ذریعےنہ صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کو رواں دواں رکھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ اس طرح کے ایونٹس میں شرکت سے پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کا موقع بھی ملتا ہے۔ اس حوالے سے ’’ہیم ٹیکس‘‘ کا پورا سال انتظار کیا جاتا ہے اور پاکستانی برآمد کنندگان اس ٹیکسٹائل نمائش میں شرکت کیلئے بھرپور تیاری کرتے ہیں۔ رواں مہینے 9 سے 12 جنوری تک جرمنی میں ہونے والے اس تجارتی میلے کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ 273 کمپنیوں کی شرکت کے ساتھ پاکستان اس میلے میں شرکت کرنے والا چوتھا بڑا ملک تھا۔ اس میلے کی تاریخ میں پاکستان سے بڑی تعداد میں ٹیکسٹائل کمپنیوں کی شرکت بہت خوش آئند ہے۔ علاوہ ازیں اس مرتبہ قالین کے برآمد کنندگان نے بھی یورپی گاہکوں کی بھرپور توجہ حاصل کی اور امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان اس شعبے میں بھی اپنا شیئر مزید بڑھائے گا۔

یہ تجارتی میلہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں شرکت کے ذریعے برآمد کنندگان کو عالمی سطح پر فروغ پانے والے نئے رجحانات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ اس سال ’’ہیم ٹیکس‘‘ میں ایسی کمپنیوں اور مصنوعات کو زیادہ توجہ حاصل ہوئی جن کی تیاری میں پائیداری پر فوکس کیا گیا تھا۔ اس طرح پاکستانی کمپنیوں کے تیارہ کردہ بیڈ لینن، کچن ٹیکسٹائلز اور ٹاولز کی متنوع مصنوعات نے اپنے معیار اور جدت کی بدولت شرکاء کو اس بات پر قائل کیا کہ پاکستان اپنے عالمی گاہکوں کے معیار اور ضرورت کے مطابق مصنوعات کی تیاری میں مسلسل بہتری کی جانب گامزن ہے۔ ٹیکسٹائل برآمد کنندگان کو یورپ اور امریکہ کی مارکیٹ میں اپنا برآمدی شیئر مزید بڑھانےکیلئےاکانومی یعنی معیشت اور ماحولیات کے درمیان ربط کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح جہاں ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے منافع میں بہتری آئے گی وہیں معیار پر توجہ دے کر ہم عالمی گاہکوں کی اولین ترجیح بن سکتے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ چند سال سے جرمنی میں ہونے والی دنیا کی اس سب سے بڑی ٹیکسٹائل نمائش میں پاکستانی کمپنیوں کی شرکت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی طرف سے جدت اور رجحانات میں بہتر سے بہترین کی تلاش و جستجو کے جذبے کا اظہار ہے۔

تاہم ’’ہیم ٹیکس‘‘میں عالمی گاہکوں کی جانب سے اچھا رسپانس ملنے کے باوجود ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام، بینکوں کے مارک اپ اور انرجی ٹیرف میں مسلسل اضافے کی وجہ سے خدشات کا شکار ہیں۔ اس کیلئے طویل المدت اصلاحات اور ’’ایکو سسٹم‘‘ کی ترویج ضروری ہے تاکہ انڈسٹری میں براہ راست بیرونی اور مقامی سرمایہ کاری کا راستہ کھل سکے۔ واضح رہے کہ’’ہیم ٹیکس‘‘ میں انٹرنیشنل بائیرز کی جانب سے پاکستانی ہوم ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کو بھرپور پذیرائی ملی ہے۔ تاہم عالمی مارکیٹ میں مستقل بنیادوں پر پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات کا شیئر بڑھانے کیلئے انٹرنیشنل بزنس کمیونٹی کو یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ایک قابل اعتماد سپلائر کے طور پر برآمدی آرڈرز کی بروقت تکمیل کر سکتا ہے اور ہمارے پاس وہ سپلائی چین، خام مال اور تربیت یافتہ افرادی قوت موجود ہے جو قابل اعتماد انٹرنیشنل بزنس پارٹنر بننے کیلئے ضروری ہے۔ اس کیلئے ملک میں بزنس فرینڈلی اور انڈسٹری کو فروغ دینے والی طویل المدت پالیسیوں کی ضرورت ہے تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ بہتر ہو سکے۔ اس بات سے کوئی ذی ہوش شخص انکار نہیں کر سکتا ہے کہ 25فیصد مارک اپ ریٹ اور خطے میں سب سے مہنگی بجلی و گیس کے ساتھ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کیلئے عالمی سطح پر دیگر ممالک سے مسابقت مشکل ہے۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کے قیام سے فوری اور دیرپا مثبت فیصلوں سے غیر یقینی کی صورتحال کا خاتمہ ہو گا۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ جو بھی سیاسی جماعت یا اتحاد اقتدار میں آتا ہے اسے چاہیے کہ حکومت سازی کے ساتھ ہی طویل المدت اصلاحات شروع کر دے تاکہ مارک اپ کی شرح واپس سنگل ڈیجٹ پر لائی جا سکے اور بجلی و گیس کی قیمتیں بھی خطے کے دیگر ممالک کے مساوی ہو سکیں۔ اس کیلئے انڈسٹری کا ٹیرف ریشنلائز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انڈسٹریل ٹیرف سے دیگر سیکٹرز کو سبسڈائز کرنے کا سلسلہ ختم ہو سکے۔ ارباب اقتدار کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جب تک اصلاحات نہیں ہوں گی ہمارے لئے عالمی مارکیٹ میں اپنا شیئر بڑھانا مشکل رہے گا۔ ٹیکسٹائل کی صنعت کو اگرچہ اس وقت بہت سے مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم اب بھی یہ صنعت ملک کیلئے زرمبادلہ کے حصول اور روزگار کی فراہمی کا سب سے اہم ذریعہ ہے اور اس کو سپورٹ فراہم کر کے ملک کو معاشی بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ برآمدات میں کمی کا یہ سلسلہ گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے جس کی وجہ سے ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو برقرار ہے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کے باوجود معیشت میں کوئی ٹھوس بہتری نظر نہیں آ رہی۔ یہ صورتحال اس امر کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ اگر ہم نے برآمدات بڑھانے کیلئے ٹھوس اقدامات نہ کئے تو معاشی بہتری کیلئے کی جانے والی دیگر کوششیں بھی ثمرآور ثابت نہیں ہو سکیں گی۔ضروری ہے کہ درپیش مسائل حل کرنے کیلئے جلد از جلد عملی اقدامات شروع کئے جائیں۔

تازہ ترین