• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قصہ حضرت آدم اور بی بی حوا علیہما السلام کا (پہلی قسط)

جنّات کا بچّہ آسمان پر: نسلِ اِنسانی کے وجود میں آنے سے دو ہزار سال قبل رَبُّ العزت نے کائنات کو تخلیق فرمایا۔ زمین پرجنّات کو حکم رانی دی، جو آگ سے پیدا کیے گئے تھے اور آسمانوں پر نُور سے پیدا کیے گئے فرشتے و ملائکہ تھے، وہ ہر وقت عبادتِ الٰہی میں مصروفِ عمل رہتے۔ جنّات آگ سے پیدا ہونے کی وجہ سے آتش مزاج کے حامل تھے۔ سرکشی، بغاوت، دنگا فساد اور خوں ریزی اُن کی سرشت میں شامل تھی۔ جب زمین پر جنّات کا لڑائی جھگڑا حد سے بڑھ جاتا، تو اللہ ذوالجلال آسمانوں سے فرشتوں کے لشکر بھیجتے، جو اُن سرکش جنّات کو مارمار کر سمندری جزیروں اور ویران پہاڑی علاقوں میں بھگا دیتے۔ 

ایسی ہی ایک خوں ریز لڑائی کے دوران فرشتوں کو ایک ویرانے میں جنّات کا ایک معصوم سا بچّہ روتا ہوا ملا۔ اُس کے والدین شاید جنّات کی جنگ میں کام آچکے تھے۔ فرشتوں کو اُس معصوم صُورت جِنّ بچّے پر ترس آگیا۔ چناں چہ رَبِ کائنات کی اجازت سے فرشتے اُس بچّے کو آسمانوں پر لے آئے۔ جہاں وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ذہانت کی بِنا پر بہت جلد ’’معلّم الملکوت‘‘ کے نام سے پُکارا جانے لگا۔ سعید بن مسیّبؒ فرماتے ہیں کہ یہ آسمانِ دُنیا میں فرشتوں کا سردار تھا۔ (قصص ابنِ کثیرؒ، صفحہ31)۔

اللہ تعالیٰ کا بڑا فیصلہ: ایک صبح کا ذکر ہے، فرشتے حسبِ معمول عبادتِ الٰہی میں مصروف تھے کہ اچانک عرشِ الٰہی سے ایک حکم فضا میں بُلند ہوا۔ ترجمہ:’’مَیں، زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘ فرشتے اللہ رَبُّ العزت کے اس فیصلے پر حیران اور متعجب ہوئے، عرض کیا ’’اے ہمارے رَب! ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے، جو زمین میں فساد کرے اور خُون بہائے؟ اور ہم تیری تسبیح، حمد اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’جو میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے۔‘‘ (سورۃ البقرہ آیت، 30)۔ حضرت قتادہؒ فرماتے ہیں کہ ’’فرشتوں کو اس بات کا عِلم کہ اِنسان دُنیا میں فساد و خوں ریزی کرے گا، اس طرح ہوا کہ وہ دُنیا میں جنّات کے فساد اور خون خرابے سے بخوبی واقف تھے۔‘‘ 

حضرت عبداللہ بن عُمرؓ فرماتے ہیں کہ ’’جنّات، حضرت آدم علیہ السّلام سے دو ہزار سال پہلے سے آباد تھے اور جب وہ خوں ریزی کرتے، تو اللہ تعالیٰ اُن کی سرکوبی کے لیے فرشتوں ہی کو بھیجتے تھے۔‘‘ ابنِ ابی حاتمؒ نے حضرت ابوجعفر باقرؒ سے روایت کیا ہے اور حضرت ابن عباسؓ سے بھی اسی طرح کی بات منقول ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے لوحِ محفوظ سے اطلاع پائی تھی اور یہ روایت بھی ہے کہ یہ بات فرشتوں کو اُن کے دو ساتھی فرشتوں ہاروت و ماروت نے بتا دی تھی اور اُن دونوں کو یہ بات اُوپر والے فرشتے ’’سجل‘‘ نے بتائی تھی۔ (قصص ابنِ کثیرؒ، صفحہ27)۔

