شجرِ ممنوع کی تفصیل: مولانا مفتی محمد شفیعؒ، امام قرطبیؒ کی مشہور و معروف تفسیر قرآن ’’تفسیر قرطبی‘‘ کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ ’’اللہ ذوالجلال نے حضرت آدم و حوّا علیہما السلام سے فرمایا کہ جنّت کے پھل با فراغت استعمال کرتے رہو۔ نہ اُن کے حاصل کرنے میں کسی محنّت کی ضرورت ہوگی اور نہ فکر کہ یہ غذا ختم یا کم ہوجائے گی۔ کسی خاص درخت کی جانب اشارہ کرکے فرمایا گیا کہ اس کے قریب نہ جانا، اصل مقصد تو یہ تھا کہ اس کا پھل نہ کھانا، مگر تاکید کے طور پر عنوان یہ اختیار کیا گیا کہ اس کے پاس بھی نہ جائو اور مُراد یہی ہے کہ کھانے کے لیے اس کے پاس نہ جائو، یہ درخت کون سا تھا؟ قرآنِ کریم نے اس کا تعیّن نہیں کیا اور کسی مستند حدیث میں بھی اس کی تعیین مذکور نہیں۔
ائمۂ تفسیر میں سے کسی نے گندم کا درخت قرار دیا، کسی نے انگور کا، کسی نے انجیر کا، مگر جسے قرآن و حدیث نے مبہم چھوڑا ہے، اُسے متعین کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ (قصص الانبیاء، صفحہ 49)۔حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے مروی ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کو جنّت سے زمین پر اُتارا گیا، تو اُنہیں ہر چیز کی صنعت و کاری گری سکھا دی گئی اور جنّت کے پھلوں کو بطور توشہ ساتھ کر دیاکہ یہ تمہارے موجودہ پھل، درحقیقت اُن کی اصل جنّت کے پھلوں سے ہیں۔ ہاں ،صرف اتنا فرق ہے کہ یہ سڑتے ہیں اور جو جنّت میں لگے ہوئے پھل ہیں، وہ ہمیشہ صحیح رہیں گے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام زمین پر بھی دونوں کی تربیت خود کیا کرتے تھے اور انہیں ہر چیز سکھاتے تھے۔ (قصص ابنِ کثیرؒ، ص 44)۔
سلام کی ابتداحضرت آدمؑ سے ہوئی: حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ سب سے بہتر دن، جس میں سُورج نکلا، جمعہ کا دن ہے۔ اِسی دن حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا۔ اِسی دن انہیں جنّت میں داخل کیا گیا۔ اِسی دن انہیں جنّت سے نکالا گیا۔ اور قیامت بھی اِسی دن آئے گی۔ (جامع ترمذی، حدیث 488) دُنیا میں ’’السلام علیکم‘‘ کی شروعات سب سے پہلے ابوالبشر، حضرت آدم علیہ السلام نے کی۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو اپنی صُورت پر بنایا۔ اُن کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔
جب انہیں پیدا کرچُکا تو فرمایا کہ جائو اور اُن فرشتوں کو، جو بیٹھے ہوئے ہیں، سلام کرو اور سُنو کہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں۔ کیوں کہ یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا۔ آدم علیہ السلام نے فرشتوں کے قریب جا کر کہا’’السلام علیکم۔‘‘ فرشتوں نے جواب دیا ’’السلام علیک ورحمۃ اللہ‘‘ انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کے سلام پر ’’ورحمۃ اللہ‘‘ بڑھا دیا۔ پس، جو شخص بھی جنّت میں جائے گا، حضرت آدم علیہ السلام کی شکل و قامت کے مطابق ہو کر جائے گا۔ اُس کے بعد سے پھر خلقت کے قد و قامت کم ہوتے چلے گئے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر،6227)۔
