آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ معیشت کے سنبھلنے کا اشارہ دے رہی ہے۔ اس کے مطالعے سے واضح ہو تا ہے کہ ہماری معیشت جو سالِ گزشتہ ادھ موئی حالت کو پہنچ چکی تھی اس میں زندگی کی رمق جاگ اُٹھی ہے، تاہم اس عمل کو حقیقی معنوں میں موثر اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے جو اقدامات ضروری ہیں ان میں ایک بنیادی اقدام ملک میں مستحکم جمہوریت یقینی بنانے کا ہے۔ مگر معاشی استحکام کا یہ سفر اسی صورت آگے بڑھ سکتا ہے جب ملک میں سیاسی استحکام بھی پیدا ہو۔ عام انتخابات اس سلسلے کی بنیاد بن سکتے ہیں، مگر ضروری یہ ہے کہ عام انتخابات شفاف ہوں کیونکہ انتخابی تنازعات سے یہ اندیشہ رہتاہے کہ معاشی استحکام اور ترقی کا جو سفر شروع ہوا ہے وہ بھی اُلٹ پلٹ سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومتی زرمبادلہ کے ذخائر 4.5سے بڑھ کر 8.2ارب ڈالر ہو گئے جبکہ رواں مالی سال پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح نمو 2فیصد رہنے کا امکا ن ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق رواں مالی سال پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 8فیصد رہنے کی توقع ہے جبکہ صنعتی شعبہ مشکلات کا شکارہے جسکی شرح نمو محض 2.5فیصد ہے۔ پاکستان میں زرعی شعبہ 5.1فیصد کی شرح سے ترقی کر رہا ہے جبکہ رواں مالی سال محصولات اور گرانٹس جی ڈی پی کا 12.5فیصد رہ سکتی ہیں۔ رواں مالی سال بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 1.6فیصد تک رہ سکتا ہے۔ ٹیکس اور نان ٹیکس آمدنی بڑھنا خوش آئند ہے ٹیکس آمدنی بڑھنے سے خسارہ کنٹرول ہوا۔ پاکستان میں زرعی شعبہ قدرے بہتر ہے ، زرعی شعبہ 5.1فیصد کی شرح سے ترقی کر رہا ہے، پاکستان میں صنعتی شعبہ مشکلات کا شکار ہے صنعتی شعبہ کی شرح نمو مخص 2.5فیصد ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مئی 2023میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 36فیصد تھی اکتوبر 2023میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 26.8فیصد تھی ،رواں مالی سال پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 8فیصد رہنے کی توقع ہے۔
بینک سے قرض لے کر کاروبار کرنے کی سوچ سے نکلنا ہو گا پاکستان کے مستقبل کیلئے عالمی سرمایہ کاری ضروری ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کے سرمائے کے حصول کی ضرورت ہے۔ 15سال میں پہلی مرتبہ 2023میں صرف ایک آئی پی او ہوا جس سے کمپنی نے اسٹاک مارکیٹ کے ذریعے 435ملین روپے کا سرمایہ حاصل کیا۔ پاکستان کو جو بڑے معاشی مسائل در پیش ہیں ان میں توانائی کا بحران سب سے زیادہ گھمبیر ہے۔ ایک طرف گھریلو اور صنعتی صارفین کو اپنی ضرورت کے مطابق درکار بجلی اور گیس میسر نہیں، جو ملک کی صنعتی اور اقتصادی ترقی میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔
ملک میں امیر اور غریب طبقے کے درمیان خلیج ہر گزرتے دن کے ساتھ وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔ سماجی تفریق سے جہاں ملک کی مجموعی معاشی ترقی متاثر ہوتی ہے وہاں یہ فرق سماجی بد امنی اور شدت پسندی میںاضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو طویل مدتی اقتصادی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ زراعت،لائیو اسٹاک، معدنیات، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، توانائی اور زرعی پیداواری صلاحیت سے استفادہ کیا جائے، اور ان شعبوں کے ذریعے پاکستان کی مقامی پیداواری صلاحیت اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری بڑھائی جائے۔ قرض در قرض سے پیدا ہونے والے اس مالیاتی خسارے کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ملک میں سخت مالیاتی نظم وضبط یقینی بنایا جائے۔ علاوہ ازیں ٹیکس وصولی کے طریقہ کار کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے آجکل انتخابات میں حصہ لینے کیلئے تیاریاں عروج پر ہیں ۔ہر سیاسی جماعت کی جانب سے ووٹرز کو خوش کرنے کیلئے بڑھ چڑھ کر وعدے اور دعوے کیے جا رہے ہیں۔ تاہم کسی سیاسی جماعت کی قیادت نے ملک کو در پیش معاشی مسائل اور انکے حل کے حوالے سے کوئی ٹھوس تجاویز یا پالیسیاں پیش نہیں کی ہیں۔ گزشتہ چند سال کے دوران پاکستان کو جن معاشی مسائل کا سامنا رہا ہے ان کا تقاضا تو یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ کام کریں اور ملک کو در پیش معاشی بحران سے نکالنے کیلئے اپنی جامع پالیسی عوام کے سامنے پیش کریں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)