قرآنِ کریم میں حضرت آدمؑ کا ذکر: حضرت آدم علیہ السلام کا نام قرآنِ کریم کی نو سورتوں کی پچیس آیات میں آیا ہے۔ سورۃ البقرہ میں پانچ جگہ، سورۂ آلِ عمران کی دو آیات میں، سورۃ المائدہ کی ایک آیت میں، سورۃ الاعراف کی سات آیات میں، سورۃ الاسراء کی دو آیات میں، سورۃ الکہف اور سورۂ مریم میں ایک ایک جگہ۔ سورۂ طٰہ میں پانچ مقامات پر اور سورۂ یٰسین میں ایک جگہ۔ سورۃ البقرہ، سورۃالاعراف، سورۃ الاسراء، سورئہ کہف اور سورئہ طٰہ میں نام اور صفات دونوں کے ساتھ اور سورۂ حجر و ص ٓ میں فقط صفات کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ جب کہ سورۂ آلِ عمران، سورئہ مائدہ، سورئہ مریم اور سورئہ یٰسین میں ضمنی طور پر نام لیا گیا ہے۔

تخلیق حضرت ِ آدم علیہ السلام: حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایک مُٹّھی خاک سے پیدا فرمایا۔ یہ مٹّی تمام رُوئے زمین سے حاصل کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی نسل میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ پائے جاتے ہیں۔‘‘ (جامع ترمذی، حدیث 2955)۔ قرآنِ کریم میں ارشاد رَبّانی ہے، ترجمہ:’’اور ہم نے اِنسانوں کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے۔‘‘ (سورۂ حجر، آیت 26)۔قرآنِ کریم میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، ترجمہ:’’اسی نے اِنسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹّی سے بنایا۔‘‘(سورۃ الرحمٰن:14)۔ 

قرآنِ کریم میں آگے بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نےحضرت آدم (علیہ السلام) کو تمام چیزوں کے نام سکھا کر اُن چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، ’’اگر تم سچّے ہو، تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔‘‘ اُن سب نے کہا ’’اے اللہ! تیری ذات پاک ہے۔ ہمیں تو صرف اتنا عِلم ہے، جتنا تُونے ہمیں سکھا رکھا ہے۔ پورے علم و حکمت والا تو صرف تُو ہی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نےحضرت آدم (علیہ السلام) سے فرمایا۔ ’’تم اُن کے نام بتادو۔‘‘ جب انہوں نے نام بتا دیئے، تو اللہ نے فرمایا کہ ’’کیا مَیں نے تمہیں پہلے ہی نہیں کہا تھا کہ زمین اور آسمانوں کا غیب مَیں ہی جانتا ہوں اور میرے عِلم میں ہے، جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چُھپاتے تھے۔ (سورۃ البقرہ، آیات31تا 33)۔

حضرت آدم علیہ السلام نے وہ سب کچھ بیان کردیا، جو فرشتے بیان نہ کرسکے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک تو فرشتوں پر حکمتِ تخلیقِ آدم علیہ السلام واضح کردی، دُوسرے دُنیا کا نظام چلانے کے لیے علم کی اہمیت و فضیلت بیان فرما دی۔ جب علم کی اہمیت فرشتوں پر واضح ہوئی، تو انہوں نے علم و فہم سے متعلق اپنی لاعلمی کا اعتراف کرلیا۔ فرشتوں کے اس اعتراف سے بھی واضح ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ رَبُّ العالمین کی ذات ہے۔ اللہ کے برگزیدہ بندوں کو بھی اتنا ہی عِلم ہوتا ہے، جتنا اللہ تعالیٰ اُنہیں عطا فرماتا ہے۔