اپنے درمیان سلام کو عام کرو: صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ’’السلام علیکم‘‘ کے الفاظ حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے سب سے پہلے فرشتوں کے سامنے پیش کیے اور فرشتوں نے اس میں ’’ورحمۃ اللہ‘‘ کا اضافہ کیا۔ سلام اِسلام کا شعار ہے۔ اس دُعائیہ کلمے کی بڑی اہمیت و فضیلت ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’اے لوگو! جو ایمان لائے، اُس وقت تک اپنے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، جب تک گھر والوں پر سلام نہ بھیج دو۔‘‘ (سورۃ النور، آیت 27)۔ اسی سورئہ مبارکہ میں ایک اور جگہ فرمایا، ترجمہ:’’جب تم اپنے گھروں میں داخل ہو، تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو۔‘‘ (سورۃالنور، آیت 61)۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے، ’’ہر شخص کو سلام کیا کرو۔ خواہ تم اُسے جانتے ہو یا نہیں جانتے۔‘‘ صحیح مسلم کی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ’’اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔‘‘ جامع ترمذی کی حدیث ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ ایک دُوسرے کو سلام کیا کرو۔ سلام کو اپنے درمیان عام کرو۔‘‘ آج کل یہ بات عام دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی ’’السلام علیکم‘‘ کے بجائے آداب، صبح بخیر، شب بخیر، جب کہ جواب میں تسلیم اور جیتے رہیے کے الفاظ عام استعمال ہونے لگے ہیں۔ نہیں پتا کہ یہ خاندانی روایات کے طور پر کیے جاتے ہیں یا یہ بھی فیشن کا حصّہ ہے۔
اس سے انکار نہیں کہ یہ بہت اچھے دُعائیہ کلمات ہیں، لیکن کیا یہ ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ کا نعم البدل ہیں؟ یقیناً نہیں۔ ہاں ’’السلام علیکم‘‘ کے بعد انہیں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دراصل ’’سلام‘‘ کی اہمیت اور اُس کے ثمرات ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہم شعوری طور پر اس سُنّتِ مطہرہ کا اپنی زندگی میں خود بھی اہتمام کریں اور اپنے دوست احباب، ماتحتوں اور لواحقین کو بھی تاکید کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)۔
حضرت آدمؑ کی اولاد میں مٹّی کے اثرات: علّامہ ابو عبداللہ محمد بن سعد البصریؒ اپنی معروف کتاب ’’طبقاتِ ابنِ سعد‘‘ میں ابوالبشر، حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت اُبی بن کعبؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام اتنے بُلند و بالا اِنسان تھے کہ گویا طویل کھجور کا درخت ہو۔ سرمیں بال بہت تھے۔ حضرت سعید بن جبیرؓکہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام جس زمین سے پیدا ہوئے اُسے وحناء یعنی بُلند اُونچی زمین کہتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ حضرت آدم کا نام آدم علیہ السلام یُوں پڑا کہ وہ ادیمِ ارض یعنی رُوئے زمین، سطح زمین سے پیدا ہوئے تھے۔ اور اِنسان نام اس لیے رکھا کہ اُن پر بھول چُوک کا پیش آنا ہوا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو بھیجا، جس نے زمین کی سطح کے ہر کھاری، ریتیلی اور عُمدہ جگہ سے مٹّی لی۔ اللہ تعالیٰ نے اس مٹّی سے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ جو شیریں زمین سے پیدا ہوا، وہ جنّتی ہے، جسے کھاری یا ریتیلی مٹی سے پیدا کیا گیا، وہ دوزخ میں جائے گا۔
اسی وجہ سے ابلیس نے کہا تھا کہ ’’کیا مَیں اُسے سجدہ کروں، جسے تُونے مٹّی سے پیدا کیا ہے؟‘‘ کیوں کہ ابلیس ہی تو یہ مٹّی لے کر آیا تھا۔ یہ مٹّی ہی کا اَثر تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سُرخ بھی ہیں اور سفید بھی، کالے بھی ہیں اور درمیانی رنگت والے بھی۔ سہل بھی ہیں اور سخت بھی، خبیث بھی ہیں اور طیّب بھی۔ حضرت سعید بن مسیّبؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جنّت میں اہلِ جنّت اس حالت میں ہوں گے کہ اُن کے نہ داڑھی ہوگی اور نہ مُونچھیں، بال گھنگھریالے، سرمگیں چشم عُمر 33سال ہوگی۔ جسم ساٹھ ہاتھ لمبا اور سات ہاتھ چوڑا ہوگا۔ جیسے حضرت آدم علیہ السلام تھے۔ (طبقات ابن سعد،صفحہ50)۔
پہلا لفظ جوحضرت آدمؑ نے اَدا کیا: حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ’’پہلی بار حضرت آدم علیہ السلام کی آنکھ اور ناک کے سُوراخوں میں جان پڑی اور جب سارے جسم میں رُوح پھیل گئی، تو اُنہیں چھینک آئی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہوں نے ’’الحمدللہ‘‘ کہا، یُوں سب سے پہلے اُن کے مُنہ سے اللہ کی حمد نکلی۔ پھر جواب میں اللہ نے ’’یرحمک ربک‘‘ فرمایا۔ یعنی تجھ پر تیرے پروردگار کی رحمت ہو۔‘‘ (سنن ترمذی، حدیث نمبر3368)۔
اولادِ آدمؑ کی خصوصیات: حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا، تو اللہ نے اُن کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا، جس سے نسلِ آدم ؑ ظاہر فرمائی۔ اُن سب کو حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا گیا۔ حضرت آدم علیہ السلام کی نظر ایک شخص پر پڑی، جس کی دونوں آنکھوں کے درمیان نُور تھا۔ پوچھا ’’اے میرے رَب! یہ کون ہے؟‘‘ فرمایا ’’یہ تیرا بیٹا دائود ہے۔‘‘ پوچھا ’’اس کی عُمر کتنی ہوگی۔‘‘ فرمایا ’’60سال‘‘ عرض کیا ’’میرے رَب! یہ تو بہت کم ہے، کچھ زیادہ کردے۔‘‘ فرمایا ’’نہیں، ہاں اگر تُو چاہے، تو اپنی عُمر میں سے کچھ سال دے کر اس کی عُمر بڑھا سکتا ہے۔‘‘ عرض کیا ’’یارَب! میری عُمر میں سے چالیس سال اسے دے دے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود علیہ السلام کی عُمر چالیس سال بڑھا دی۔
حضرت آدم علیہ السلام کی کُل عُمر ایک ہزار سال تھی۔ جب نوسو ساٹھ سال پورے ہوگئے، تو ملک الموت حاضر ہوگیا اورعرض کیا ’’چلیے، دُنیا میں آپ کی مدّت پوری ہوچکی۔‘‘ فرمایا ’’ابھی تو میری زندگی کے چالیس سال باقی ہیں۔‘‘ ملک الموت نے یاد دلایا کہ وہ تو آپ نے حضرت دائود علیہ السلام کو دے دیئے تھے، مگرحضرت آدم علیہ السلام نے انکار کردیا۔ چناں چہ اُن کی اولاد بھی انکاری بن گئی۔ جنّت میں شجرِ ممنوع کے بارے میں اللہ کی ہدایت کو بُھول گئے تھے، تو اُن کی اولاد میں بھی بھول آگئی۔ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد بھی خطاکار بن گئی۔ امام ترمذیؒ نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔ (جامع ترمذی، حدیث 3070)۔
ابنِ سعدؒ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پھر حضرت آدم علیہ السلام کے ایک ہزار سال پورے کردیئے اورحضرت دائود علیہ السلام کو بھی پورے ایک سو سال دیئے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر وعدے وعید اور معاہدات کو تحریر کرنے کا حکم فرمایا ہے۔
اَمّاں حوّا ؑ کی پیدائش: سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اُس کی بیوی کو پیدا کر کے اُن دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلادیں‘‘ (سورۃ النساء، آیت1)۔ یہاں ایک جان سے مُراد ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام اور بیوی سے مُراد حضرت حوّا ؑہیں۔ حضرت حوّا ،ؑحضرت آدم علیہ السلام سے کس طرح پیدا ہوئیں؟ مفسّرین کے درمیان اس میں اختلاف ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا، کیوں کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ پسلی میں بھی سب سے ٹیڑھا اُوپرکا حصّہ ہوتا ہے۔