جنّت سے نکلنے کا حکم: فرشتوں کو حکم ہوا کہ ’’تم آدم کے سامنے سربسجود ہوجائو۔‘‘ فوراً تمام فرشتوں نے حکم کی تعمیل کی، مگر شیطان نے غرور اور تکبّر کے ساتھ انکار کردیا اور وہ کافروں میں سے ہوگیا۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت 34)۔اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے فرمایا، ’’جب میں نے تجھے حکم دیا تھا، تو کس چیز نے تجھے سجدے سے باز رکھا؟‘‘ اُس نے کہا ’’مَیں اِس سے افضل ہوں، تُو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے خاک سے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’تُو بہشت سے اُتر جا، تجھے حق نہیں کہ تُو یہاں رہ کر غرور کرے۔ پس نکل جا۔ بے شک تُو ذلیلوں میں سے ہے۔‘‘ اُس نے کہا ’’مجھے اُس دن تک مہلت عطا فرما، جس دن قیامت آئے گی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’جا، تجھے مہلت دی جاتی ہے۔‘‘ پھر شیطان نے کہا کہ ’’مجھے تو تُونے ملعون کیا ہی ہے۔ میں بھی تیرے سیدھے رستے پر اُن (کو گم راہ کرنے) کے لیے بیٹھوں گا۔ پھر اُن پر حملہ کروں گا، اُن کے آگے سے بھی اور اُن کے پیچھے سے بھی اور اُن کے داہنے جانب سے بھی اور اُن کے بائیں جانب سے بھی۔ اور تُو ان میں سے اکثر کو شُکر گزار نہیں پائے گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’یہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکل جا، جو شخص ان میں سے تیرا کہنا مانے گا، میں ضرور تم سب سے جہنّم کو بھر دوں گا۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیات12تا 18)۔

ابلیس کو روزِ محشر تک کی مہلت: ابلیس نے جب یہ دیکھ لیا کہ اپنے گھنائونے جُرم کے سبب وہ بارگاہِ الٰہی سے راندہ اور مردُود کردیا گیا ہے، تو اُس نے بجائے توبہ و ندامت کے اور بھی زیادہ سیاہ بختی اور نامُرادی کا ثبوت دیا، اوروہ اس طرح کہ اُس نے رَبِّ ذوالجلال کے حضور روزِ محشر تک کی حیات مانگ کر اپنے گناہوں کی رَسّی دراز کرنے کی درخواست کردی اور ساتھ ہی مزید خودسری اور شیطینت کا مظاہرہ کیا کہ جس آدم علیہ السلام سے کینہ اور نخوت رکھنے کی نحوست سے وہ جنّت کی نعمتوں سے محروم ہوا تھا، اُسی آدم علیہ السلام کو اس بات کی دھمکیاں، رَبِّ ذوالجلال کے سامنے دینے لگا کہ ’’اب مَیں تیری اولاد کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا اور اُنہیں اپنا ہم نوا بنا کر پروردگار کی نافرمانی پر مجبور کردوں گا اور اُن میں سے اکثر کو خُدا کا ناشُکرا بنادوں گا، البتہ رَب کے مخلص اور نیکوکار بندے میری گرفت میں نہ آسکیں گے۔‘‘

شیطان کی پہلی کام یابی: اب حضرت آدم علیہ السلام جنّت میں زندگی گزارنے لگے۔ یُوں تو جنّت میں تمام آسائشیں، نعمتیں موجود تھیں، لیکن اس کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام تنہائی اور اَجنبیت محسوس کرتے تھے۔ چناں چہ رَب تعالیٰ نے اُن کی راحت اور انہیں تنہائی کی وحشت سے بچانے کے لیے اَمّاں حوّا کو پیدا فرمایا، جو اُن کے لیے مونس و ہم دَم ثابت ہوں۔ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوّاء کو اللہ تعالیٰ نے اس بات کی اجازت مرحمت فرمائی تھی کہ وہ جنّت میں رہیں، گھومیں پھریں اور جو چاہیں کھائیں پئیں۔ البتہ جنّت کی بیش بہا نعمتوں میں سے ایک درخت کو متعین فرماکر اُسے کھانے اور اُس کے قریب جانے سے منع فرما دیا تھا۔

یہیں سے ابلیس کو رستہ مل گیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام اور اَمّاں حوّاء کے دل میں وسوسے ڈال کر اور بہکاوا دے کر اس درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کرلے، تاکہ ان دونوں سے رَب کی حکم عدولی کروا کر اپنی نفرت اور انتقام کی آگ بجھاسکے۔ سو، شیطان آگے بڑھا اور انہیں طرح طرح کی اُمیدیں دلانے اور دھوکے دینے لگا۔ سب سے پہلے اُس نے اُن دونوں سے یہ بات کہی کہ ’’تمہیں جنّت کے ہر درخت کا پھل کھانے کی اجازت ہے، کیا تم نے اس بات پر غور کیا کہ آخراس ایک درخت کا پھل کھانے سے کیوں منع کیا گیا ہے، آخر اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ تو سُنو، مَیں تمہیں بتاتا ہوں، پروردگار نے تم دونوں کو اس کا پھل کھانے سے اس لیے روکا ہے کہ اگرتم نے یہ پھل کھالیا، تو تمہیں سرمدی و اَبدی حیات مل جائے گی اور تم فرشتے بن جائو گے۔ موت کا فرشتہ کبھی بھی تمہارے قریب نہ بھٹک سکے گا۔ خُدا کے بندو! یہ درخت ’’شجرِ خُلد‘‘ ہے۔‘‘ ابلیس قسمیں کھا کر انہیں یہ باور کروانے کی کوشش کرنے لگا کہ ’’مَیں تم دونوں کا ہم درد اور خیرخواہ ہوں۔ میری بات مان لو اور وقت ضائع کیے بغیر اس درخت کے پاس جائو اور اس کا پھل کھالو، پھر دیکھنا کیا تبدیلی آتی ہے۔‘‘

غرض، شیطان بڑی طمع سازی کے ساتھ جھوٹی قسمیں کھا کر انہیں اپنے جال میں جکڑتارہا، یہاں تک کہ اپنی لجاجت، نرمی، خوشامد اور حد سے زیادہ ہم دردانہ رویّے کی وجہ سے وہ اپنے مشن کی کام یابی کے قریب ترآگیا، حالاں کہ ابلیس اُن کا وہی دیرینہ دُشمن تھا، جس نے حضرت آدم علیہ السلام کے خلافتِ الٰہی سے سرفراز ہونے کے حسد اور شدید نفرت کی بناء پر اُنہیں سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا اور خود خُدا نے اُنہیں سخت ترین تاکیدی الفاظ کے ساتھ اُس کی فریب کاری، دھوکا دہی سے بچنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا تھا، ترجمہ: ’’(دیکھو!) یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دُشمن ہے۔ تو کہیں یہ تم دونوں کو بہشت سے نہ نکلوادے، پھر تم تکلیف میں پڑجائو‘‘ (سورۂ طٰہ، 117) لیکن شیطان کی باتوں میں آکردونوں نے اس درخت کا پھل کھالیا۔ پھر کیا ہوا؟ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں بے لباس ہوگئے۔ خود کو اس حالت میں دیکھ کر گھبرا اُٹھے اور جنّت کے درختوں کے پتّوں سے اپنے جسموں کو ڈھانپنے لگے، یہ تھی شیطان کی پہلی کام یابی۔ (قصص الانبیاء، علامہ عبدالوہاب النجار المصریؒ، ص28، 29)۔

شرمندگی، ندامت، معافی کی التجا: اللہ ذوالجلال شیطان کی ایک ایک حرکت سے واقف تھا، لیکن مشیتِ الٰہی یہی تھی، چناں چہ جب رَبِ کعبہ نے اُن دونوں کو اس حال میں دیکھا تو فرمایا ’’کیا میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا کہ اُس درخت کے قریب نہ جانا اور شیطان کے ورغلانے میں نہ آنا، یہ تمہارا کھلا دُشمن ہے۔‘‘ (سورۃ الاعراف22)۔ 