اگر کوئی شخص اُسے بالکل سیدھا کرنے کی کوشش کرے، تو انجام کار توڑ کے رہے گا اور اگر وہ اُسے یونہی چھوڑ دے گا، تو پھر ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائے گی۔ پس، عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو اور اُن سے اچھا سلوک کرو۔‘‘ (صحیح بخاری 3331،5186)۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں۔ حضرت حوّا علیہاالسلام کا نام حوّا اس لیے پڑا کہ وہ ہر ایک زندگی والے اِنسان کی ماں ہیں۔حضرت ابنِ عباسؓ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام جنّت سے ہندوستان میں اُترے اورحضرت حوّاعلیہا السلام جدّہ میں۔ حضرت آدم علیہ السلام اُن کی تلاش میں چلے تو چلتے چلتے مقامِ جمع تک پہنچے۔
یہاں حضرت اَمّاں حوّاعلیہا السلام اُن سے ملیں، اس لیے اس جگہ کا نام ’’مزدلفہ‘‘ پڑا۔ (طبقات ابن سعد، 57/1)۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام، حضرت آدم علیہ السلام کو مکّہ مکرّمہ لے گئے۔ جہاں حضرت آدم علیہ السلام نے کعبہ شریف کی تعمیر کی۔ حجرِ اَسود، جو وہ جنّت سے ساتھ لائے تھے، اُسے کعبے کی دیوار پر نصب کیا، پھر اُس کے گرد طواف کیا۔ طواف سے فارغ ہو کر حضرت جبرائیل علیہ السلام انہیں جبلِ عرفات پر لے گئے۔ یہاں اُن کی حضرت حوّا ؑسے ملاقات ہوئی۔ اہلِ علم بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سری لنکا (سراندیپ) کے بُلندترین پہاڑ ’’واسم‘‘ پر اُتارے گئے۔ ہزاروں سال پہلے یہ جزیرہ ہندوستان کے جنوبی حصّے میں ملا ہوا تھا۔
ابنِ بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں لکھا کہ یہ جبل سراندیپ دُنیا کے بُلندترین پہاڑوں میں سے ایک ہے۔ اس پہاڑ پر قدم شریف تک جانے کے دو راستے ہیں۔ ایک کو بابا آدم علیہ السلام کا راستہ اور دُوسرے کو اَمّاں حوّا علیہا السلام کا راستہ کہتے ہیں۔ بابا والا راستہ بڑا دُشوار گزار ہے۔ قدم شریف یعنی بابا آدم علیہ السلام کے پائوں کے نشان ایک سخت پتھر پرہیں، جس کی لمبائی گیارہ بالشت ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی بابت کوئی سَند نہیں۔ یہ تفصیل ابنِ بطوطہ نے سفرنامے میں تحریر کی ہے۔ ابنِ بطوطہ محمد تغلق کے عہدِ حکومت میں 1333عیسوی سے 1342عیسوی تک برصغیر میں رہا۔ محمد تغلق نے اسے دہلی کا قاضی مقرر کردیا تھا۔ (نشاناتِ ارضِ قرآن، صفحہ 15)۔
غرور و تکبّر اللہ کو پسند نہیں: اللہ ذوالجلال کی حکمتوں کے بھید لامحدود اور اَن گنت ہیں۔ عالم اَرض و سماء میں کوئی بھی ہستی خواہ کتنی ہی مقرّب کیوں نہ ہو، اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ کے رازوں سے واقف ہو جائے۔ اللہ کی بارگاہ میں ہر وقت عبادت میں مصروف رہنے والے ملائکہ بھی خلافتِ آدمؑ کی حکمت سے واقف نہ ہو سکے اور آخر تک حیرت میں رہے۔ ایک مُشت سڑی ہوئی خاک سے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق فرما کر خلیفۃ اللہ کے جلیل القدر منصب پر فائز کرنا اور اشرف المخلوق کے عظیم لقب سے سرفراز فرمانا، رَبّ ذوالجلال ہی کا کمال ہے۔
وہ جسے چاہے عزّت دے، جسے چاہے ذلّت۔ حضرت اِنسان کو رَبّ نے جلالت و بزرگی سمیت اعلیٰ سے اعلیٰ شرف عطا فرمایا، لیکن خلقی و طبعی کم زوریوں کے نقائص کی بناء پر حضرت آدم علیہ السلام نسیان میں مبتلا ہوکے شیطان کے وسوسوں کا شکار ہوگئے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ خطاکار بندہ اگر خلوص و صداقت کے ساتھ ندامت و توبہ کی طرف مائل ہو جائے، تو بابِ رحمت کبھی بند نہیں ہوتا۔ جب کہ ابلیس کی ہزاروں سال کی ریاضت و عبادت، تکبّر و نافرمانی کے ایک واقعے سے برباد ہوگئی اور اُسے مردُود قرار دے کر جنّت سے نکال باہر کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمیں تمہاری ایسی عبادتوں کی ضرورت نہیں، جن میں غرور و تکبّر ہو۔ بلاشبہ یہ قصّۂ سرمایہ صد ہزارعبرت ہے۔ (ختم شُد)