دونوں نے جب اللہ کی پُکار سُنی، تو مارے خوف کے کانپ اُٹھے۔ نہایت لاچارگی اور عاجزی سے اپنی خطا پر نادم و شرمندہ ہوتے ہوئے بارگاہِ خُداوندی میں عرض کیا، ترجمہ:’’اے ہمارے رَب! ہم دونوں سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے۔ اَب اگر تُونے ہم پر رحم و کرم نہ فرمایا اور معاف نہ کیا، تو ہم تباہ و برباد ہوجائیں گے۔‘‘ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اب تم دونوں ایک خاص مدّت تک زمین پر رہوگے۔ جہاں تم ایک دُوسرے کے دُشمن ہوگے اور وہاں ہی مرنا ہے اور اُسی میں پھر پیدا ہونا ہے۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیات 24، 25)۔

حضرت آدم و حوّاؑ کو زمین پر رہنے کا حکم: حضرت آدم علیہ السلام اور اَمّاں حوّا ؑ زمین میں کس جگہ آکر اُترے۔ اس سلسلے میں مختلف روایات ہیں۔ علّامہ ابنِ کثیرؒ نے ان روایات کو مختلف حوالوں کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ حضرت سدیؒ سے مروی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جنّت سے ہند میں آکر اُترے، تو اُن کے پاس حجرِ اَسود بھی تھا۔ حضرت حسنؒ فرماتے ہیں کہ حضرت آدمؑ ہند میں اُترے اور حضرت حوّا ؑجدّہ میں اور ابلیس، بصرہ سے چند میل کے فاصلے پر دستیمان کے مقام پر اُترا۔ 

حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو مکّہ اور طائف کے درمیان ایک مقام پر اُتارا گیا۔ حضرت ابنِ عمرؓ نے فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام صفاء پہاڑی پر اور حضرت حوّا ؑ مروہ پہاڑی پر اُترے۔ حضرت سدّی فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس ایک مُٹّھی بھر جنّت کے درختوں کے پتّے تھے، جنہیں انہوں نے زمین پر پھیلادیا۔ زمین پر قسم قسم کے خُوش بُودار درخت ان پتّوں ہی کی پیداوار ہیں۔ 

حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت جبرائیلِ امینؑ ،حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئے اور گندم کے سات دانے ساتھ لائے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے سوال کیا۔ ’’جبرائیل امین ؑ ! یہ کیا ہے؟‘‘ عرض کیا، ’’اس درخت کا پھل ہے، جس سے آپ کو روکا گیا تھا، لیکن آپ نے تناول فرما لیا۔‘‘حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا، ’’تو اب میں اس کا کیا کروں؟‘‘ عرض کیا کہ’’ انہیں زمین میں بو دیجیے۔‘‘ حضرت آدم علیہ السلام نے بودیئے۔ وہ دانے وزن میں دُنیا کے دانوں سے لاکھ درجے زیادہ تھے۔ وہ دانے اُگے۔ 

حضرت آدم علیہ السلام نے فصل کاٹی، پھر دانوں کو بھوسی سے جُدا کر کے صفائی کی۔ اسے پیس کر آٹا گوندھا اور روٹی پکائی۔ اس طرح محنت و مشقّت کے بعد اسے تناول فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام کا پہلا لباس بھیڑ کی اُون کا تھا۔ حضرت جبرائیلؑ کی رہنمائی میں دونوں نے پہلے اُون کاٹا، پھر اسے چرخے پر کاتا، پھر حضرت آدم علیہ السلام نے اس سے اپنے لیے ایک جُبّہ اور اَمّاں حوّا ؑ کے لیے ایک لمبی قمیص اور اوڑھنی تیارکی۔ (قصص ابنِ کثیرؒ، صفحہ 64)۔ (جاری ہے)